"KMK" (space) message & send to 7575

1924ء تا 2024ء: نوکری پیشہ لوگوں کی داستان … (1)

پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور میں داخل ہوں تو بالکل سامنے باغیچے کے پیچھے سفید رنگ کی ٹسکن طرز کے رومن ستونوں والی سنگل سٹوری مرکزی عمارت ہے۔ سکھ حکومت کے آخری دنوں میں انگریزوں نے ان کے دارالحکومت لاہور میں سرہنری لارنس کو بطور برطانوی ریذیڈنٹ تعینات کیا۔ ہنری لارنس کو سکھ حکومت اور برطانوی گورنر جنرل‘ جو کلکتہ میں مقیم تھا‘ کے درمیان حکومتی معاملات طے کرنے اور خط و کتابت کیلئے لاہور میں متعین کیا گیا تھا۔ لاہور میں برطانوی ریذیڈنٹ اور اس کے معاونین کیلئے دفاتر اور رہائش کیلئے دریائے راوی کے بائیں کنارے پر انار کلی باغ سے متصل جگہ کو مجوزہ دفاتر اور رہائش کیلئے منتخب کیا گیا۔ انارکلی باغ کے نام سے مشہور جگہ پر انار کلی ہاؤس کے نام سے تعمیر کردہ عمارت قبل ازیں رنجیت سنگھ کی افواج کو تربیت دینے پر مامور فرانسیسی جنرل جین بیپٹسٹ وینتورا (Jean-Baptiste Ventura) کی رہائش گاہ کے طور پر زیر استعمال رہی تھی۔ مورخہ 14اگست 1847ء کو برطانوی انجینئرز نے اس عمارت کی توسیع اور تزئینِ نو کی اجازت ملنے کے بعد انارکلی کے مقبرے سے متصل جگہ پر ریذیڈنٹ کا مرکزی دفتر اور اس کے معاونین اور سٹاف کیلئے دیگر دفاتر‘ اصطبل‘ فوج کی ایک عدد کمپنی‘ نصف انفنٹری اور اسی سواروں کیلئے درکار کمروں کی تعمیر شروع کر دی۔ یہ فرانسیسی جنرل وینتورا کے گھر کو برطانوی ریذیڈنٹ کے دفتر اور رہائشی بلاک میں تبدیل کرنے کی ابتدا تھی۔ 29مارچ 1849ء کو برطانیہ نے پنجاب کو اپنی تولیت میں لیتے ہوئے نوجوان مہاراجہ دلیپ سنگھ کے نگران (Guardian) کے فرائض سنبھال لیے اور صوبے کا انتظام چلانے کیلئے دو اراکین پر مشتمل بورڈ آف ایڈمنسٹریشن تشکیل دیا گیا۔ تب یہ دفتر بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کے سیکرٹریٹ کے طور پر زیرِ استعمال رہا۔ بعد ازاں پہلے تو یہ دفاتر چیف کمشنر کے اور اس کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کے زیرِ استعمال رہے تاوقتیکہ وہ گورنر ہاؤس لاہور میں منتقل ہو گئے اور یہ عمارت چیف سیکرٹری کو منتقل ہو گئی۔ تب سے آج تک یہ عمارت چیف سیکرٹری پنجاب کے دفتر کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس عمارت میں توسیع ہوتی رہی اور جیسے جیسے محکمے بڑھتے رہے ویسے ویسے نئے بلاکس تعمیر ہوتے رہے؛ تاہم اس کی سب سے قدیمی اور مرکزی عمارت وہی ہے جس میں آج بھی چیف سیکرٹری کا دفتر ہے۔ سامنے والے برآمدے میں باہر نکلا ہوا تین پہلو کمرہ چیف سیکرٹری کا دفتر ہے جس کی دائیں ہاتھ والی دیوار پر ایک سنگِ مر مر کی تختی لگی ہوئی ہے جس پر تحریر ہے ''جین بیٹپسٹ وینتورا‘ جو کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس جنرل کے طور پر تعینات تھا‘ نے یہ عمارت اس کی اصل شکل و صورت میں تعمیر کی اور اس میں کئی سال رہائش پذیر رہا۔ بعد ازاں1847ء میں یہ عمارت برطانوی ریذیڈنسی کے طور پر ہنری لارنس اور جان لارنس‘ جو کہ کورٹ آف لاہور کے ریذیڈنٹ اور پنجاب الحاق (Annexation) کے بعد بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کے اراکین تھے‘ کے زیرِ استعمال رہی‘‘۔
یہ عمارت جسے کبھی اہلِ لاہور دفتر لاٹ صاحب کہتے تھے‘ قیامِ پاکستان تک تو اپنی اصل شکل و صورت میں ہی موجود رہی؛ تاہم بعد ازاں اس میں بے ہنگم طریقے سے تبدیلیاں کی گئیں۔ اس کے سامنے والے برآمدے کو چھوڑ کر دونوں سائیڈ والے اور عقبی برآمدے میں افسروں نے اپنے سٹاف کے دفاتر اور اپنے لیے اٹیچ باتھ رومز تعمیر کروا لیے۔ عشروں تک یہ عمارت اس بے وضع اور بدصورت توسیع کے ساتھ جمالیاتی حسن کے شدائیوں کی طبعِ نازک پر گراں گزرتی رہی۔ پھر اللہ جانے کس کے دل میں سمائی کہ اس کا اصل حسن و توازن اور ترتیب بحال کی جائے۔ پھر یہ عمارت اپنی اصل شکل و صورت میں اس طرح بحال ہوئی کہ برآمدوں پر ڈالی جانے والی ٹی آئرن اور گارڈر کی چھتوں کی جگہ دوبارہ لکڑی کے شہتیر اور بالے ڈالے گئے‘ بدنما دیواروں کی جگہ دوبارہ ٹسکن طرز والے رومن ستون بنے اور ان پر مٹی اور سن کے ریشے ملا کر پلستر کیا گیا۔ جن دنوں یہ بحالی کا کام چل رہا تھا‘ مجھے تین چار بار اپنے دوستوں سے ملنے کیلئے اس عمارت میں جانا پڑا۔ ہر بار اس کی اصل شکل و صورت کو نکلتا اور نکھرتا دیکھ کر دل بڑا خوش ہوا۔
ایک زمانہ تھا جب سول سیکرٹریٹ میں داخل ہونے کیلئے اس کا لوئر مال والا مرکزی دروازہ استعمال ہوتا تھا؛ تاہم بعد میں یہ دروازہ خواص کے لیے مختص ہو گیا اور عوام کیلئے نصیر الدین روڈ کی طرف ایک نیا دروازہ بنا دیا گیا۔ آپ جب اس عوامی دروازے سے سول سیکرٹریٹ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کے بائیں ہاتھ سرسبز باغیچے کے پار چیف سیکرٹری کے دفتر کی سنگل سٹوری قدیم عمارت ہوتی ہے۔ آپ اس عمارت کی طرف اپنا منہ کریں تو اس پُر شکوہ عمارت کے پیچھے بائیں طرف ایک ہشت پہلو آف وائٹ عمارت ہے جس کے آٹھ پہلوؤں پر مینار نما کونے ہیں جن کے اوپر چھ دروں والے چھوٹے چھوٹے گنبد ہیں اور اس عمارت کے مرکز میں ایک بڑا گنبد ہے۔ یہ اکبرِ اعظم کے محل کی کنیز اور اس کے بیٹے شہزادہ سلیم‘ جو بعد ازاں نور الدین محمد جہانگیر کے نام سے برصغیر کے تخت پر متمکن ہوا‘ کی محبوبہ شرف النساء المعروف انار کلی کا مبینہ مقبرہ ہے۔ اس عمارت کے اندر ایک کونے میں سنگِ مر مر کی ایک قبر بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انارکلی کی قبر ہے۔ انارکلی کو ایک روایت کے مطابق شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر نے شہزادۂ ہندوستان کو بہلا پھسلا کر اپنے حسن کے جال میں پھنسانے کی پاداش میں زندہ دیوار میں چنوا دیا تھا۔ یہ شاندار عمارت اب صرف انار کلی کا ہی نہیں بلکہ بے شمار مخطوطات اور نایاب کتابوں‘ فائلوں اور دستاویزات کا بھی مقبرہ ہے۔ یہ پنجاب آرکائیوز کا محافظ خانہ اور عجائب گھر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ جنوبی ایشیا میں تاریخی اور قدیم دستاویزات اور مخطوطات کا شاید سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ ان دستاویزات میں صدیوں پرانے تاریخی اور ثقافتی مخطوطات بھی شامل ہیں۔ اس محافظ خانے میں 70 لاکھ کے لگ بھگ دستاویزات‘ قلمی نسخے‘ مخطوطات اور اہم کاغذات‘ جن میں 70 ہزار سے زائد نایاب اور بیش قیمت کتابیں بھی شامل ہیں۔ اس میں 1629ء سے 1857ء تک مغلیہ عہد کی 82 فائلز بھی ہیں۔ 247 جلدوں میں‘ جس میں سے ہر جلد تین سو صفحات پر مشتمل ہے‘ 1804ء سے لے کر 1849ء تک دہلی‘ لدھیانہ‘ کرنال‘ انبالہ‘ شمال مغربی سرحدی ایجنسیوں اور لاہور کے ریکارڈ کے 73 ہزار صفحات علمی اور تاریخی خزانے کی صورت میں موجود ہیں۔ پنجاب ریذیڈنسی کے 1846ء سے لے کر پنجاب کے الحاق 1849ء تک کے محکمہ داخلہ‘ محکمہ مال‘ عدالتی‘ عمومی اور عسکری شعبہ جات سے متعلق 34 ہزار سے زائد فائلز‘ جن میں ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ سے کچھ زیادہ کاغذات موجود ہیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی سے متعلق 2100 فائلز ہیں جن کے مطالعہ سے اس ملک کی اشرافیہ، حکمران خاندان اور بظاہر نیک نام سیاستدانوں کے بزرگوں کے کارہائے نمایاں سے مزید آگاہی مل سکتی ہے۔ درج بالا سارا ریکارڈ یا تو ہاتھ سے تحریر شدہ یا مخطوطات کی شکل میں ہے۔ ان میں سے بعض دستاویزات ایسی ہیں جو دنیا میں اور کسی جگہ بھی دستیاب نہیں ہیں اور ان کی واحد کاپی صرف اسی محافظ خانہ میں موجود ہے۔ اس محافظ خانے کے اجرا کی ذمہ داری 1924ء میں یعنی آج سے پورے ایک سو سال پہلے فوج سے فارغ شدہ لیفٹیننٹ کرنل اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ہربرٹ لیونارڈ اوفلے گیرٹ کے کندھوں پر ڈالی گئی۔ اس سرکاری افسر نے اپنی یہ ذمہ داری ایسے شاندار طریقے سے سرانجام دی کہ اس کا ترتیب کردہ تاریخی اور ثقافتی خزانہ اور نادر مخطوطات پر مشتمل چھوٹا سا عجائب گھر اس محافظ خانے کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ یہ ایک سرکاری نوکر کی لگن‘ محنت اور کارکردگی کی داستان ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں