"KMK" (space) message & send to 7575

ہائیڈل برگ کی شام

اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ابا جی مرحوم کو‘ میں ان کے علامہ اقبالؒ سے عشق کے باعث ہائیڈل برگ جا رہا تھا۔ ہمیں دیر سے ہی سہی مگر یہ علم ہو گیا کہ علامہ اقبالؒ ان کی باقاعدہ کمزوری ہیں۔ لہٰذا ہم نے ان کے اس نرم گوشے سے بارہا فائدہ اٹھایا۔ کسی زمانے میں جب ایسا گمان ہوتا کہ ابا جی کسی بات پر بہت ناراض ہیں اور اب اس سلسلے میں کلاس لگنے والی ہے تو ہم حتی الامکان ان کی نظروں سے بچنے کیلئے ادھر ادھر ہو جاتے اور ممکنہ حد تک ان سے پرے پرے رہنے کی سعی کرتے۔ تاہم جب ہمیں ان کی علامہ اقبالؒ والے نرم گوشے کا پتا چلا‘ تو ہم ایسے موقع پر ان کی نظروں سے بچنے کے بجائے کسی نہ کسی بہانے کوئی کتاب اٹھا کر یا علامہ اقبالؒ کے کسی شعر کی تشریح سمجھنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے ان کے حضور از خود پیش ہو جاتے اور وہ ہمیں ڈانٹنا ڈپٹنا بھول جاتے اور تفہیمِ اقبال میں ایسے گم ہوتے کہ انہیں کسی اور شے کا خیال تک نہ آتا۔
گرمیوں میں یہ روٹین تھی کہ سکول یا کالج سے واپس آکر نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد ڈیڑھ دو گھنٹے کیلئے ڈرائنگ روم میں بچھی دری پر اجتماعی قیلولہ کیا جاتا۔ اس دوران اگر کوئی بچہ نہ سوئے تو وہ بڑے کمرے میں رکھی ہوئی سٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر پڑھائی کر لیتا تھا، لیکن گرمیوں کی دوپہر میں گھر سے باہر جانے پر غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ اب بھلا ہمیں دوپہر کو کہاں نیند آتی تھی۔ ہم ابا جی کے پاؤں دباتے رہتے تاوقتیکہ وہ سو جاتے۔ اس کے بعد ہم گھر سے نکلتے اور ادھر اُدھر گلیوں میں گھومنا شروع کر دیتے۔ اللہ جانے بچپن میں ہم کس ہڈی سے بنے ہوئے تھے کہ چلچلاتی دھوپ میں پھرتے اور ملتان کی شہرہ آفاق گرمی میں بعض اوقات حاجی بٹے کے باغ میں گھومتے یا ماسی حجانی کے کھیت میں لگی ہوئی جوار کی قدِ آدم فصل میں گھس جاتے اور آموں کے پودے تلاش کرتے۔
ہم پوری کوشش کرتے کہ ابا جی کے جاگنے سے پہلے پہلے گھر واپس آ جائیں تاہم سیزن میں دو‘ چار بار ہم پکڑے جاتے اور وہ بھی یوں کہ ابا جی کی آنکھ کسی کی بے وقت آمد پر گھنٹی بجانے سے کھل جاتی۔ وہ انتظار کرتے کہ ہم دونوں میں سے (میں اور بھائی طارق مرحوم) کوئی اُٹھ کر دروازہ کھول دے گا مگر ہم ہوتے تو دروازہ کھولتے، لہٰذا ابا جی کو علم ہو جاتا کہ ہم دونوں گھر سے غائب ہیں۔ اس روز ہماری خوب کلاس لی جاتی۔
ایک روز اسی طرح دوپہر کو گھوم پھر کر واپس آئے تو ابا جی اپنے معمول کے وقت سے پہلے جاگ چکے تھے۔ ڈانٹ کے مسئلے میں بھائی طارق مرحوم پر زیادہ کرم فرمائی ہوتی کہ ابا جی کہتے تھے کہ چھوٹے بھائی نے وہی کچھ کرنا ہے جو بڑے بھائی سے سیکھے گا۔ لہٰذا اصل قصور وار بڑا بھائی ہے جو چھوٹے بھائی کو بگاڑنے کے مشن پر لگا ہوا ہے۔ اس روز بھائی طارق کو ڈانٹ پڑ رہی تھی جبکہ میں پیچھے دروازے کے ساتھ لگا کھڑا تھا کہ اللہ جانے بھائی طارق کے جی میں کیا آئی کہ ابا جی سے کہنے لگے کہ علامہ اقبالؒ گرمیوں کی دوپہر سونے کے بجائے بازار حکیماں میں ایک چبوترے پر بیٹھ کر حقہ پیتے تھے اور علاقے کے نامی گرامی کبوتر بازوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی فرماتے تھے بلکہ انہیں فنِ کبوتر بازی پر بڑے پُرمغز مشورے بھی دیتے تھے۔ ابا جی خلافِ معمول خاموشی سے ساری باتیں سن رہے تھے۔ بھائی طارق کو لگا کہ ابا جی اس کے دلائل سے متاثر ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کیلئے کہا کہ علامہ اقبالؒ گرمیوں کی دوپہر میں تھڑے پر بنیان پہن کر بیٹھتے تھے اور پتنگ بازوں کو ڈور کا مانجھا لگانے کے گُر بھی بتاتے تھے۔ اب تو ابا جی کا حوصلہ جواب دے گیا۔ انہوں نے بھائی کو اتنے زور کا تھپڑ مارا کہ وہ بے ہوش کر گر گئے اور ان کا سامنے کا آدھا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ اس واقعے کے بعد کسی کی دوبارہ ایسی جرأت نہ ہوئی کہ علامہ اقبالؒ سے کوئی اوٹ پٹانگ یا من گھڑت بات منسوب کی جاتی۔ دوچار دن کے بعد ابا جی نے بھائی پر مہربانی کرتے ہوئے اسے پاس بٹھایا اور علامہ اقبالؒ کے شب و روز کے بارے میں بڑی تفصیل سے باتیں بتائیں اور آخر میں بھائی کو تنبیہی انداز میں نرمی سے کہا کہ آئندہ علامہ صاحب کے بارے میں اس قسم کی فضول گفتگو کی تو تمہاری خیر نہیں۔
کل دوپہر عشروں بعد یہ ساری باتیں صرف اس لیے یاد آئیں کہ سٹوٹگارٹ سے ہائیڈل برگ جاتے ہوئے راستے میں ابا جی کی علامہ اقبال سے محبت یاد آئی تو دل بھر آیا۔ اللہ بخشے ابا جی نے اپنی زندگی کے آخری تین عشرے تو صرف علامہ اقبال کو پڑھنے اور ان پر لکھنے میں گزار دیے۔ اس دوران ان کو علامہ اقبال پر تحقیقی کام پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا اور آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تب بھی علامہ اقبال کی فارسی نظموں کی تشریح پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے گزشتہ تین ساڑھے تین عشروں میں علامہ اقبال سے متعلق سینکڑوں کتابیں اپنے کمرے کے تین طرف بنے ہوئے شیلفوں میں سجا رکھی تھیں۔ پھر خدا جانے ان کے دل میں کیا آئی کہ انہوں نے اپنی وفات سے چند ماہ پہلے‘ جب وہ بالکل صحت مند اور تندرست تھے‘ یہ ساری کتابیں جھنڈیر لائبریری بھجوا دیں۔ کہنے لگے: میرا کام ختم ہو رہا ہے لیکن یہ کتابیں علامہ صاحب پر کام کرنے والوں کے کام آئیں گی۔ چند ماہ بعد وہ اپنے اللہ کے ہاں حاضر ہو گئے۔
سٹوٹگارٹ سے ہائیڈل برگ صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے‘ اگر یہ زیادہ بھی ہوتا تو بھی میں ضرور جاتا۔ ہائیڈل برگ کا ذکر پہلی بار میں نے ابا جی سے ہی سنا تھا۔ جب وہ علامہ اقبالؒ پر تحقیق کے سلسلے میں مختلف لائبریریوں اور ہر اُس جگہ جاتے رہے جسے علامہ اقبالؒ سے کوئی نسبت رہی تھی۔وہ ہائیڈل برگ کا ذکر بڑی حسرت سے کرتے تھے کہ وہ چاہنے کے باوجود وہاں نہ جا سکے۔ ہائیڈل برگ جانے کا میرا اپنا شوق اپنی جگہ‘ لیکن میرے پیشِ نظر ابا جی مرحوم کی حسرت کا بڑا دخل تھا۔ دریائے نیکر کے کنارے سڑک کے پار ایک اپارٹمنٹ کی اینٹوں والی دیوار پر پتھر کا ایک کتبہ نصب ہے‘ اس پر جرمن زبان میں لکھا ہوا ہے ''محمد اقبال (1877-1938ء) نیشنل فلاسفر‘ شاعر اور تصورِ پاکستان کے خالق اس جگہ 1907ء میں رہائش پذیر تھے‘‘۔ سڑک پر نہ تو پارکنگ کی جگہ ہے اور نہ ہی اجازت۔ منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کی سرد شام میں بابر نے علامہ اقبالؒ کے گھر کے سامنے لمحہ بھر کے لیے بریک لگائی اور میں گاڑی سے اُتر گیا۔ ساتھ اویس کھوسہ بھی تھا۔ پتلی سی فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر میں نے علامہ اقبالؒ کو یاد کیا تو ابا جی بہت یاد آئے۔ میں نے سڑک پار کی اور دوسری طرف جا کر اس چھوٹے سے گھر کو اپنی یادوں کی البم میں اتارنے کی کوشش کی جس میں کبھی بہت بڑے آدمی کی سانسوں کی مہک بسا کرتی تھی۔
سڑک کی دوسری طرف دریا اور فٹ پاتھ کے درمیان جھاڑیوں پر برف اس طرح دکھائی پڑتی تھی جیسے کپاس کے بے شمار پھول کھلے ہوں۔ دریائے نیکر کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی اور میں مصورِ پاکستان کے خواب اور اس کی آج کی حقیقت والے ملک کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ علامہ اقبالؒ نے یقینا ایسے پاکستان کا تو کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا جس میں رہنا ہمارا نصیب ہے۔ میں دیر تک 58 نمبر کے اس گھر کے سامنے کھڑا رہا تاوقتیکہ دن چھپ گیا۔ وہاں سے پیچھے جا کر دریا پار کیا اور دوسری طرف Iqbal-Ufer پر چلا گیا۔ جرمن زبان میں Ufer کا لفظ دریا کے کنارے راستے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہم سب دوست اس سڑک پر دیر تک چلتے رہے حتیٰ کہ آہستہ آہستہ سب دکانیں بند ہو گئیں۔ اللہ جانے کیا بات تھی کہ واپسی کا سارا سفر خاموشی سے کٹا۔ ہائیڈل برگ کی شام نے تو اداس کرکے رکھ دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں