"KMK" (space) message & send to 7575

سابقہ پٹواری کا حقِ شفعہ

سچ پوچھیں تو تقریباً ہر سیاسی پارٹی کو ہی پسوڑی پڑی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کو تو ہر طرف سے رگڑا لگا ہوا ہے اور اسے کسی طرف سے سکون نصیب نہیں ہو رہا۔ ایک طرف سے ریلیف ملے تو دوسری طرف سے مصیبت کا دروازہ کھل جاتا ہے‘ اس لیے اس کا تو ذکر ہی کیا۔ شوقِ اقتدار میں مبتلالندن سے لائے جانے والے مستقبل کے متوقع وزیراعظم کو در پیش مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے کہ اس دباؤ کے باعث کہیں پلیٹ لیٹس دوبارہ موجودہ ملکی موسمی درجہ حرارت کی مانند نیچے نہ لڑھک پڑیں۔ ان کو جس قدر پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہے‘ کسی عام آدمی کو اس کا احساس بھی نہیں ہو سکتا۔ مقتدرہ کو راضی رکھنا اور اس کی ہدایات پر من و عن عمل کرنا بھلا کون سا آسان کام ہے‘ خاص طور پر ایسے شخص کیلئے جو ہر باربارودی سرنگ پر پاؤں رکھنے کا عادی اور چلتے بیل پر چابک برسانے کے شوق میں مبتلا ہو‘ اس کیلئے تادیر طبیعت کے خلاف اس قسم کا رول نبھانا کوئی آسان کام نہیں۔ اوپر سے ان پارٹیوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے جن کی مدد اور تعاون کے طفیل سولہ ماہی حکومت کا چسکا پورا کیا جس میں عوام کے معاشی نٹ بولٹ تو خوب کسے گئے مگر نفع صرف یہ ہوا کہ اپنے سارے مقدمات ختم کروا لیے اور شتابی سے ہر مقدمے میں کلین چٹ لے کر پاک صاف ہو گئے۔
بات ہو رہی تھی اتحادیوں کی‘ جو دو قسم کے مصائب کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ایک تو پیپلز پارٹی ہے جو سابقہ باریوں والی روٹین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بار اقتدار کے ہما کو اپنے سر پر دیکھ رہی تھی مگر یہ ہما پیپلز پارٹی کی توقع کے خلاف چند سال قبل کے راندۂ درگاہ سیاستدان کے سر پر بیٹھنے کو تیار دکھائی دیتا ہے اور اس سے جو جنگ و جدل شروع ہوا ہے وہ اس صورتحال کی عکاسی کرتا ہے کہ مفاد پرستوں کی آخری لڑائی‘ ان کی باہمی لڑائی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس لڑائی پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اقتدار کی لالچ میں تو باپ بیٹا بھی خود غرض ہو جاتے ہیں‘ یہ تو صرف وقتی طور پر ذاتی مفادات کی ڈور میں بندھی ہوئی دو سیاسی پارٹیاں تھیں جن کا مطمح نظر صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور مقدمات سے بریت تھا۔
اتحادیوں کی دوسری قسم ان مفاد پرستوں کی ہے جو عمران خان کی مقبولیت کے سیلاب میں بہہ جانے کے خوف سے ایک مشترکہ اور مضبوط پشتہ بنا کر محفوظ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ ان کی ممکنہ بقا صرف اس بات میں ہے کہ وہ اپنے سارے مشترکہ ووٹ ایک جگہ پر اکٹھے کر لیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر یہ سارے خوفزدہ اتحادی اپنے ووٹ اکٹھے بھی کر لیں تو بھی ان کی دال اس وقت تک نہیں گل سکتی جب تک کہ وہ پی ٹی آئی کو بلّے کے انتخابی نشان اور اس کے امیدواروں کو انتخابی مہم سے مکمل طور پر آؤٹ نہ کر دیں‘ محض اکٹھا ہونا ناکافی ہے۔
ایم کیو ایم‘ (ق) لیگ‘ آئی پی پی اور مولانا فضل الرحمن کو ان کی خواہشات کے مطابق سیٹیں دینا ایک الگ مصیبت ہے۔ ہر اتحادی گوٹی پھنسی دیکھ کر اپنی بساط سے زیادہ پھیل رہا ہے۔ اوپر سے مسلم لیگ (ن) کو اپنے اندر دو مسائل درپیش ہیں۔ ایک وہ لوگ جو تحریکِ عدم اعتماد کے دوران پی ٹی آئی کو چھوڑ کر شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے دست و بازو بنے تھے۔ یہ منحرف افراد اب مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں اور ان سے 2018ء میں الیکشن ہارنے والے مسلم لیگ (ن) کے سابقہ امیدوار بھی اپنے حلقوں میں ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم لیگ (ق)‘ آئی پی پی‘ جی ڈی اے‘ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر علیحدہ سے تنگ کر رکھا ہے۔ ایک اکیلی جان اور وہ بھی تازہ تازہ بیماری سے اٹھی ہوئی‘ بھلا ان سارے بکھیڑوں کا سامنا کیسے کر سکتی ہے۔
خوف کا یہ عالم ہے کہ مولانا فضل الرحمن‘ جو گزشتہ الیکشن میں اپنی شکستِ فاش کو آر ٹی ایس پر تھوپتے تھے‘ اب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی یقین دہانی‘ خیبر پختونخوا سے اپنے مخالف پی ٹی آئی امیدواروں پر ہونے والے اَن گنت پرچوں‘ گرفتاریوں اور طبیعت کی حتی الامکان صفائی کے باوجود خیبر پختونخوا سے اپنی جیت کے بارے میں اس حد تک مشکوک ہیں کہ زندگی میں پہلی بار بلوچستان کے ضلع پشین سے امیدوار ہیں اور اس کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں پی ٹی آئی کا امیدوار نہیں ہے‘ وگرنہ مولانا کوئی اور ایسا ضلع تلاش کرتے جہاں کم از کم پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار نہ ہوتا۔ مولانا خیبر پختونخوا سے این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ پشین سے این اے 265پر بھی امیدوار ہیں۔
مزید مصیبت یہ آن کھڑی ہوئی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اپنے لیے سیٹوں کی طلب گار ہے اور آئی پی پی والے جہانگیر ترین اپنے لیے اور اپنے قریبی ساتھیوں کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ یہ وہ تمام سیٹیں ہیں جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنے پرانے امیدوار موجود ہیں۔ ان پرانے امیدواروں میں سے اکثر نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اس کھیکھڑ میں قربانی دینے سے صاف انکار کر دیا ہے اور وہ اپنے اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے پر بضد ہیں۔ ملتان کے دور و نزدیک صرف ایک حلقہ این اے 149ملتان iiہے جہاں سے جہانگیر ترین کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے کھاتے میں اکاموڈیٹ کیا جانا آسان ہے کہ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا حال اتنا پتلا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس سیٹ پر بدترین شکست کی بدنامی سے بچنے کیلئے جہانگیر ترین کا سہارا لے سکتی ہے۔ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار طارق رشید نے صوبائی اسمبلی کیلئے بھی کاغذات جمع کروا رکھے ہیں اور وہ بخوشی اس پر راضی ہو جائیں گے کہ ان کے الیکشن کا خرچہ بھی جہانگیر ترین کی جیب سے ہو جائے گا۔
یزمان میں (ق) لیگ کے طارق بشیر چیمہ کی سیٹ پر مسلم لیگ (ن)کا سعود مجید اڑا ہوا ہے اور لودھراں میں جہانگیر ترین والی سیٹ پر صدیق بلوچ اکڑا ہوا ہے۔ این اے 153ملتان VI جلالپور پیروالہ میں علیحدہ گھڑمس مچا ہوا ہے۔ وہاں سے پی ٹی آئی کا منحرف رکن رانا قاسم مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کا طلبگار بھی ہے اور فی الحال اس کا ٹکٹ کے حصول کیلئے پلڑا بھی بھاری دکھائی دے رہا ہے لیکن حال یہ ہے کہ اس کا حال بہت ہی پتلا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اپنے اندر ٹکٹوں کی تقسیم پر جو لڑائی ہے وہ اب سب کو دکھائی بھی دے رہی ہے۔ این اے 152 ملتان Vشجاع آباد میں مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ایم این اے جاوید علی شاہ اور سابقہ ایم پی اے رانا اعجاز احمد میں ٹھنی ہوئی ہے۔ این اے 150ملتان iiiسے پی ٹی آئی کے منحرف ایم پی اے جاوید انصاری کے مقابلے میں وحید آرائیں کو بہرحال ٹکٹ تو مل رہا ہے لیکن اسی حلقے سے مسلم لیگ (ن) کا سینیٹر رانا محمود الحسن بھی امیدوار تھا جسے سینیٹ الیکشن میں اپنا ووٹ بیچنے کے سلسلے میں مشکوک ہونے کی وجہ سے ٹکٹ سے انکار کر دیا گیا ہے اور شنید ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے ٹکٹ کا امیدوار ہے اور اس حلقے میں پیپلز پارٹی کو کوئی کام کا امیدوار بھی میسر نہیں ہے۔
ووٹ کی عزت کا یہ عالم ہے کہ الیکشن 2018ء میں محکمۂ زراعت کی اصطلاح کا موجب و موجد بننے والے مسلم لیگ (ن) کے پرانے وفادار رانا اقبال سراج کے مقابلے میں کئی سیاسی پارٹیاں بدلنے والے سابقہ پٹواری رائے کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔ میں نے شوکت گجر سے پوچھا کہ مسلم لیگ (ن) اپنے وفادار کے مقابلے میں ایک منحرف سابقہ پٹواری کو کیوں ٹکٹ دے رہی ہے؟ شوکت زور سے ہنسا اور کہنے لگا کہ بحیثیت سابقہ پٹواری اس امیدوار کا مسلم لیگ (ن) پر حقِ شفعہ بنتا تھا جو اس نے استعمال کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں