ہمارا قومی رویہ بالکل شتر مرغ جیسا ہے جوخطرے کوسامنے دیکھتے ہوئے اپنا سرزمین میں چھپا لیتاہے اور مطمئن ہوجاتا ہے کہ اب وہ خطرے سے محفوظ ہوگیا ہے۔اگرہمارا حافظہ کمزور نہیں تو ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ دہشت گردی ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے،اب تک ہزاروں قیمتی جانیں اس کی نذر ہوچکی ہیں اوربھاری مالی نقصان بھی ہوچکا ہے۔اس سے بڑھ کر‘دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے ملکی وقاراورمجموعی طور پر معیشت کوجو دھچکے لگے ہیں اُس خسارے کا تخمینہ لگانا شاید کسی طور ممکن نہیں۔گزشتہ مئی میں ہونے والے انتخابات کے بعد اس مسئلے پر پوری قوم کی توجہ مرتکز ہوئی اورکل جماعتی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اورعسکری قیادت نے قومی اتفاق رائے سے دہشت گردی سے نمٹنے کا جامع منصوبہ تیار کیا۔اس منصوبے کے مطابق طے پایا کہ پہلے مرحلے میں طالبان سے مذاکرات کیے جائیں اورمذاکرات کی ناکامی کی صورت میںطاقت استعمال کی جائے۔ مذاکرات شروع کرانے کا فریضہ وزیر داخلہ کے سپرد ہوا جنہوں نے کسی کوکانوںکان خبرنہ ہونے دی کہ وہ اس سلسلے میں کیا کررہے ہیں اور پوری قوم کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا۔کافی عرصہ گزرنے کے بعد طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میںمارا گیا تو موصوف اچانک بول پڑے کہ مذاکرات کی سب تیاری مکمل تھی اور تین رکنی وفد طالبان سے ملاقات کے لیے پابہ رکاب تھا اورمذاکرات کا آغاز ہونے ہی والا تھا لیکن ڈرون حملے نے سب کام چوپٹ کردیا۔اگر حملہ نہ ہوتا تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔ اس تمام عرصے میں پوری قوم مذاکرات یا جنگ کی بحث میں الجھتی رہی اور پھرشہادت کا مسئلہ بھی زیر بحث آگیا جس نے اصل معاملے سے توجہ ہٹانے میں جوکسر باقی تھی‘ وہ پوری کردی۔
ڈرون حملہ ہوئے اب ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن ہر طرف یوں خاموشی طاری ہے گویا دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوچکا ہے اورخطرہ پوری طرح ٹل گیا ہے، نہ پارلیمنٹ میں شورمچتا ہے نہ میڈیا کوئی سوال اٹھاتا ہے،کسی طرف سے کوئی ایک آواز بھی سنائی نہیں دے رہی، کوئی نہیں جو حکومت سے پوچھے کہ قومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل طے ہوا تھا کہ طالبان سے پہلے مذاکرات کیے جائیں گے اور ناکامی کی صورت میں ان کے خلاف طاقت کا استعمال ہو گا، اس پرکہاں تک عملدرآمد ہوا؟ بظاہر کہیں کچھ نہیں ہورہا، قوم پوری طرح اندھیرے میں ہے اس لیے ہمیں تصورات سے ہی کام چلانا پڑے گا۔
فرض کیجئے حکومت کی مشکل یہ ہے کہ ڈرون حملے کے نتیجے میں مذاکرات کا راستہ بند ہوچکا ہے تو یہ کون ساایٹمی راز ہے جس کو چھپایا جا رہا ہے اوراگر ہمارے وزیر داخلہ اپنی بھرپور کوشش کے باوجود طالبان سے رابطے بحال نہیں کرسکے اوراس بات کا کوئی امکان بھی نہیں کہ مذاکرات کا عمل شروع ہو تو موصوف اپنی ناکامی تسلیم کیوں نہیں کرلیتے، یا ابھی بھی کوئی امید باقی ہے اورایسے ذرائع موجود ہیں جنہیں استعمال کرکے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکتاہیتواس معاملے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ جہاں تک ڈرون حملوں کا معاملہ ہے، ان میں بظاہر کمی ہوچکی ہے اور ہمارے خارجہ امور کے مشیر جناب سرتاج عزیز قوم کو یہ مژدہ سنا چکے ہیں کہ جب طالبان سے مذاکرات شروع ہوںگے تو امریکہ کا وعدہ ہے کہ ڈرون حملے بند کردیے جائیں گے۔کیا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے یہ ضمانت کافی نہیں؟ اگر یہ ضمانت ناکافی ہے تو پاکستان کے پاس فی الحال اس سے زیادہ کااختیار نہیں ہے ۔ فرض کیجئے کہ طالبان یہ ضمانت قبول نہیں کرتے، مزید فرض کیجئے کہ تمام دروازے کھٹکھٹائے جاچکے ہیں اور کہیں بات نہیں بنی،یہ بھی فرض کرلیجئے کہ جتنے لوگ حکومت اور طالبان کے درمیان پل بننے کے دعوے دار ہیں وہ سب ناکام ہوچکے ہیں تو حکومت اب کس سوچ میں ہے؟ کیا ہمارے وزیر داخلہ اس انتظار میںہیں کہ کسی طرح امریکہ ایک ڈرون حملہ اور کردے اور وہ واویلا کر سکیں کہ مذاکرات شروع ہوا ہی چاہتے تھے لیکن ڈرون حملے نے تمام محنت پر پانی پھیر دیا اوراب مزیدکئی مہینے کچھ نہیں ہو سکے گا۔ یا پھر وہ اس انتظار میں ہیں کہ طالبان دہشت گردی کے محاذ پر چھائی خاموشی کو توڑیں، نئے سرے سے خون خرابہ کریں اور دُکھوں کی ماری قوم سب کچھ بھول کر اپنے تازہ زخموں کی مرہم پٹی کرنے میں لگ جائے اور ہمارے وزیر داخلہ اپنا معمول کا بیان داغ سکیں کہ وہ کسی کو ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دیں گے؟ بکتربند گاڑیوں اور محافظوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ سفر کرنے والے ہمارے اہلِ اقتدار کوآخر اس معاملے میں تشویش یا جلدی ہوبھی کیا سکتی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے چرکے سہنے والے مظلوم عوام کو آخراتنا حق تو ہونا چاہیے کہ وہ پوچھیں کہ اگر اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجودحکومت مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں کرسکی تو پھر قومی اتفاق رائے کے مطابق طاقت کے استعمال میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیا بجلی کے بحران کی طرح یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے بھی پانچ یا دس سال کی مدت درکار ہے؟ بجلی کی پیدا وار کے لیے پھر بھی آئے روز کسی نئے معاہدے پر دستخطوں کی خوشخبری سنائی جاتی ہے لیکن
دہشت گردی کے معاملے میں جو بجلی سے بھی زیادہ مشکل اورخوفناک مسئلہ ہے،قبرستان جیسی خاموشی کیوں طاری ہے؟بجلی کے معاملے میں تو کئی تنازعات ہیں،کوئی کہتا ہے کہ صرف پانی سے بجلی بنائو، باقی سب طریقے بہت مہنگے ہیں، کوئی کوئلے اور کوئی شمسی توانائی کے حق میں بات کرتا ہے لیکن دہشت گردی کے معاملے میں تو قومی سطح پر مکمل اتفاق رائے ہے اور دوٹوک فیصلہ ہوچکا ہے کہ پہلے مذاکرات اور ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال۔ اس اتفاق رائے کے باوجود اگر کوئی کج بحثی کرتا ہے تو یہ بے کار ہے۔ اس وقت حالات کی نزاکت کے پیش نظر صرف اور صرف ایک چیز مطلوب ہے کہ حکومت کو کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے پر فوری عمل کے لیے مجبور کیا جائے اور وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ قومی اتفاق رائے کے مطابق طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر ہوسکتے ہیں تو یہ مذاکرات کب شروع ہوں گے اور اگر نہیں ہوسکتے تو دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال میں کیا امر مانع ہے؟ اگر وزیر داخلہ مہر بلب ہیں تو باقی ارکانِ حکومت کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ معاملہ اتنا غیراہم تو نہیں کہ صرف وزیر داخلہ پر چھوڑ دیا جائے۔ جماعت اسلامی نے پہلے ہی مطالبہ کردیا ہے اور درست مطالبہ کیا ہے کہ خود جناب وزیر اعظم کو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے، بصورت دیگر قوم کو مزید حادثوں اور صدموں کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔