"KMK" (space) message & send to 7575

ایک نیا کٹا کھلنے کا منتظر ہے

ویسے تو اس لاوارث ملک کو گزشتہ 76سال سے اشرافیہ کی ٹرائیکا نے یرغمال بنا رکھا ہے لیکن اصل افسوس اس بات کا ہے کہ حالات کسی طور بھی درستی کی طرف نہیں جا رہے اور روز بروز اس ٹرائیکا کی خواہشات بڑھتی جا رہی ہیں اور موجودہ نظام اس کے سامنے دیوارِ مزاحمت بننے کے بجائے اس کے آگے بچھا چلا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں جو چیز زیادہ افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف ہمارے ملک میں ہو رہا ہے۔ اس خطے کے دیگر تمام ممالک آگے جا رہے ہیں اور ہم پیچھے کی طرف کھسک رہے ہیں۔ اگر سارے خطے میں یہی کچھ ہو رہا ہوتا تو شاید دل کو صبر آ جاتا کہ اگر سب کے ساتھ یہی ہو رہا ہے تو ہم کون سا کسی اور دنیا کے باسی ہیں لیکن اس خطے میں صرف اور صرف ہم ہی ہیں جو روز بروز پستی میں گرتے جا رہے اور ہمیں اس سے نکلنے کی نہ کوئی پروا ہے نہ ہی کوئی سبیل ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی ایسا ارادہ ہے۔
اگر اس ملک میں برُی بھلی جیسی بھی تھی‘ جمہوریت چلتی رہتی تو ہمیں بالآخر اس ملک کی سیاسی بساط پر قابض خاندانوں سے نجات مل جاتی‘ مگر برُا ہو آمریت کا کہ اس نے ہر بار عین اس وقت پر شب خون مار کر بظاہر تو ناکام سیاستدانوں سے قوم کی جان چھڑوا دی مگر حقیقت میں اس شب خون نے جہاں جمہوری اقدار کو پختہ ہونے سے محروم کیا‘ وہیں اس نے ملک میں خاندانی اور موروثی سیاست کو دوام بخشا کہ ہر بار بے وقت کی مداخلت نے ناکام ہوتے ہوئے جمہوری حکمرانوں کو مظلوم بنا کر انہیں نئی سیاسی زندگی عطا کر دی اور موروثی اقتدار پیر تسمہ پا کی طرح ہمارے کندھوں پر سوار رہا۔ اس دوران صرف یہ ہوتا رہا کہ دو خاندان باریاں لگاتے رہے۔ بھارت میں نہرو خاندان سے طاقتور سیاسی خانوادہ بھلا کون ہو سکتا تھا؟ نہرو نے بھارت پر بطور وزیراعظم سترہ سال حکومت کی۔ اندرا گاندھی نے دو بار ملا کر پندرہ اور راجیو گاندھی نے پانچ سال وزارتِ عظمیٰ کے مزے کیے۔ یعنی نہرو خاندان کی تین پشتوں نے کل ملا کر تقریباً 37سال حکومت کی‘ لیکن یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ آج اُس ملک کا وزیراعظم ایک چائے والا ہے اور اُس کا کریڈٹ اس چیز کو جاتا ہے کہ وہاں جمہوریت تسلسل سے چلتی رہی۔ گزشتہ 76سال کے دوران بھارت نے کُل ملا کر 14وزرائے اعظم اور 33عدد آرمی چیف بھگتائے جبکہ ہم نے اسی عرصے میں 23وزرائے اعظم فارغ کیے اور کل 17آرمی چیف بدلے۔ بھارت میں وزارتِ عظمیٰ کا اوسط دورانیہ تقریباً ساڑھے پانچ سال اور آرمی چیف کا اوسط دورانیہ تقریباً سوا دو سال کے لگ بھگ ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ اوسط بالکل اُلٹ ہے۔ پاکستان میں وزیراعظم کا عہدہ 1947ء سے لے کر 2023ء کے 76سالوں میں صرف پچپن سال فعال رہا اور اس دوران مارشل لاء کے باعث تقریباً 21سال یہ عہدہ معطل رہا۔ اس حساب سے 55سال میں 23وزرائے اعظم فارغ ہوئے۔ یعنی ایک وزیراعظم اوسطاً دو سال چار ماہ کے لگ بھگ اپنے عہدے پر فائز رہا جبکہ ہر آرمی چیف اوسطاً ساڑھے چار سال اپنے ادارے کا سربراہ رہا۔ یاد رہے کہ ہمار وزیراعظم کی آئینی مدت پانچ سال جبکہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت تین سال طے ہے۔
خیر اس سارے حساب کتاب میں جو گڑ بڑ دکھائی دے رہی ہے اس میں ہمارے تمام سیاستدانوں کا اپنا ہاتھ بھی شامل ہے کہ انہوں نے کمزور ہی سہی مگر حکمرانی کے لالچ اور شوق میں آمروں کے ہاتھ مضبوط کیے اور پھر انہی مضبوط ہاتھوں نے جمہوری حکمرانوں کو زور زبردستی سے گھر بھیجا ‘مگر ہر بار یوں ہوا کہ اقتدار سے فارغ بیٹھے ہوئے سیاستدان نے اس غیرجمہوری طرزِ عمل پر خوشی سے نعرے لگائے اور آمر کو اپنی تمام حمایت اور کندھا پیش کرکے اپنا اُلو سیدھا جبکہ جمہوریت کا بیڑہ غرق کیا۔ اس حمام میں سب حکمران برابر کے شریک اور ننگے ہیں۔
حکمرانی کا شوق اتنا ظالم ہے کہ جو ایک بار اس کا مزہ چکھ لے وہ ہر قیمت اور ہر حال میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ اس کیلئے اسے اپنی اَنا گروی رکھنا پڑے یا عزتِ نفس کا جنازہ ہی کیوں نہ نکالنا پڑے‘ وہ اقتدار کے حصول کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہے۔ موجودہ صورتحال دیکھ لیں۔ کسی کے پاس نہ سادہ اکثریت ہے اور نہ ہی ہم خیال سیاسی پارٹیاں ہیں۔ جن کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانے کی تیاریاں ہیں ان میں کسی کی سیاسی ترجیحات میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ دونوں بڑی اتحادی سیاسی جماعتیں تقریباً تقریباً ایک دوسرے کی سیاسی ضد واقع ہوئی ہیں اور ان کے ایک دوسرے کے بارے میں حقیقی خیالات الیکشن مہم کے دوران سب نے دیکھے ہیں۔ لیکن جیسے ہی اقتدار کی کشتی کنارے لگی ہے‘ دو بڑے فریق ایک دوسرے کے خلاف دیے جانے والے تمام تر بیانات سے یوٹرن لیتے ہوئے اب ایک دوسرے کے دوست بھی ہیں اور شریکِ حکمرانی بھی۔ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ اقتدار کے حصول کیلئے یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو حصہ دینے کیلئے تیار ہیں لیکن خود اپنی پارٹی کے اندر اپنے پرانے وفاداروں سمیت کسی کو اقتدار کی گاڑی کا ڈرائیور بنانے کیلئے قطعاً تیار نہیں اور اس کیلئے انہوں نے پارٹی کے بجائے خاندان کو آگے رکھنے کا اصول اپنا رکھا ہے۔ ایک پارٹی باپ‘ بیٹا‘ بیٹی اور بہن پر مشتمل ہے تو دوسری فہرست بڑے بھائی‘ چھوٹے بھائی‘ بیٹی‘ بھتیجے اور سمدھی پر مشتمل ہے۔ جمہوریت کی دعویدار دونوں پارٹیوں کی یہی وہ مکمل فہرست ہے جسے اقتدار کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا استحقاق ہے۔
سب کو دکھائی پڑ رہا ہے کہ یہ کمپنی زیادہ دیر چلنے کی نہیں ہے لیکن پھر بھی لوگ ہر طرح سے منت ترلا‘ یقین دہانیوں اور معافی تلافی کے ذریعے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کیلئے تمام تر جمہوری اور اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اقتدار کے پلیٹ فارم پر دھکم پیل کر رہے ہیں۔ اس 24کروڑ آبادی والے ملک میں صرف ایک فرد حافظ نعیم الرحمن تھا جس نے غلط بخشی کے ذریعے اپنی جھولی میں ڈالی جانے والی صوبائی اسمبلی کی نشست سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ میں اس سیٹ پر ہار گیا تھا اور مجھے غلط طور پر جتوایا گیا ہے‘ وگرنہ اس سارے ملک میں کوئی دوسرا بندہ نہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے دھاندلی سے جتوایا گیا ہے‘ مستعفی ہونے کی اخلاقی جرأت رکھتا ہو۔ تیسرے چوتھے نمبر پر آنے والے اراکینِ اسمبلی نہ صرف جتوائے گئے بلکہ انہیں خود بھی علم ہے کہ جیتنا تو کجا وہ تو سرے سے مقابلے میں ہی نہیں تھے مگر ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ صرف سینہ ٹھوک کر میدان میں موجود ہیں بلکہ اپنی جعلی اور طفیلی جیت پر خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں۔ دوسروں کو اپنی ہر تقریر میں شرم اور حیا کا طعنہ دینے والے خواجہ آصف رات گئے تک 90فیصد پولنگ سٹیشنز کے نتائج کے مطابق ہار رہے تھے اور ان کی مخالف امیدوار ریحانہ ڈار رات گئے جتنے ووٹ لے چکی تھیں‘ صبح ان کے ووٹ بقیہ دس فیصد پولنگ سٹیشنز کا نتیجہ آنے کے بعد رات گئے آنے والے نوے فیصد پولنگ سٹیشنز کے گنتی شدہ ووٹوں سے 32ہزار کم ہو چکے تھے۔ یہ دنیا کی انتخابی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ کوئی امیدوار نوے فیصد پولنگ سٹیشنز سے جتنے ووٹ لے چکا ہو‘ سو فیصد پولنگ سٹیشنز سے نتائج آنے کے بعد اس کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بجائے ہزاروں ووٹ کم ہو جائیں۔
ہرائے جانے والے ہاتھوں میں فارم 45 اٹھائے دہائیاں دے رہے ہیں مگر کوئی اللہ کا بندہ فارم 45پر لکھے ہوئے ووٹوں کی تعداد جمع کرکے یہ فساد ختم کرنے پر تیار نہیں۔ ادھر شاہ جی کہتے ہیں کہ فارم 45ازخود ایک ایسا رولا ہے کہ اس پر گئے تو ایک نیا کٹا کھلے گا جو کسی سے بھی نہیں سنبھالا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں