فی الوقت اس ملک میں جو شے سب سے وافر میسر ہے وہ مسائل ہیں۔ مسائل کے اس طومار میں سے جو مسئلہ عام آدمی کے لیے سب سے گمبھیر صورت اختیار کر چکا ہے وہ بجلی کی قیمت ہے۔ عام آدمی کو تو رکھیں ایک طرف‘ صورتحال یہ ہے کہ اب بجلی کا بل بھرنا اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگوں کے لیے بھی ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوا‘ یہ عشروں کی نااہلی‘ بدنیتی‘ نالائقی اور بے ایمانی کی ایک قسط وار کہانی ہے جس کی ہر نئی قسط پہلی سے بدتر ہے۔
1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت بجلی پیدا کرنے کے جو ذرائع پاکستان کے حصے میں آئے ان کی کل پیداواری استعداد 60میگاواٹ تھی اور تب کسی نے لوڈشیڈنگ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آبادی کم تھی اور بجلی تک رسائی رکھنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں کم تھی۔ دیہات میں رہنے والی آبادی شہری آبادی کی نسبت کہیں زیادہ تھی اور بیشتر دیہات میں بجلی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں 60ء کی دہائی کے آخر تک ٹوبہ ٹیک سنگھ سے محض تین چار میل کے فاصلے پر واقع 325 ج ب دُلم گاؤں جاتا تھا تو بجلی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ کچے گھر تھے‘ ہوا دار کمرے تھے اور قناعت وافر تھی۔ دوپہر کو گاؤں کے ایک کونے میں درختوں کے جھنڈ تلے چارپائیوں پر گاؤں کے مرد بیٹھ کر حقہ پیتے تھے اور دنیا بھر کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی کسی کو بجلی کی غیر موجودگی پر گلہ‘ شکوہ یا شکایت کرتے نہ دیکھا تھا۔ یہ تو دیہات کا حال تھا۔
شہروں میں بھی صورتحال آج سے بہت مختلف تھی۔ جو چیزیں آج بنیادی ضرورت کہلاتی ہیں ان میں سے اکثر کو تب عیاشی کے زمرے میں لیا جاتا تھا۔ ملتان میں ایک چھوٹا سا بجلی گھر تھا جو قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے چند چھوٹے چھوٹے بجلی گھروں میں سے ایک تھا۔ تقسیم سے قبل پنجاب کی بجلی کی ضرورت کا بیشتر حصہ کانگڑہ وادی میں واقع منڈی ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن سے ‘ جس کی پیداواری استعداد 48میگاواٹ تھی‘ پورا ہوتا تھا۔ یہ بجلی گھر تقسیم کے وقت بھارت کے حصے میں چلا گیا۔ ادھر پاکستان میں تب شاید سب سے بڑا بجلی گھر سوات کے قریب جبن کا ہائیڈرو پاور سٹیشن تھا جس کی استعداد 9.6 میگاواٹ تھی۔ اس کے علاوہ ملتان‘ لاہور اور راولپنڈی میں پرائیویٹ بجلی گھر تھے۔ ملتان کا بجلی گھر موجودہ کینٹ ریلوے سٹیشن کے قریب واقع تھا۔ یہ ایک ہندو سیٹھ کی ملکیت تھا جو تقسیم کے وقت بھارت چلا گیا تو یہ بجلی گھر کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مالکان نے الاٹ کروا لیا۔ یہ ایک چھوٹا سا بجلی گھر تھا جو شاید چار‘ چھ میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا حامل تھا۔ اسی ہندو سیٹھ کی ملکیت مظفر گڑھ میں بھی ایک بچونگڑا سا بجلی گھر تھا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پوری ریاست بہاولپور میں ڈیزل سے چلنے والا صرف ایک بجلی گھر تھا جس کی پیداواری صلاحیت 318 کلو واٹ تھی۔ یہ ریاست کی ملکیت واحد بجلی گھر تھا۔ رینالہ خورد کے قریب لوئر باری دوآب نہر پر سر گنگا رام کا لگایا ہوا ایک میگاواٹ کا ہائیڈل پاور سٹیشن تھا۔ 1925ء میں لگنے والا یہ بجلی گھر اس خطے کا اولین ہائیڈل پاور پلانٹ تھا۔ یہ پاور ہاؤس آج بھی چل رہا ہے تاہم جب میں اُدھر گیا تھا تو اس کی پانچ میں سے ایک ٹربائن مرمت کی طلبگار تھی۔ کسی نے بتایا کہ یہ عرصے سے اسی طرح پڑی ہوئی ہے۔
بات ملتان کے بجلی گھر کی ہو رہی تھی۔ ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ملکیت اس بجلی گھر کو میں نے اپنی ہوش میں چلتے دیکھا ہے۔ میسکو کے نام سے یہ بجلی گھر سارے ملتان اور نواحی علاقوں کو بجلی سپلائی کرنے کا تب واحد ذریعہ تھا۔ سڑکوں اور بڑی گلیوں میں میسکو والوں نے کھمبے لگائے ہوئے تھے تاہم چھوٹی گلیوں میں گھروں کی دیواروں پر اینگل آئرن لگا کر ساتھ بجلی کی وائرنگ کی ہوتی تھی۔ اوپر لوہے کے تار کے ساتھ لکڑی کے گول سوراخوں والے رِنگ لگا کر اس میں سے تاریں گزاری جاتی تھیں۔ ہر گھر میں میٹر کے ساتھ ایک آہنی ڈبی میں فیوز لگے ہوتے تھے جو زیادہ لوڈ پڑنے پر اُڑ جاتے تھے۔ اس کے اوپر تار باندھ کر سیسے کی سیل لگی ہوتی تھی۔ دوبارہ فیوز لگوانے کے لیے ہمیں حرم گیٹ کے باہر میسکو کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ بعض اوقات جب گھر کے سارے پنکھے چل رہے ہوتے اور استری لگا لی جاتی تو لوڈ زیادہ پڑنے پر فیوز اُڑ جاتا تھا۔ ہر گھر کے منظور شدہ لوڈ سے زیادہ بجلی کے استعمال پر گھر کی بجلی چلی جاتی تھی۔ بجلی کا کنکشن لیتے وقت آپ نے جس لوڈ کی سکیورٹی ادا کی ہوتی تھی‘ بس اتنا ہی لوڈ استعمال کر سکتے تھے۔ چیک اینڈ بیلنس کا قانون اچھی طرح لاگو ہوتا تھا۔ بعد میں تو سب کچھ ہی برباد ہو گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد شاید پہلا ہائیڈرو پروجیکٹ جو لگایا گیا‘ رسول ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن تھا۔ اس کی استعداد 22میگاواٹ تھی۔ اس کے علاوہ 50ء کی دہائی میں منٹگمری (ساہیوال) سٹیم پاور سٹیشن‘ جس کی صلاحیت چھ میگاواٹ تھی‘ لگایا گیا۔ اسی دوران آٹھ میگاواٹ کا لائلپور( فیصل آباد) سیٹم پاور سٹیشن لگایا گیا۔ جبن پاور سٹیشن کی پیداواری استعداد میں 10 میگاواٹ کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ درگئی (سوات) میں جبن پاور سٹیشن کی نچلی طرف دریائے سوات کی نہر پر ایک اور ہائیڈل پاور سٹیشن لگایا گیا۔ 1959ء میں واپڈا کا قیام عمل میں آیا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
واپڈا کا تب پہلا بڑا ہائیڈل پروجیکٹ وارسک ڈیم تھا‘ جو دریائے کابل پر بنایا گیا۔ اس کی استعداد 160میگاواٹ تھی۔ اسی کے ساتھ ملتان میں پیراں غائب تھرمل پاور سٹیشن لگایا گیا۔ اس بجلی گھر میں65‘ 65 میگاواٹ کی دو ٹربائنیں لگائی گئیں۔ بعد ازاں اس میں اتنی ہی پیداواری صلاحیت کی دو عدد مزید ٹربائنیں لگائی گئیں اور اس بجلی گھر کی کل پیداواری صلاحیت 260میگاواٹ ہو گئی۔ اس زمانے میں یہ ایشیا کا سب سے بڑا اور جدید تھرمل بجلی گھر تھا۔ اس کا ڈھانچہ اب بھی کھڑا ہے اور سدرن بائی پاس سے گزریں تو اس کی ویران عمارت‘ کولنگ ٹاور اور چمنیاں اپنی عظمتِ رفتہ کی کہانیاں سناتی ہیں۔
ملک میں اس کے بعد دیگر ہائیڈل اور تھرمل بجلی گھر لگنے شروع ہو گئے۔ ملتان کے بجلی گھر کے علاوہ فیصل آباد میں 66‘ 66 میگاواٹ کی دو اور 25‘ 25میگاواٹ کی آٹھ ٹربائنوں پر مشتمل ایک بجلی گھر لگایا گیا۔ سکھر میں 50 میگاواٹ‘ حیدر آباد میں 43‘ کوٹری میں 130‘ کوئٹہ میں 83اور گدو کے مقام پر 640 میگاواٹ کا سٹیم پاور سٹیشن لگایا گیا۔ ہائیڈل سے بجلی پیدا کرنے کی غرض سے رسول اور وارسک کے بعد منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے بڑے منصوبوں کے علاوہ مالا کنڈ‘ درگئی‘ چیچوکی ملیاں‘ شادیوال‘ نندی پور اور کرم کڑھی وغیرہ میں چھوٹے چھوٹے ہائیڈل پاور سٹیشن لگائے گئے۔ تب تین بڑے ہائیڈل پروجیکٹس کی کل استعداد 2790میگاواٹ تھی اور چھوٹے بجلی گھر ملا کر کل ہائیڈل پیداوار 2897میگاواٹ ہو گئی۔
شروع میں ملک کی بجلی پیداوار میں ہائیڈل اور تھرمل کا باہمی تناسب 60اور 40 تھا یعنی ہائیڈل بجلی کی پیداوار 60 فیصد جبکہ تھرمل کی پیداوار 40 فیصد تھی لیکن تربیلا کے بعد پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر نئے ڈیمز کے مسئلے پر ایسا طوفان کھڑا ہوا کہ نہ صرف کالا باغ ڈیم اس سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا بلکہ دیگر ڈیمز کا منصوبہ بھی طاقِ نسیاں ہو گیا۔ بجلی کی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے تھرمل پاور سٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ یوں یہ تناسب اُلٹ گیا اور تھرمل بجلی کی پیداوار 70 فیصد جبکہ ہائیڈل کی پیداوار 30 فیصد پر آ گئی۔ تاہم سردیوں میں یہ تناسب مزید بگڑ کر 80 اور 20 فیصد تک پہنچ گیا۔ ڈیزل‘ کوئلہ‘ فرنس آئل اور گیس سے پیدا کی جانے والی نسبتاً مہنگی بجلی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے پروڈکشن مکس خراب ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی کی اوسط پیداواری لاگت بڑھ گئی مگر حالات معمول کے مطابق چلتے رہے کہ یہ اضافہ مقامی روپوں اور پیسوں میں تھا۔ (جاری)