پاکستان کرکٹ میں آج کل تخت نشینی کی جنگ بڑے زوروں پر ہے اور اس سلسلے میں کئی معرکے ہوچکے ہیں۔ یہ جنگ عدلیہ کے ایوانوں میں لڑی جارہی ہے۔ پہلے ، ذکا اشرف صاحب فارغ ہوئے اور نجم سیٹھی صاحب نے راج سنبھالا۔ لیکن ذکا اشرف صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور تقریباً چھ ماہ عدالتی جنگ لڑنے کے بعدوہ دوبارہ اپنا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کرکٹ پر بڑے بھاری گزرے۔ ہر طرف بے یقینی کی کیفیت تھی۔ نجم سیٹھی صاحب اپنی تما م صلاحیتوں کے باوجود عدالتی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور بے اختیار ہونے کی وجہ سے ایک ڈنگ ٹپائو قسم کا چیئر مین بنے رہنے پر مجبور تھے۔ کوئی باضابطہ سلیکشن کمیٹی تھی نہ دوسرے ضروری لوازمات ۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے کھلاڑیوں کا کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ کھیل کے میدانوں کو آباد رکھا ۔ عدالت میں شروع ہونے والی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ معاملہ عدالت ِعالیہ سے ہوتا ہوا عدالت عظمیٰ تک جا پہنچا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کو ذکا اشرف صاحب کی واپسی قبول نہیں۔ لہٰذا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کر دی گئی ہے۔ جس کی سماعت سوموار کے دن متوقع ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل میں حکومت کا موقف ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے (حکومت) سنے بغیر ذکا اشرف صاحب کو بحال کردیا ہے ۔
ایک طرف اندرون ملک پاکستان اس خلفشار میں مبتلا ہے تو دوسری طرف انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس یعنی آئی سی سی کے کئی دیگر ممبران کی حالت بھی اچھی نہیں۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا نہایت شاندار ماضی ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے اور اس کی موجودہ ٹیم خاصی کمزور ہے۔ جس نے بڑے عرصے سے کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھائی ۔نیوزی لینڈ ہمیشہ سے ایک اوسط درجے کی ٹیم رہی ہے اور اب بھی اس کی کارکردگی میں کسی بہتری کی صورت نظر نہیںآتی۔ بنگلہ دیش میں امن وامان کی صورتحال بھی مخدوش ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہاں پر بین الاقوامی کرکٹ کا انعقاد خاصا مشکوک نظر آتا تھا۔ بنگلہ دیش اور زمبابوے وسائل کی کمی کااس حد تک شکارہیں کہ کرکٹ کے میدان میں وہ ابھی تک کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے۔سری لنکا کی ٹیم تو مناسب ہے لیکن بنگلہ دیش اور زمبابوے کی طرح وہاں بھی وسائل کی کمی کا مسئلہ ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی سی سی میں عجیب کھچڑی پک رہی ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق اس کے تین ممبروں یعنی انگلینڈ ، آسٹریلیا اوربھارت نے مشترکہ طور پر یہ تجویز پیش کی ہے کہ چونکہ وہ آئی سی سی کے ''کمائو پُتر‘‘ ہیں اور ادارے کی80%آمدنی ان کی وجہ سے ہے، لہٰذا اس آمدنی کی تقسیم برابری کے اصول کی بجائے ممبرملکوں کے کمانے کی صلاحیت کے مطابق ہونی چاہیے اور مذکورہ تین ممالک پر مشتمل ایک ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جس کے پاس کرکٹ سے متعلق تمام فیصلے قبول یا مسترد کرنے کا اختیار ہو۔ 28جنوری کو ہونے والے آئی سی سی کے اجلاس میں ان تجاویز پر رائے شماری ہوگی اور اگر دس ممبران میں سے سات ان تجاویز سے متفق ہوئے تو یہ آئی سی سی کے قوانین کا حصہ بن جائیں گی۔
اطلاعات کے مطابق سری لنکا ،بنگلہ دیش اور زمبابوے سے وسائل مہیا کرنے کا وعدہ کیا جارہاہے جبکہ پاکستان کوکرکٹ کے تعلقات کی بحالی کا لالچ دیا جارہاہے۔ اس سلسلے میں بھارت اور انگلستان نے پاکستان سے کسی غیر جانبدار جگہ پر میچ کھیلنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان تمام ترغیبات کے پیچھے ایک ہی جذبہ کار فرما ہے کہ کسی طرح ان تجاویز کیلئے مطلوبہ تائید حاصل ہوجائے جو28جنوری کو آئی سی سی کے اجلا س میں زیر غور آئیں گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ انگلستان ،آسٹریلیا اور بھارت کی مشترکہ تجاویز پرکوئی اصولی موقف اختیار کیا جائے گا۔ حالانکہ اگر ماضی میں جھانکا جائے تو نوآبادیاتی دور میں آسٹریلیا اور انگلستان کے پاس بطور بانی ارکان ویٹوکا حق موجود تھا جسے وہ جب چاہتے تھے استعمال کرتے تھے۔ پچھلی صدی کی ستر کی دہائی میں اس غیر جمہوری قانون کے خلاف سخت احتجاج ہوا اور یوں آئی سی سی کو مجبوراً اپنے دستور کو جمہوری بنانا پڑا۔اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد کچھ ممالک اپنے سرمایہ کے زور پر آئی سی سی کے آئین کو غیر جمہوری بنانا چاہتے ہیںاور وقت کے پہیئے کو گھما کر پیچھے لے جانا چاہتے ہیں تو یہ بڑی افسوسناک بات ہے۔
اگر یہ ممالک اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آئی سی سی کے ممبر ممالک کی مساوی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہ دوطبقوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک اعلیٰ ذات کے ممبران ہوں گے جن کے پاس وسیع تر اختیار ہوں گے۔ آپ ان کو آئی سی سی کے برہمن کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ باقی ممبران کے پاس کوئی خاص اختیار ہوگا نہ ان کو وسائل میں مناسب حصہ ملے گا۔ ان کا تعلق آئی سی سی کے شودر طبقے سے ہوگا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت آئی سی سی میں ذات پات کا وہی نظام لانا چاہتا ہے جو صدیوں سے بھارتی معاشرے میں رائج ہے۔
جہاں تک وسائل کی تقسیم کا سوال ہے اس کے بارے میں آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت کی تجاویز بنیے کی سوچ پرمبنی ہیں۔ یہ سوچ ہی غلط ہے کہ یہ تینوں ممالک آئی سی سی کی آمدنی کا 80% حصہ مہیا کرتے ہیں۔ آئی سی سی کے پاس جتنے بھی ایونٹس ہیں ان سب کے بین الاقوامی سطح پر حقوق فروخت کیے جاتے ہیں۔ سپانسر شپ کا بندوبست ہوتاہے اور اس میں جو بھی کمپنیاں کامیاب ہو کر مقابلوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں وہ خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرتی ہیں اور اس کے بدلے میں ان کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسی کمپنیاں جو بھی سپانسرشپ دیتی ہیں یا ان مقابلوں کو دکھانے کے حقوق خریدتی ہیں ان کو اس کے بدلے میں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا نہ تو ان کاکسی کرکٹ بورڈ پر احسان ہے نہ کوئی کرکٹ بورڈ اس کی وجہ سے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ چونکہ اس کمپنی کا تعلق ان کے ملک سے ہے لہٰذا اس آمدنی کا کریڈٹ بھی اس کرکٹ بورڈ کو ملنا چاہیے۔ایسے دعوے کا سیدھاسا جواب یہ ہے کہ یہ کمپنیاں بے شک سرمایہ کاری نہ بھی کریں تو اس کی بجائے اور کاروباری ادارے سامنے آجائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کرکٹ شرفا ء کا کھیل ہے، کسی بنیے کی دکان نہیں۔آئی سی سی کا بنیادی فریضہ کرکٹ کے پروگرام کے ذریعے وسائل اکٹھا کرنا اور ان وسائل کو ان ممبران کی طرف منتقل کرنا ہے جہاں وسائل کی کمی ہے۔ اگر کوئی تجویز اس پروگرام سے متصادم ہے تو یہ راستہ کرکٹ کی تباہی کی طرف جاتاہے۔ یہ تجاویز پیش کرنے والے ممالک نے غالباً نتائج پر غور نہیں کیا۔ اگر فرض کیا جائے کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ مل کر ان تجاویز کی مخالفت کرتے ہیں تو کسی بھی بین الاقوامی مقابلے کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔ یا کم از کم اس میں شائقین کی دلچسپی ختم ہوجائے گی۔ اس صورت میں آئی سی سی کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے گھر کی لڑائی ختم کرکے اس معاملے میں دوٹوک اصولی موقف اختیار کرے اور کسی قسم کی ترغیبات کی پروا کیے بغیر ان تجاویز کی مخالفت کرے۔ انگلینڈ اور بھارت کی طرف سے ہمارے ساتھ کھیلنے کی پیشکش کا ان تجاویز کی مخالفت یا حمایت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ تعلق جوڑا جاتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ووٹ خریدنے کی کوشش ہے اور چاہے پاکستان ہو یا کوئی دوسرا ملک آج کل کے دور میں ووٹ فروشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔