"KMK" (space) message & send to 7575

حکومت اور کاروبار …(1)

ملک کی خراب اقتصادی حالت کے ذمہ داروں کی فہرست بنائی جائے تو وہ اتنی طویل ہے کہ اس فہرست کو مرتب کرنے کیلئے ایک پورا دفتر درکار ہے۔ ہم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ سدا سے اس طرح تو نہیں تھے۔70ء اور 80 ء کی دہائی تک ہم اس خطے کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی ریاست کے باسی تھے۔ ہماری صنعتی ترقی ہمارے ہمسایوں کیلئے قابلِ رشک تھی اور وہ نہ صرف ہماری مثال دیا کرتے تھے بلکہ مدد مانگتے تھے۔ مدد سے یاد آیا‘ کسی دور میں ہم نے جرمنی کو بھی قرضہ فراہم کیا تھا۔ چین سے آنے والے تجارتی وفود ''بیکو‘‘ (بٹالہ انجینئر نگ کمپنی) کی بنی ہوئی آٹو میٹک لومز خرید کر لے جایا کرتے تھے اور چین میں ان کی نقل کرکے لومز بنایا کرتے تھے۔ دنیا بھر میں اقوام اپنے صنعتکاروں کو سہولتیں دیتی ہیں‘ ریاستیں صنعتی اداروں اور ان کے مالکان کو عزت و احترام دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے اُلٹ کیا گیا۔
23 اکتوبر 1946ء کو کلکتہ میں مرزا احمد اصفہانی اور آدم جی حاجی داؤد نے اوریئنٹ ایئرویز کے نام سے ایک ایئر لائن کی بنیاد رکھی جو مسلمانوں کی ملکیت پہلی اور واحد ہوائی کمپنی تھی۔ یہی ایئر لائن آگے چل کر پی آئی اے کے نام سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنی۔ 1947ء میں جب پی آئی اے نے تین ڈگلس ڈی سی3 جہاز خریدے تو وہ اس سارے خطے کی کسی ایئر لائن کی طرف سے خریدے جانے والے سب سے جدید جہاز تھے۔1953ء میں نیشنل موٹرز کارپوریشن نے امریکہ کی مشہور جنرل موٹرز کے اشتراک سے واکس ہال گاڑی تیار کی۔ اسی پلانٹ پر مشہورِ زمانہ بیڈ فورڈ ٹرک بھی اسیمبل ہونا شروع ہو گئے۔ اسی سال ایکسائیڈ بیٹری نے پاکستان میں پہلا پلانٹ لگایا۔ اگلے ہی سال علی موٹرز نے فورڈ کمپنی کے تعاون سے آٹو موبائل مینو فیکچرنگ پلانٹ لگایا۔ ہارون انڈسٹریز پِک اَپ ٹرک تیار کر رہی تھی۔ آل ون انجینئرنگ گاڑیوں کے پارٹس تیار کر رہی تھی۔ وزیر انڈسٹریز لمبریٹا سکوٹر اور راجا موٹرز نے ویسپا سکوٹر پاکستان میں بنانا شروع کردیا۔ گندھارا انڈسٹریز ٹرک اور بسیں بنا رہی تھی۔ اٹلس آٹوز نے اس علاقے میں ہنڈا موٹر سائیکل کا پہلا پلانٹ لگایا۔ مانو موٹرز ٹویوٹا گاڑیوں کی مقامی سطح پر اسیمبلنگ کر رہی تھی۔ رانا ٹریکٹرز میسی فرگوسن کے ٹریکٹر تیار کر رہی تھی۔ جعفر موٹرز فائر بریگیڈ گاڑیاں‘ ایمبولینسز اور دیگر مختلف آپریشنل وہیکلز بنا رہے تھے۔ سارا ملک صنعتی ترقی کی طرف ایسی رفتار سے گامزن تھا کہ بھارت وغیرہ تو کسی شمار قطار میں نہیں‘ کوریا اور چین وغیرہ بھی ہمیں رشک سے دیکھتے تھے۔ پھر نام نہاد سوشلزم کے ڈرامے کا اختتام نیشنلائزیشن کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا اور چلتی ہوئی صنعتی ترقی کے پہیے کو ریورس گیئر لگ گیا۔ کسی صنعتی ادارے کا نام بدل کر عوامی موٹرز رکھ دیا۔ کسی ادارے کو قومیا کر سندھ انجینئرنگ کا نام دے دیا گیا۔ کسی کا نام نیا دور‘ کسی کا نام پیکو‘ کسی کا ریپبلک موٹرز اور کسی کا نام نیشنل موٹرز رکھ کر تصور کر لیا گیا کہ عوامی حاکمیت کا بول بالا ہو گیا ہے اور سرمائے کا ارتکاز بائیس خاندانوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اس طرح صنعتی ترقی کا جنازہ نکال دیا گیا اور اداروں کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ یہ سارا کارنامہ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے سرانجام دیا اور عالم یہ ہے کہ 45سال بعد بھی پیپلز پارٹی کے دامن میں بھٹو کے زندہ ہونے کے علاوہ اور کوئی شے نہیں ہے۔ باقی سارا حال آپ کے سامنے ہے۔
ہم عجیب ذہنیت کے لوگ ہیں کہ ملک کو صنعتی خوشحالی کی طرف گامزن کرنے والے صنعتی گھرانوں کو عزت و احترام دینے کے بجائے ان کو بائیس خاندانوں کے نام پر طعنہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں ایسے پیش کیا گیا جیسے یہ صنعتکار نہیں‘ لٹیرے اور ڈاکو ہیں جو اس ملک کو لوٹ کر کھا رہے ہیں۔ وہ جو کما رہے تھے ملک میں آ رہا تھا اور ملکی ترقی میں سارے عوام شریک تھے۔ ہماری فی کس آمدنی اس خطے میں سب سے زیادہ تھی۔ حتیٰ کہ چین بھی تب ہم سے کہیں پیچھے تھا۔ بائیس خاندانوں کو عوام کے ذہن میں تقریباً تقریباً ڈاکوؤں کے متبادل کے طور پر راسخ کر دیا گیا۔ ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کو ایک حکم کے ذریعے عرش سے اٹھا کر فرش پر رکھ دیا گیا۔ جو ادارے راکٹ کی رفتار سے اوپر جا رہے تھے وہ اسی رفتار سے پاتال میں اُترنا شروع ہو گئے۔ قومیائے گئے ادارے تباہی اور بربادی کی ایسی کہانی ہیں جس پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ دو عشروں کے اندر اندر قومیائے گئے بیشتر صنعتی ادارے اور یونٹس بند ہو گئے اور جو باقی بچے وہ خسارے کی ایک ایسی دردناک داستان ہے جو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہی۔
حکمرانوں کے اللے تللّے‘ سرکاری اداروں کی نااہلی اور نالائقی‘ بیورو کریٹس اور مقتدر اداروں کی شاہ خرچیاں‘ بدعنوانی کا عفریت اور قوم کا اجتماعی کام چوری کا رویہ ہماری موجودہ حالت کا ذمہ دار ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر خسارے کے حامل وہ ادارے ہیں جو ابھی تک اس قوم کے گلے پڑے ہوئے ہیں اور خوش فہم لوگ ان کو قومی ادارے‘ قومی فلیگ کیریئر اور خدا جانے کن کن مسحور کن ناموں سے معنون کرکے ان کو گلے سے لگائے رکھنے پر مُصر ہیں۔ برسوں سے بند پاکستان سٹیل ملز‘ پاکستان ریلوے‘ پی آئی اے‘ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں‘ پی ایس او اور اسی قبیل کے درجنوں چھوٹے بڑے ادارے اس ملک کی معیشت کو پیرِ تسمہ پا کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس ملک کی معیشت کا وہی حال کیا ہے جو امربیل ہر اُس درخت کا کر دیتی ہے جس سے وہ لپٹ جاتی ہے۔
سیاسی حکومتوں کا مسئلہ ووٹ بینک کو راضی رکھنا ہے اور وہ اپنے ووٹ بینک کو قومی خزانے کی بربادی کی قیمت پر قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ یہ ادارے اس ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں لیکن ہر حکومت ان اداروں سے جونکوں کی طرح لپٹے ہوئے کام چور‘ نکمے‘ نااہل‘ بدعنوان اور پکی نوکری کے طفیل کام کیے بغیر تنخواہ لینے اور پھر ساری عمر کام نہ کرنے کے عوض پنشن لینے والے ملازموں کو خوش رکھنے کی غرض سے اس ملک کی معیشت کو اس کی بنیادوں تک تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بلکہ تلی ہوئی کیا؟ برباد کر چکی ہے۔ملازمین کی فوج ظفر موج کی موجودگی میں کوئی سمجھدار اِن اداروں کو لینے پر تیار نہیں۔ ان اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کی مجموعی پنشن کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کو اٹھانا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہ گیا۔ اوپر سے بعد از ریٹائرمنٹ کے بینیفٹس ایک ایسا بوجھ ہیں جو نہ اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ پھینکا جا سکتا ہے۔ اب جا کر کہیں پی آئی اے کی نجکاری کی طرف کوئی عملی قدم اٹھایا جا رہا ہے تاہم ہمارے دوست شاہ جی کو اس پر بھی شک ہے کہ یہ بیل منڈھے چڑھ سکے گی۔ عین ممکن ہے کل کلاں کوئی مندوخیل ٹائپ لیڈر نمبر ٹانکنے کی غرض سے دس دس سال پرانے فراغت شدہ ملازموں کو بمعہ تنخواہ و مراعات فراغت والے دن سے بحال کر دے۔ مندوخیل صاحب کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا ایک واقعہ کسی روز تفصیل سے لکھوں گا تو قارئین کی آنکھیں پڑھ کر حیرت سے پھٹ جائیں گی کہ اس ملک کے وسائل کو کس طرح اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بانٹا گیا اور محض سیاسی فوائد اور ووٹ بینک کی خاطر کیسے کیسے محیرالعقول فیصلے کیے گئے۔ ایسے فیصلے‘ جن پر حیرانی سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے کہ ہم لوگوں نے کیسے کیسے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجا اور کس اہلیت کے لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی قسمت کی ڈور تھما دی۔
پوری دنیا یہ بات سمجھ چکی ہے کہ صنعتی‘ کاروباری اور تجارتی ادارے چلانا حکومتوں کا کام نہیں۔ ہاں! البتہ تیسری دنیا میں بے جا منافع خوری اور مناپلی وغیرہ کو قابو میں رکھنے کی غرض سے حکومتی نگرانی بہت ضروری ہے‘ لیکن یہ کام صرف نگرانی اور کنٹرول کی حد تک ہونا چاہیے‘ کاروبار ایک ایسا سنجیدہ اور ذمہ داری کا حامل معاملہ ہے کہ اسے حکومتوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں