"KMK" (space) message & send to 7575

اُمت کہاں آن کھڑی ہوئی ہے؟

ہم لوگوں نے دنیا میں پیش آنے والی اپنی ہر مشکل‘ ذلت‘ پریشانی اور خواری کا ذمہ دار یہود ونصاریٰ کی سازشوں کو ٹھہرانے کا وتیرہ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم اگر تعلیم میں پیچھے ہیں تو دراصل یہودی ہمیں تعلیم سے دور رکھنے کی عظیم سازش کے بانی ہیں۔ ہم اگر سائنسی ترقی میں کسی شمار قطار میں نہیں تو اس کا ذمہ دار بھی عالمِ کفر ہے۔ کاروبارِ دنیا میں ناکام ہیں تو اس کا ملبہ بھی اغیار پر ڈالتے ہیں۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی بات ہو تو یہ بھی کفار کی ایجادات کے طفیل ہوا ہے اور دنیا بھر میں بطور اُمت جو پسپائی اور پٹائی ہو رہی ہے وہ محض اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور کفار کی علم و ہنر‘ سائنس‘ صنعت وحرفت‘ کاروبارِ دنیا اور عسکری برتری بس دنیا تک ہے جبکہ ہم آخرت کما رہے ہیں۔ کفار کی تمام تر دنیاوی ترقی کے جواب میں ہم وظائف‘ عبادات اور اللہ کی مدد پر یقینِ کامل ہی کو اس کا توڑ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ جنگِ بدر اور جنگِ احد میں خود تلوار ہاتھ میں پکڑ کر نہ نکلتے کہ ان کی دعا سے بڑھ کر اثر بھلا کس کی دعا میں ہو گا اور جنگی قیدی بننے والے پڑھے لکھے کفار سے جزیہ میں پڑھنا لکھنا سکھانے کو شامل نہ کرتے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے اور دنیاوی علوم اس کا لازمہ ہے۔
عالم یہ ہے کہ عالمِ اسلام کی کوئی بھی یونیورسٹی خواہ وہ میڈیکل سے متعلق ہو یا انجینئرنگ سے‘ علومِ معاشرت سے تعلق رکھتی ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہو‘ ہم دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتے‘ جب علم کا دروازہ ہی بند کر رکھا ہو تو بھلا تحقیق کے درجے تک کس کم بخت نے پہنچنا ہے؟ اس ملک کی جو بُری بھلی جامعات ہیں ان میں کبھی کسی نے ایسی تحقیق کے بارے میں سنا ہو جو مفادِ عامہ کا باعث بنی ہو؟ کسی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی نے کوئی دوا ایجاد کی ہو؟ کسی میڈیکل کالج نے کسی بیماری کا کوئی شافی علاج دریافت کیا ہو؟ کسی انجینئرنگ یونیورسٹی نے واقعی کوئی ایسی شے ایجاد کی ہو جو دنیا بھر میں ہماری پہچان بنی ہو؟ عالم یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں ہونے والی کاغذی اور کتابی قسم کی تحقیق میں بھی Plagiarism یعنی ادبی سرقے کے معاملے میں ہم دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ پہلے نمبر پر سعودی عرب ہے۔
ایک دفعہ رات گئے قرطبہ میں دریائے وادی الکبیر کے کنارے گھومتے گھومتے اندر گلیوں میں چلا گیا۔ ایک جگہ فصیلِ شہر کے ساتھ ایک چبوترے پر کلاہ وعمامہ سر پر سجائے‘ جبہ زیبِ تن کیے اور ہاتھ میں کتاب پکڑے ہوئے ایک سنگی مجسمہ ایستادہ تھا۔ یہ فرزندِ قرطبہ ابنِ رشد کا مجسمہ تھا۔ اس شہرِ قرطبہ میں‘ جہاں کی مسجد اب کلیسا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں‘ مسجد کا بلند وبالا چوکور مینار اب Bell tower یعنی کلیسا کی گھنٹی کا مینار ہے۔ اس شہر میں موجود تقریباً ہر وہ چیز جس کا تعلق مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب سے تھا‘ کو تبدیل کر دیا گیا ہے مگر اسی شہر میں ابنِ رشد کا مجسمہ ابھی موجود ہے۔ اہلِ سپین عموماً اور اہلِ قرطبہ خصوصاً ابنِ رشد پر نازاں ہیں کہ وہ اس سرزمین کا فرزند تھا۔ اسے کس چیز نے وہاں عزت و توقیر کی علامت بنایا ہے؟ یہ اس کا بے پایاں علم تھا جس نے اسے صدیوں بعد بھی اس سرزمین پر زندہ و تابندہ رکھا ہے جو مسلمانوں کی ہر چیز کو تلف کر چکی ہے۔ ابن رشد کے بارے میں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرزندِ قرطبہ کے علوم کی جہات کا دائرہ حیران کن حد تک وسیع تھا۔ وہ بیک وقت فلاسفر تھا اور معالج بھی‘ علومِ مذاہب کا عالم بھی اور دوا ساز بھی‘ ماہرِ علمِ نجوم بھی اور طبیعیات کا ماہر بھی‘ نفسیات پر دسترس رکھنے والا بھی اور ریاضی دان بھی‘ اسلامی اصولِ فقہ کا شناور بھی اور ماہر قانون دان بھی۔ ماہرِ لسانیات بھی اور مصنف بھی۔ کم و بیش سو کتابوں کا مصنف۔ یہ عالمِ بے بدل اگر سوا آٹھ سو سال بعد بھی اہلِ قرطبہ کیلئے باعثِ فخر ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اس نابغے کو اس کے علم کی وجہ سے اپنا فرزند سمجھتے ہیں۔
ہم پدرم سلطان بود کے نعرے پر یقین رکھنے والے جب یہ بات کہتے ہیں کہ جب قرطبہ کی گلیاں سرکاری نصب کردہ چراغوں کے باعث روشن تھیں تب لندن کی گلیاں اندھیر نگری کی صورت پیش کر رہی ہوتی تھیں‘ تو ہم اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے کہ آخر اب ہماری گلیاں کیونکر تاریک اور اہلِ کفر کی گلیاں کیوں روشن تر ہیں؟ ہم اس بات پر اکڑتے ہیں کہ ہمارے آبا کی لکھی ہوئی کتابیں یورپ میں ترجمہ ہو کر انکی ترقی کا باعث بنیں‘ مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر ہم نے کتابیں لکھنی کب بند کیں اور علم و ہنر کی ڈور کب ہمارے ہاتھ سے چھوٹی۔ ہم برصغیر والوں کا یہ المیہ تو اور بھی دردناک ہے کہ ہم اُمت کے ماضی میں ان کارناموں کا بھی کریڈٹ لینے میں لگے رہتے ہیں جن سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس نے کسی پاکستانی سے ایک واقعہ سنا کہ وہ کسی کانفرنس کے سلسلے میں بیرونِ ملک مختلف مسلمانوں ممالک سے آنے والے وفود کے ساتھ بیٹھا مسلمانوں کے روشن ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے سپین کی فتح کو اپنے آباؤ اجداد کا کارنامہ بتا بیٹھا۔ اس پر ایک عرب نے اسکی تصحیح کرتے ہوئے اسے کہا کہ تم لوگوں کا اس فتح سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں‘ وہ ہم عرب تھے جنہوں نے سپین فتح کیا تھا۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے بلقان کی ریاستوں اور فرانس کے دروازوں تک مسلمان لشکر کی فتوحات کو ''ہم‘‘ مسلمانوں کی فتح قرار دیتے ہوئے اسکا حصہ دار بننے کی کوشش کی تو وہاں موجود ایک ترک نے اسکی خاصی کلاس لی اور اسے ترکوں کی فتح قرار دیا اور کہا کہ وہ خواہ مخوا ان چیزوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرے جو سرے سے انہوں نے سرانجام ہی نہیں دیں۔
اس ملک میں ہر شخص مسلمانوں کے زوال پر سیر حاصل گفتگو کر سکتا ہے۔ اس زوال کا ملبہ وہ اعمال کی خرابی پر ڈالے گا‘ دین سے دوری پر ڈالے گا‘ عبادات میں خلوص نہ ہونے پر ڈالے گا۔ مولویوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے گا‘ حکمرانوں کی بے علمی کو اس ساری مصیبت کا باعث قرار دے گا‘ یہود ونصاریٰ کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو اُمہ کے مسائل کا مرکزی نکتہ قرار دے گا۔ اپنے سنہری دور کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ جب مسلمان حکمرانی کر رہے تھے تو وہ اس وقت علم وہنر میں‘ سائنس وٹیکنالوجی میں‘ میڈیسن اور کیمیا میں‘ ریاضی میں‘ فلسفے اور لسانیات میں‘ بشریات میں اور قانون میں بھی سب سے آگے تھے۔ پھر ہم نے سوچ کا‘ علم کا‘ فکر کا‘ گفتگو اور دلیل کا دروازہ بند کر دیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
فلاڈیلفیا شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے ایک دوست نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ چلڈرن ہسپتال آف فلاڈیلفیا ہے۔ اسے مختصراً CHOP کہا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے وقف دنیا کا یہ سب سے بڑا اور قدیم ترین ہسپتال یونیورسٹی آف پنسلوینیا کا حصہ ہے اور بچوں کی بیماریوں کی تحقیق‘ ادویات کی تیاری اور علاج کے سلسلے میں دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کفار کی یونیورسٹیاں دنیا بھر کے علوم وایجادات میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار سرانجام دے رہی ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں میں استاد وائس چانسلر بننے کی تگ ودو میں لگے ہوتے ہیں۔ تحقیقی پیپرز کا سارا مقصد ترقی کیلئے درکار مطلوبہ ریسرچ پیپرز کی تعداد پوری کرنا ہے۔ یہ سارے تحقیقی پیپرز عملی طور پر کسی نئی ایجاد کی بنیاد سے بھی کوسوں دور ہیں۔
کل خبر ملی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے یونیورسٹیوں کیلئے 65 ارب روپے کے بجٹ کو کم کرکے 25 ارب روپے کر دیا ہے۔ یعنی پہلے سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق بجٹ کو 40 فیصد سے بھی کم کر دیا ہے۔ جس ملک میں اعلیٰ تعلیم کا بجٹ 25 ارب اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 450 ارب ہوگا‘ وہاں عالم نہیں منگتے ہی پیدا ہوں گے۔ جس امت کا نقطۂ آغاز لفظ ''اقرا‘‘ (پڑھ) تھا وہ کہاں آن کھڑی ہوئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں