"KMK" (space) message & send to 7575

بندہ کہاں جائے؟

گزشتہ کالم کے حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے کہ ہم کس طرح سسٹم کو ٹھیک کرنے کے بجائے اس کو یکسر مسترد کر کے ایک نیا سسٹم لاگو کر دیتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب سارے معاملات از خود ہی درست ہو جائیں گے۔ دنیا بھر میں کئی طرح کے نظام چل رہے ہیں‘ جو ایک دوسرے کی بعض اوقات ضد ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کامیابی سے چل رہے ہیں۔ مختلف نظاموں کا بیک وقت بہت سے مختلف ممالک بلکہ اداروں میں کامیابی سے چلنا اس بات کی دلیل ہے کہ نظام خواہ کیسا بھی ہو‘ اگر اسے درست طریقے سے چلایا جائے تو وہ درست نتائج دیتا ہے۔ جب کوئی نیا نظام یا سسٹم لاگو کیا جاتا ہے تو اس میں موجود نقائص اور خرابیاں وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں اور انہیں ہر ادارہ یا ملک اپنی اپنی معروضی صورتحال کے مطابق تبدیلیاں لا کر درست کرتا رہتا ہے تاوقتیکہ ایک ممکنہ حد تک درست نظام سامنے آتا ہے اور اپنے ادارے‘ کمیونٹی یا معاشرے کو اس کے فیوض سے مستفید کرتا ہے۔
میری منجھلی بیٹی نے جب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ آرکیٹکچرل انجینئرنگ میں داخلہ لیا تو ا س سال اس شعبہ میں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات کو سمسٹر سسٹم کے تحت اگلے پانچ سال میں دس سمسٹر مکمل کرنے تھے۔ مزے کی بات ہے کہ میری بیٹی جب پہلے سمسٹر میں داخل ہوئی تو اس سے پہلی کلاسز یعنی سال دوم اور سال سوم کے طلبہ و طالبات سالانہ (Annual) سسٹم کے تحت اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ ان کی سینئر کلاس یعنی سال چہارم ٹرم سسٹم کے تعلیمی و امتحانی نظام کو اپنائے ہوئے تھی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ سال اول میں سمسٹر سسٹم چل رہا تھا‘ سال دوم و سوم کے طلبہ و طالبات سالانہ امتحانی سسٹم کے تحت پڑھ رہے تھے اور سال چہارم میں ٹرم سسٹم تھا۔
اگلے سال نئے داخلے بھی سمسٹر سسٹم کے تحت ہوئے تو صورتحال یہ تھی کہ سال اول اور سال دوم کے طلبہ طالبات سمسٹر سسٹم کے تحت پڑھائی کر رہے تھے۔ سال سوم اور سال چہارم والے سالانہ طرزِ امتحان کے تحت اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے اور سال پنجم والے ٹرم سسٹم کے تحت پڑھ رہے تھے۔ جب تیسرے سال میں داخل ہوئے تو شعبہ گزشتہ دو سال میں سمسٹر سسٹم کو چلانے میں شاید ناکام ہو چکا تھا یا اسے اس شعبہ کی تعلیم کے لیے موزوں و مناسب نہیں سمجھتا تھا۔ بہرحال وجہ کچھ بھی تھی‘ تیسرے سال ہونے والے نئے داخلے ایک بار پھر ٹرم سسٹم کے تحت تھے اور اب شعبہ کی مجموعی صورتحال اس طرح تھی کہ سال اول میں ٹرم سسٹم لاگو تھا‘ سال دوم اور سال سوم والے سمسٹر سسٹم اور سال چہارم اور پنجم کے طلبہ و طالبات سالانہ امتحانی سسٹم کے چکر میں پھنسے ہوئے تھے۔ چوتھا سال بھی ٹرم سسٹم کے نام ہوا اور اس سے اگلے سال لاٹری پھر سمسٹر سسٹم کے نام نکل آئی۔ جب میری بیٹی نویں سمسٹر میں تھی تو شعبہ کی صورتحال یہ تھی کہ سال اول والے سمسٹر سسٹم کے تحت پڑھ رہے تھے‘ سال دوم اور سوم والے ٹرم سسٹم کی رسی میں بندھے ہوئے تھے جبکہ سال چہارم اور پنجم والے پھر سمسٹر سسٹم کے تحت اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں یہ تینوں امتحانی و تعلیمی نظام بخیر و خوبی چل رہے ہیں جن ممالک یا تعلیمی اداروں میں سمسٹر سسٹم ہے‘ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے اور جہاں جہاں ٹرم سسٹم چل رہا ہے وہاں لوگ اس سے بہت اچھی طرح مطمئن ہیں۔ یہی حال سالانہ (Annual) نظام تعلیم کا ہے کہ وہ بھی اپنی جگہ نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظام کوئی بھی ہو شروع میں اس میں مسائل بھی سامنے آتے ہیں اور خرابیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں‘ اس نظام کو چلانے پر مامور لوگ ان خرابیوں کو وقت‘ ضرورت اور ماحول کے مطابق درست کرتے رہتے ہیں تاوقتیکہ وہ ممکنہ حد تک غلطیوں‘ خامیوں اور خرابیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں بے شمار ممالک میں پارلیمانی نظام پوری صحت کے ساتھ چل رہا ہے اور اسی طرح بہت سے ممالک میں صدارتی نظام بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر کہیں پارلیمانی نظام اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا تو اس میں پارلیمانی نظام کا قصور نہیں بلکہ اسے چلانے والے اسے ان حالات کے مطابق چلانے میں ناکام ہوتے ہیں جو اپنے معروضی حالات کے مطابق درکار ہوتے ہیں۔ جب ہم خود کو نظام کے تحت لانے کے بجائے نظام کو اپنی مرضی مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو نظام جواب دے جاتا ہے۔ تب ہم نظام پر سارا الزام دھر دیتے ہیں حالانکہ اس ساری خرابی میں نظام کا قصور نہیں بلکہ اس نظام کو چلانے والے قصوروار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا حشر نشر ہوا پڑا ہے تو اس میں قصور جمہوریت کا نہیں‘ اس کو بذریعہ بندوق چلانے کا ساخسانہ ہے کہ کوئی چیز پٹڑی پر ہی نہیں چڑھ رہی۔
ہمارے ایف ایس سی کے امتحانی نظام میں خرابی تھی۔ برسوں پہلے سرکار نے اسے درست کرنے کے بجائے پہلے تو یہ حل پیش کیا کہ پنجاب کے امتحانی بورڈز ختم کر کے یہ سارا انتظام آغا خان والوں کو دے دیا جائے جو ہمارے کالجوں اور سکولوں کے امتحانی نظام کو چلائیں۔ یعنی خرابی کو درست کرنے کے بجائے اس کا حل یہ نکالا گیا کہ امتحانی نظام کسی اور کے سپرد کر دیا جائے۔ جب اس کی مزاحمت ہوئی تو یہ ارادہ ترک کر دیا؛ تاہم بعد ازاں میڈیکل کالجوں میں داخلے میں میرٹ اور شفافیت لانے کے لیے انٹری ٹیسٹ نامی ایک نئی مصیبت مسلط کر دی گئی۔ یعنی بجائے اس کے کہ ایف ایس سی کے امتحانی طریقہ کار کو‘ امتحانی نتائج کے نظام کو اور میڈیکل کالجز میں داخلے کے طریقہ کار کو ٹھیک کیا جاتا‘ ایک اور پخ ڈال دی گئی۔ بندہ پوچھے اگر ایف ایس سی کے نتیجے پر اعتبار ہی نہیں تو پھر امتحان کیوں لیا جاتا ہے؟ اور اگر امتحان لیا جاتا ہے تو اس پر اعتبار کیوں نہیں کیا جاتا؟ امتحانی نظام اور پرچوں کے نمبروں کی ثقاہت اور صداقت پر اعتبار نہیں تو ایسا نظام وضع کیا جائے جو اس بے اعتباری کو اعتبار میں تبدیل کر دے نہ کہ پورا نظام ہی بدل کر رکھ دیا جائے۔ اور بھلا اس نئے نظام کی ثقاہت‘ صداقت اور شفافیت کی کیا گارنٹی ہے؟
جو لوگ ایک چلتے ہوئے نظام کو خراب کر سکتے ہیں تو کیا وہ نئے نظام کو برباد نہیں کر سکتے؟ ا گر اربابِ اقتدار اور اختیار کا خیال ہے کہ انٹری ٹیسٹ سسٹم سو فیصد درست نتائج دے رہا ہے تو پھر وہ اسی سسٹم کو ایف ایس سی کا بنیادی امتحانی نظام کیوں نہیں بنا دیتے۔ اس نئے سلسلے نے اکیڈمیوں اور ٹیوٹروں کا ایک اور سیلاب متعارف کرا دیا ہے۔ عام سی فرسٹ ڈویژن لینے والا اگر انٹری ٹیسٹ میں بہت شاندار نمبر لے لیتا ہے تو اسے اس طالب علم پر ترجیحی سبقت حاصل ہے جو ایف ایس سی میں بہت ہی زیادہ نمبر لینے کے باوجود انٹری ٹیسٹ میں درمیانے درجے کے نمبر حاصل کرتا ہے۔ یعنی اس دہرے نظام نے ہر دو امتحانوں کے طریقہ کار اور نتائج کے بارے میں سوال پیدا کر دیے ہیں کہ ان میں سے کون سا امتحان اور اس کا نتیجہ طالب علم کی تعلیمی قابلیت کا حقیقی مظہر ہے؟ یہ صرف ایک‘ دو معاملات کا جائزہ تھا۔ ملک کے سبھی اداروں کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور اسے چلانے پر مامور افراد مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اداروں سے اپنے معاملات چلتے نہیں اور وہ دوسروں کے معاملات کو چلانے پر بضد ہیں۔ ایسے معاملات کی درستی حکومت کا فرض اور ذمہ داری ہوتی ہے مگر ادھر حکومت کی بے چارگی اور کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ اس پر ترس بھی آتا ہے شرم بھی۔ بندہ کیا کرے اور کہاں جائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں