"KMK" (space) message & send to 7575

دکانداروں کا ملک

پاکستان واپس آیا تو گمان تھا کہ سارے معاملات اسی طرح پرانی ڈگر پر چل رہے ہوں گے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہوگی۔ میرا اندازہ درست ثابت ہوا کہ ملکِ عزیز میں پہلے سے جاری سیاسی کشیدگی‘ اداروں کی بے توقیری اور حماقتیں اسی طرح جاری ہیں‘ تاہم یہ ناانصافی ہو گی اگر میں اس تبدیلی کا ذکر نہ کروں جو میرے پیچھے وقوع پذیر ہوئی اور واپسی پر مجھے دکھائی بھی دی۔ یہ تبدیلی میرے پیچھے ایک مہینے کے اندر اندر واقع ہوئی ہے جب میں ملتان سے گیا تھا تو بوسن روڈ سے لے کر زکریا ٹاؤن میں میرے گھر والی گلی‘ جو گرین لین کہلاتی ہے اور یہ فاصلہ قریباً چار سو میٹر کے لگ بھگ ہے‘ اس چار سو میٹر میں روانگی کے وقت جتنی دکانیں تھیں اب نہ صرف ان میں پانچ کا مزید اضافہ ہو چکا ہے بلکہ ایک اور گھر کے باہر پڑی ہوئی بجری اور اینٹیں بتا رہی ہیں کہ اس دیوار کے پیچھے بھی تقریباً اتنی ہی دکانیں زیر تعمیر ہیں جو جلد ہی منصۂ شہود پر آ جائیں گی۔
آج سے تقریباً 23سال قبل جب میں نے عثمان آباد سے ادھر زکریا ٹاؤن میں نقل مکانی کی تو اس چار سو میٹر میں بمشکل دس بارہ دکانیں تھیں اور ان دس بارہ دکانوں سے ہی تقریباً سارے ضروری کام چل رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف گھر تھے اور انہی گھروں میں سے ایک میں بچوں کا جونیئر سکول تھا۔ اسد کو دو تین سال بعد اسی منارہ جونیئر سکول میں داخل کروایا تھا۔ اب اس سکول کی جگہ پانچ دکانیں ہیں۔ گزشتہ سال ایک روز گاڑی میں گزرتے ہوئے میں نے اسد کو کہا کہ وہ بائیں طرف والی دکانیں گنے اور جبکہ دائیں طرف والی دکانیں میں گنتا ہوں۔ میں نے دائیں طرف کا انتخاب اس لیے نہیں کیا تھا کہ اس طرف نسبتاً کم دکانیں ہیں بلکہ اس لیے کیا تھا کہ میں گاڑی کی ڈرائیونگ کر رہا تھا اور دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ اس روز دائیں طرف 37دکانیں تھیں اور بائیں طرف 70کے لگ بھگ تھیں۔ لگ بھگ یوں لکھا ہے کہ اس طرف سڑک سے نکلنے والی ذیلی گلیوں میں بنی ہوئی دکانوں کی درست گنتی نہ ہو سکی۔ یہ گزشتہ سال کی دکان شماری کے نتائج تھے۔ اس دوران اور کتنی دکانیں بنیں اس کی درست گنتی تو معلوم نہیں ہاں البتہ اس ایک مہینے کے دوران پانچ نئی دکانیں ظہور پذیر ہو چکی ہیں اور مزید پانچ ابھی پردۂ دیوار کے پیچھے پوشیدہ ہیں اور چند روز میں اپنی رونمائی کروا دیں گی۔ یہ صرف مین بوسن روڈ سے میرے گھر کی گلی تک چار سو میٹر کا حال ہے۔ زکریاٹاؤن کی یہ سڑک شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہے اور کم از کم میں نے توا س کا آخری سرا نہیں دیکھا‘ جنہوں نے دیکھا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ سڑک کے اختتام پر کھیت اور باغ ہیں اور بھلا یہ باغ بھی کس باغ کی مولی ہیں؟ جلد ہی سڑک ان کے درمیان میں سے دندناتی ہوئی گزر جائے گی اور ساتھ نکلنے والی گلیوں کی تعداد جو تب 40‘ 41تک پہنچ چکی تھی‘50‘ 51تک پہنچ جائے گی۔ ملتان میں اربن پلاننگ کے نام پر ملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی موجود ہے مگر اربن پلاننگ نام کی کوئی چیز عملی طور پر اس شہر میں موجود نہیں۔ اور صرف ملتان پر ہی کیا منحصر اربن پلاننگ نامی شے اس ملک کے ہر شہر سے عنقا ہو چکی ہے۔نقشے کی قبل از تعمیر منظوری اور پھر تعمیر کیلئے اجازت وغیرہ جیسی بدعتیں عرصہ ہوا رخصت ہو چکی ہیں۔ اگر کوئی بیوقوف ان چکروں میں پڑ جائے تو یہ اس کی ذاتی حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں وگرنہ عقلمند اور سمجھدار لوگ اس جھنجھٹ سے آزاد ہو چکے ہیں اور پہلے تعمیر کرتے ہیں بعد ازاں کچھ دے دلا کر اسکی منظوری حاصل کر لیتے ہیں اور کسی رکاوٹ کی صورت میں عدالتی حکم امتناعی سے کام چلا لیتے ہیں۔ عدالتی حکم امتناعی دونوں فریقین کیلئے باعثِ برکت ثابت ہوتا ہے اور اس حکم کو بہانہ بنا کر دونوں فریقین مک مکا کر لیتے ہیں۔ محکمہ بھی راضی اور تعمیر کرنیوالا فریق بھی خوش‘ باہمی بھائی چارہ اسی قسم کی مفاہمتی پیش رفت کا نام ہے۔
کسی بھی شہر میں چند بڑی ہاؤسنگ سکیمز کے علاوہ باقی سارے شہر میں یہی حال ہے۔ اندازہ کریں کہ اس ملک میں پرائیویٹ طور پر بننے والی ہاؤسنگ کالونیوں میں تو گھر بنانے والا تمام تربائی لاز کی پابندی کرتا ہے لیکن ریاستی ناک کے نیچے بننے والی منظور شدہ اور غیر منظور شدہ کالونیوں میں نہ کوئی قواعد پر عمل کرتا ہے اور نہ ضوابط کی فکر کرتا ہے۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا ہے۔ پرائیویٹ ہاؤسنگ کالونی میں انتظامیہ یہ بھی طے کرتی ہے کہ آپ نے گھر کا دروازہ اپنے پلاٹ کی کس جانب رکھنا ہے اور گیٹ سڑک سے کتنا اونچا ہوگا۔ گھر بنانے والا ان پابندیوں پر عمل کرتا ہے اور دوسری طرف ہاؤسنگ کالونی کی انتظامیہ بھی دو چار سال بعد سڑک کو اس طرح اونچا نہیں کرتی کہ سڑک اونچی ہو جائے اور گھر نیچا رہ جائے۔ میں زکریا ٹاؤن کی مین سڑک میں بننے والی بے شمار دکانوں اور ان کے باہر کھڑی ہونے والی گاڑیوں کے باعث پیدا ہونے والی خرابیوں سے بچنے کیلئے جس دوسری سڑک کا انتخاب کرتا ہوں وہاں دونوں طرف بننے والے گھروں کے مالکان نے مستقبل میں اس سڑک کے ہر دو چار سال بعد اونچا ہونے کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گھر شروع میں ہی سڑک سے اڑھائی تین فٹ اونچے بنا لیے ہیں اور ان کے گھروں سے نیچے اترنے والے ریمپ آدھی سڑک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ سامنے سے گاڑی آ رہی ہو تو باہمی کراسنگ مشکل ہے کہ ہر دوسرے گھر سے اترنے والی ڈھلوان نما رکاوٹ آپ کے سامنے ہوتی ہے۔
ہمارا ایک دوست نقل مکانی کرکے جب ملتان سے لاہور آ گیا تو وہاں جا کر اس نے جس ہاؤسنگ کالونی میں مکان لیا وہ اس ادارے کی ملکیت تھی جسے وہ ملتان میں دن رات مطعون کرتا تھا۔ جب اس کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی توکھسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ میرے نظریات اور خیالات اب بھی وہی ہیں تاہم اچھی جگہ رہنے پر میرا اختیار بھی ہے اور حق بھی لہٰذا میں نے اس جگہ رہائش اس لیے اختیار کی ہے کہ سکون سے اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔ میں اپنے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو اپنے اچھے بھلے گھر چھوڑ کر نسبتاً چھوٹے گھروں میں صرف اس لیے منتقل ہو گئے کہ ان کے پرانے گھر اپنے ارد گرد کے ماحول اور صورتحال کے باعث ان کیلئے ناقابل ِرہائش ہو گئے تھے۔ کسی کے گھر کے ساتھ والے نے اپنا گھر گرا کر مارکیٹ بنا لی اور اس کے گھر کا دروازہ گاہکوں کی پارکنگ بن گیا۔ گھر کے باہر ہمہ وقت کھڑے ہونے والے الٹے سیدھے لوگوں کی وجہ سے گھر کی خواتین کا آنا جانا مشکل ہو گیا۔ جگہ بے جگہ گاڑی پارک کرنے والوں سے ہمہ وقت کے جھگڑوں سے تنگ آکر بالآخر انہوں نے اپنا گھر بھی کسی ایسے شخص کو مارکیٹ کی قیمت سے دوگنے ریٹ پر فروخت کردیا جو اس جگہ پلازہ بنانا چاہتا تھا۔ ملتان کے مڈل کلاس معززین کی شاندار رہائشی گلگشت کالونی اسی کمرشل ازم کا شکار ہو کر دکانوں کے جنگل میں تبدیل ہو چکی ہے اور اب اسکی گنتی کی چند عقبی سڑکیں بچی ہیں جن میں گھر ہیں لیکن کب تک؟ دو چار سال میں بچی کھچی سڑکیں بھی اس نمک کی کان میں نمک ہو جائیں گی۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگوں کی قوتِ خرید مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے‘ دکانوں کی اتنی بہتات ہے کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یورپ اور مغرب کے وہ ممالک جہاں لوگوں کی قوتِ خرید ہم سے بیسیوں گنا زیادہ ہے‘ وہاں دکانیں نہ صرف یہ کہ ہماری نسبت بہت ہی کم ہیں بلکہ صرف مخصوص اور مختص علاقوں کے علاوہ اور کہیں نہیں ہوتیں۔ شاہ جی سے پوچھا تو کہنے لگے: یہ ملک رہنے والوں کیلئے نہیں بلڈرز اور دکانداروں کیلئے بنا ہے اور اسی لیے یہاں کے کھیت اور باغات دھڑا دھڑ رہائشی علاقوں میں بدلتے جا رہے ہیں اور رہائشی علاقے پلازوں‘ مارکیٹوں اور دکانوں کی نذر ہوتے جا رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں