آج کل پاک ہند تعلقات خاصا متنازع مسئلہ بن چکاہے۔ جب سے انتخابات ہوئے ہیں اور نئی حکومت نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا اعلان کیا ہے‘ قوم تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک گروہ امن کی آشا کا پرچار کرتا ہے تو دوسرا ٹینک پر سوار ہو کر دلی جانے کی بات کرتا ہے اور اس کے لئے تاریخ سے حوالے پیش کرتا ہے۔ اس مکتبۂ فکر کے مطابق پچھلے سو سالوں میں ہندو مسلم اتحاد کی جتنی کوششیں ہوئیں مسلمان ان میں پیش پیش رہے۔ خاص طور پر تحریکِ خلافت کے زمانے میں جوش و یگانگت کا یہ عالم تھا کہ جہاں ہندواور مسلمانوں کا اکٹھا ذکر کرنا مقصود ہوتا ہمارے خلافتی رہنما ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرتے اور ہندو مسلمان دونوں کو ایک قوم کے طور پر خطاب کرتے ۔ اس وقت سیاست کی بساط پر اپنا مقام بنانے کے لیے گاندھی جی کو مسلمان رہنمائوںکی اشد ضرورت تھی‘ لیکن جیسے ہی یہ ضرورت پوری ہوگئی اور تحریکِ خلافت ختم ہوئی تو شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کے جھکڑ چلے۔ کانگریس کے سخت موقف کی وجہ سے محمد علی جناح جیسے لبرل اور رجائیت پسند ہندومسلم اتحاد کے سفیر اس سنہرے خواب کی تعبیر سے ناامید ہوگئے ۔ پھر جیسے ہی مسلمانوں کے الگ وطن کا مطالبہ ہوا تمام ہندوسیاستدان، دانشور، راہنما ، صحافی، کیا پنڈت کیا مہاتما، سب مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے۔جگہ جگہ بلوے ہوئے۔ کلکتہ اور بہار میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل اور لاکھوں کو ذلیل وخوار کیا گیا۔ تقسیم ملک کے وقت پوری تیاری سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور انسانی تاریخ میں قتل عا م اور غارت گری کی ایسی دل دوز داستان رقم کی گئی‘ جس کا ذکر کرنے سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ سوچ رکھنے والے استدلال کرتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اورمسلمان صوفیا ء کی تبلیغ کے نتیجہ میں مقامی لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ہندو مسلم دشمنی کا آغاز ہوگیا جو کبھی نہیں تھما۔حالانکہ ہندوستان کے ساحل پر اترنے والے پہلے مسلمان فاتح محمد بن قاسم نے ملتان تک کا علاقہ فتح کیا اور مقامی باشندوں سے نہایت نرمی اور فیاضی کا سلوک کیا‘ جس کے نتیجے میں کچھ علاقوں میں مسلم نو آبادیاں اورچھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستیں قائم ہوئیں۔انہی میں کارومنڈل کے علاقے میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست’’ معبر‘‘ تھی۔ چودھویں صدی عیسوی میں وجے نگر کے ہندو راجے نے اس ریاست پر قبضہ کیا تو بقول مصنف تاریخ فیروز شاہی مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور مسلمانوں پر بے پناہ ظلم ڈھایا گیا۔ اسی مصنف کے مطابق خلجی خاندان کے آخری بادشاہ قطب الدین مبارک شاہ کو اس کے ’’نومسلم‘‘ غلام خسرو خان نے قتل کیا جو دراصل ہندو ہی تھا۔ اس نے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے لیے جینا حرام کردیا۔ مسجدوں میں بُت رکھوائے اور اسلام کی توہین عام ہوگئی۔ تاریخ سے مزید دلیل مغلیہ دور سے دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہوں سے بڑھ کر ہندو رعایا کا خیال کرنے والا کوئی ہندوستانی حکمران نہیں ہوا۔ اگر مغل بادشاہ تھوڑے سے بھی اسلام کے ساتھ مخلص ہوتے اور تبلیغِ دین کی طرف متوجہ ہوتے تو پاکستان بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اکبر اعظم نے خود گوشت کھانا بند کردیا تھا اور گائے ذبح کرنے کی ممانعت کردی تھی۔ اس کے بعد آنے والے رواداری میں اتنے آگے نکل گئے کہ بقول ملا صالح کمبوہ مصنف ’’شاہجہاں نامہ‘‘ علاقہ بھمبھر اور نواح میں مسلمان عورتوں سے ہندوئوں کی زبردستی شادی اور انہیں چتا میں جلانے کی اطلاعات موصول ہوئیں تو شاہجہان نے اس جرم کے مرتکب لوگوں کو کڑی سزا دینے کی بجائے فقط تنبیہ اور جرمانہ کرنے پر اکتفاکیا۔اسی طرح جب پنجاب کے ضلع گجرات اور علاقہ سرہند میں ہندوئوں کی جانب سے مسلمان عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور مسجدوں کو گرا کر مندروں میں تبدیل کرنے کی شکایات موصول ہوئیں تو سرکاری کارروائی صرف عورتوں کو بازیاب کروانے اور مساجد کی بحالی تک محدود رہی۔ اس کے برعکس امن کی آشا رکھنے والے گروہ ایسی باتوں کو تاریخ کا تعصب قرا ردیتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق مسلمان حکمرانوں کی طرف سے ہندو رعایا کے معاملے میں زیادتیاں بھی ہوئیں۔ مثال اور نگ زیب عالمگیر کی دی جاتی ہے۔ جب سکھ گروقتل ہوئے‘ ان کے بچے زندہ دیواروں میں چن دیے گئے اور سکھ مذہب کا پیروکار ہونا جان کا روگ بن گیا۔ اس سوچ کے حامل لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بابری مسجد کا گرایا جانا ناپسندیدہ فعل تھا تو محمود غزنوی کے ہاتھوں سومنات کی تباہی بھی ناقابل قبول ہونی چاہیے۔ ورنہ طاقت کے زور پر ہر مذہب کیلئے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں مسمار کرنا جائز سمجھا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ یورپ میں کل کے جانی دشمن آج دوست بن چکے ہیں اور آپس میں امن وامان سے رہ رہے ہیں‘ لیکن برصغیر کے باسی ابھی تک پچھلی صدیوں میں رہ رہے ہیں اور ماضی کی تلخیوں کو بھلانا نہیں چاہتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقسیم ملک کے وقت اگر بے شمار مسلمان قتل ہوئے تو دوسری جانب ہندو،سکھ بھی مارے گئے جس کسی سے جو ہوسکا اس نے کیا ۔ اب لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگر دونوں ملکوں کو اقتصادی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے تو تصادم اور جنگ کی راہ چھوڑنا ہوگی۔ اپنے فوجی اخراجات کم سے کم کرنے ہوں گے اور وہی رقم اپنے اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنی ہوگی۔ جہاں تک دونوں ممالک کے درمیان مسائل کا تعلق ہے‘ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ آپ کوئی بھی سوچ رکھتے ہوں اور تاریخ کی کتابوں میں بیان کردہ باتوں کو تعصب سمجھتے ہوں یا سچائی ۔ ایک بات طے شدہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوںایٹمی اسلحے سے لیس ہیں۔ ان کے درمیان اگر خدا نخواستہ جنگ چھڑتی ہے تو وہ روائتی جنگ تک محدود نہیں رہے گی جس ملک کی بھی شکست کے آثار ہوں گے وہ ہتھیار ڈالنے کی بجائے ایٹمی صلاحیت کو بروئے کار لائے گا اور پھر جو حشر ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان امن اور دوستی کے بارے میں پاکستان کے تحفظات ہیں اور کسی نقصان کا اندیشہ ہے تو یہ یاد رہنا چاہیے کہ تصادم اور جنگ کی صورت میں نقصان اتنا زیادہ ہوگا کہ اندازہ بھی مشکل ہے۔ اس وقت بد قسمتی سے دونوں ملکوں کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار گولہ باری جاری ہے‘ جانی اور مالی نقصان ہورہاہے‘ پاکستان صوبہ بلوچستان میں ہونے وا لی ہر دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ دیکھتا ہے۔ اگرچہ اس کے بارے میں ابھی تک نہ تو کسی بھارتی منصوبے کا سراغ لگایا جاسکا ہے نہ ہی کوئی بھارتی ایجنٹ پکڑا گیا ہے ۔ دوسری طرف بھارت اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر واردات پاکستان کے کھاتے میں ڈالتاہے۔ لہٰذا ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ شک کی فضا کو ختم ہونا چاہیے۔دہشت گردی کے ہر واقعے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے جس میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر امن کو موقع دینا چاہیے۔ جس کسی کو امن سے خطرہ ہے اسے سوچنا چاہیے کہ جنگ اور تصادم کے خطرات اور نقصانات اتنے زیادہ ہوسکتے ہیں کہ جن کی کوئی انتہا نہیں۔