"KMK" (space) message & send to 7575

موازنہ … (2)

اس لائبریری کی شہر کے وسط میں ایستادہ بلند و بالا عمارت کی باہر والی چاروں دیواروں کے اوپر بائیں کونے پر چار مختلف زبانوں میں ''لائبریری‘‘ لکھا ہوا ہے۔ لائبریری انتظامیہ کو شمالی دیوار پر جرمن زبان میں لائبریری لکھتے ہوئے تو کسی تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ تاہم باقی تین دیواروں کیلئے تین زبانوں کا انتخاب یقینا ایک مشکل مرحلہ ہوگا ،تاہم ایک بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اس عمارت کی مغربی دیوار پر انگریزی میں لکھا ہوا لائبریری کا لفظ براجمان ہے۔ مشرقی دیوار کے اسی مقام پر کورین زبان میں لائبریری لکھا ہوا ہے۔ کورین زبان کو یہ اعزاز محض اس لیے بخشا گیا کہ اس لائبریری کی تعمیر سے قبل 1999ء میں اس کے ڈیزائن کیلئے ایک انعامی مقابلہ ہوا‘ اس مقابلے میں دنیا بھر کے ماہرینِ تعمیرات نے اس لائبریری کیلئے اپنے بنائے ہوئے نقشے اور ڈیزائن بھجوائے جن کی کل تعداد 235 تھی۔ ان میں سے کورین آرکیٹیکٹ Eun Young Yi کا بنایا ہوا تعمیراتی ڈیزائن منتخب ہوا۔ کورین آرکیٹیکٹ کے اس اعزاز کے اعتراف میں میونسپلٹی نے اس لائبریری کی ایک دیوار کورین زبان سے مزین کر دی۔ اس کی جنوبی دیوار پر عربی زبان میں ''مکتبہ‘‘ کا لفظ جگمگا رہا ہے۔ لائبریری انتظامیہ کے مطابق عربی زبان کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ علومِ کہنہ کی سب سے مستند اور نمایاں زبان ہے۔ اوپر سے قاہرہ سٹوٹگارٹ کا جڑواں شہر بھی ہے اور وہاں کی زبان عربی ہے۔
میں نے جب لفٹ کے ذریعے اس کی آٹھویں پر پہنچ کر بالکونی کی ریلنگ سے جھک کر نیچے نظر ڈالی تو اس کی خوبصورتی نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور میں نے اپنی آنکھوں کو ایک بار مل کر اس خیرہ کن منظر کو بارِ دگر حیرانی سے دیکھا۔ چوکور عمارت کی چاروں بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ اندر کی طرف چوڑی بالکونی کی صورت میں چاروں طرف گھومتی ہوئی کتابوں سے بھری الماریوں پر مشتمل راہداریاں ایک عجب ہندسی ترتیب اور توازن کے ساتھ نظر کے سامنے تھی مگر لگتا تھا کہ یہ حقیقی تعمیر شدہ عمارت نہیں بلکہ کوئی تھری ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائی گئی تصویر ہے۔ زمین سے‘ یعنی گراؤنڈ فلور سے لے کر آخری آٹھویں منزل تک درمیان میں خالی جگہ ایسی جمالیاتی خوبصورتی پیش کر رہی تھی کہ نہ تصویر اس کی منظرکشی کے معیار پر پوری اُتر سکتی ہے اور نہ ہی اسے الفاظ میں بیان کرنا کسی طور ممکن ہے۔ میں نے دوچار تصاویر لینے کے بعد اسے کارِ لاحاصل جانا اور مزید تصاویر لینے کے بجائے اس حسنِ ترتیب کو یادوں کے البم میں چسپاں کر لیا۔
یہ لائبریری اول اول 1840ء میں بننے والے ورٹمبرگ (Wurtttemberg) بادشاہ کے محل میں 1901ء میں قائم کی گئی تاہم اسے 2011ء میں آٹھ کروڑ یورو سے تعمیر کی گئی اس نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ جرمنی کی اس سب سے بڑی میونسپل لائبریری کو 2013ء میں ''لائبریری آف دی ایئر‘‘ کا قومی ایوارڈ دیا گیا۔ آٹھ منزلوں میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد کتابوں کو آٹھ مختلف موضوعات کے حساب سے ترتیب دے کر بنائی گئی اس لائبریری کو سالانہ بیس لاکھ مہمان دیکھنے آتے ہیں۔ اسکے گراؤنڈ فلور پر استقبالیہ‘ معلومات کا ڈیسک اور سہولیاتی دفاتر ہیں۔ پہلی منزل پر موسیقی کی مختلف جہتوں پر مشتمل ایسا شاندار مجموعہ ہے کہ جی خوش ہو جائے۔ دوسری منزل بچوں کیلئے مخصوص ہے جہاں کتابوں‘ فلموں اور تصویری ادب کا حیرت کدہ بچوں کو اسیر کرتا ہے۔ تیسری منزل لائف یعنی حیات کے موضوع پر مشتمل کتابوں‘ رسالوں دستاویزی مجلوں اور آڈیو ویژول خزانے سے بھری ہوئی ہے۔ چوتھی منزل نالج کے نام سے معنون ہے اور علم و آگہی سے متعلق کتابوں سے لبریز ہے۔ پانچویں منزل ''دنیا‘‘ کیلئے وقف ہے۔ اس سیکشن میں دنیا کو جغرافیائی خطوں کی ترتیب دے کر ان میں موجود ممالک سے متعلق کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ یہاں جنوب مشرقی ایشیا و جنوبی ایشیا کے ممالک کو اکٹھے رکھا گیا تھا۔ یہاں ایک الماری پر انڈیا‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کا سٹیکر لگا ہوا تھا مگر پاکستان والا خانہ بالکل خالی پڑا ہوا تھا۔ چھٹی منزل لٹریچر کیلئے مخصوص ہے اور یہاں دنیا بھر کے خزینۂ ادب کی کہکشاں قاری کو اپنے رنگوں سے مسحور کر رہی تھی۔ میں نے اس سیکشن میں اردو ادب سے متعلق کتابیں تلاش کرنے کی کوشش مگر بری طرح مایوسی ہوئی۔ ایک جگہ پر اس سیکشن میں موجود جن زبانوں کی کتب موجود تھی ان زبانوں کی فہرست دی گئی تھی جس میں 26زبانیں شامل تھیں۔ میں نے اپنی مزید تسلی کیلئے اس سیکشن کے آغاز میں پڑے ہوئے کمپیوٹر پر قسمت آزمائی کرتے ہوئے اردو لکھ کر اس پوری لائبریری میں کتاب تلاش کرنے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ اس لائبریری کے ریفرنس سیکشن میں دو عدد اردو انگریزی ڈکشنریوں کے موجود ہونے کا اندراج تھا۔ گویا اس پوری لائبریری میں ان دو ڈکشنریوں کے علاوہ اُردو ادب کی ایک کتاب بھی موجود نہیں تھی۔
میری جھنجھلاہٹ دیکھ کر مزے لینے کیلئے بابر نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا کہ آپ اُردو ادب کا حال دیکھ لیں۔ میں نے اسے کہا کہ یہاں اُردو ادب کی کتابوں کی ناموجودگی ہماری وجہ سے نہیں بلکہ سٹوٹگارٹ میں آپ جیسے پاکستانیوں کی کتاب سے دوری کے باعث ہے۔ بابر حیرانی سے پوچھنے لگا کہ وہ کیسے؟ میں نے کہا: اگر آپ لوگ اس لائبریری میں باقاعدگی سے آتے‘ لائبریری انتظامیہ سے اُردو ادب کی کتابیں مانگتے اور ان کی عدم موجودگی کے بارے میں شکایات درج کرواتے ہوئے اور اُردو زبان کی کتابوں کیلئے اصرار کرتے تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ لائبریری انتظامیہ آپ کی خواہش کو رَد کرتی۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ یہاں شہری حکومتیں کس طرح عوامی خواہشات کا احترام کرتی ہیں۔ بابر کہنے لگا: آپ درست کہتے ہیں۔ ساتویں منزل پر انتظامیہ کے دفاتر جبکہ آٹھویں منزل آرٹ کیلئے مختص تھی۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں پینٹنگز اور آرٹ کے نمونے ایک خاص ترتیب سے پڑے تھے اور ان سب کو آسانی سے تلاش کرنے کے لیے دو طرح کے کیٹلاگ موجود تھے جو آرٹسٹ یا تصاویر کے ناموں کے حساب سے ترتیب دیے گئے تھے۔ اس منزل پر ایک چھوٹا سا شاندار کیفے بھی تھا جس کی باہر والی سائڈ شیشے کی دیوار پر مشتمل تھی اور یہاں بیٹھ کر چائے‘ کافی یا سنیکس کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے دوران اس بلندی سے شہر کے منظر نامے سے بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ روف ٹاپ یعنی اس عمارت کی چھت پر ایک باغیچہ اپنی پھبن بکھیر رہا ہے۔
اللہ جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں دوبارہ نیچے دوسری منزل پر پہنچ گیا اور بچوں کے سیکشن میں اُردو کتابیں تلاش کرنے لگ گیا۔ ناکام ہوکر میں اس سیکشن کی خاتون لائبریرین کے پاس گیا اور اُس سے بچوں کے ادب میں اُردو زبان کی کتابوں کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کمپیوٹر پر تھوڑی دیر تک کوشش کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ بچوں کے سیکشن میں چار اُردو کتابیں موجود ہیں۔ یہ کہہ کر اُس خاتون نے ہمیں اپنے ہمراہ لیا اور ایک شیلف پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی کہ یہ آپ کا مطلوبہ شیلف ہے۔ میں بے صبری سے اس میں اُردو کتابیں تلاش کرنے کی کوشش جو بالآخر کامیابی پر منتج ہوئی اور مجھے وہ چاروں کتابیں مل گئیں۔ یہ بھلا کتابیں بھی کب تھیں؟ پندرہ بیس صفحات پر مشتمل پتلی پتلی رسالہ نما کتابیں تھی جن کے نام ٹام اور صوفیہ سکول شروع کرتے ہیں‘ ہم اس روتے بسورتے بچے کے ساتھ کیا کریں۔ چیتے کی برابری اور ہم ریچھ کی تلاش میں جا رہے ہیں‘ تھے۔ میں نے اب چاروں کتابوں کو ہاتھ میں پکڑ کر تصویر بنوائی اور اس سیکشن سے نکلتے ہوئے بابر سے کہا کہ اس شہر کے بچے کم از کم آپ بڑوں سے بہتر ہیں کہ ان میں سے کسی نے یہاں آ کر اپنے لیے اُردو کی کتاب تو مانگی ہو گی جس کے بعد لائبریری انتظامیہ نے بچوں کی یہ چار کتابیں خریدی ہوں گی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں