ان دنوں ملک میں نومبر2007ء میں نافذ ہونے والی ایمرجنسی کے حوالے سے غداری کے مقدمے کا بہت چرچا ہے۔ کہیں سے صدا بلند ہوتی ہے کہ آئین کی پامالی کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنادینا چاہیے۔ تو جواب میں شور اٹھتا ہے کہ صرف ایک ہی کو کیوں، آغاز اس دور سے ہونا چاہیے ،جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یا یہ کارروائی اکتوبر1999ء سے شروع ہونی چاہیے جب ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔ کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو آئین شکنی کو قابلِ سزا توسمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ جمہوریت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ آمرانہ قوتوں کو لگام ڈال سکے۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کا استدلال یہ ہے کہ اصل جمہوریت وہ ہوتی ہے جوکسی قوم کے شعور،اس کی اجتماعی سوچ اور اس کی روایات کا حصہ ہوتی ہے۔ آج جن ملکوں میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نظر آتی ہیں، ان کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ کیونکہ وہ قومیں اپنے پسندیدہ نظام کے علاوہ کسی اور طرزِ حکومت کے تحت زندگی بسر کرنے کو تیار نہیں۔
اس سلسلے میں سب سے روشن مثال برطانیہ کی ہے جس نے ایک مطلق العنان بادشاہی نظام سے آغاز کرکے جمہوریت کی منزل کو پالینے تک تقریباً ہزار سال کا ایک لمبا سفر طے کیا اور بہت قربانیاں دینے کے بعد ان کو وہ زندگی نصیب ہوئی ہے جو آج کے دور میں وہ بسر کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ داستان بیان کی جاتی ہے کہ پاکستان سے گئے کسی مہمان نے اپنے انگریز میزبان سے یہ انوکھا سوال پوچھا کہ اگرکوئی ایسی صورت ہوجائے کہ برطانیہ میں کوئی فوجی جرنیل کسی طرح حکومت پر قبضہ کرلے تو پھر کیا ہوگا۔انگریز میزبان نے اپنی مخصوص مسکراہٹ اور مہذب لہجے میں جواب دیا کہ برطانیہ میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی مہمان نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا سوال دہرایا کہ پھر بھی اگر فرض کریں کہ ایسا ہوجائے تو کیا صورتحال ہوگی۔ میزبان نے دوبارہ انکار میں سرہلایا کہ ان کے ملک میں ایسا ممکن نہیں ۔پاکستانی مہمان نے پھر اصرار کیا کہ دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں۔ اگر تصور کرلیا جائے کہ انگلستان میں فوج کسی طرح حکومت پر قبضہ کرلے تو زندگی کیسی ہوگی۔ انگریز میزبان نے تنگ آکر جواب دیا کہ اگر آپ ضد کرتے ہیں کہ ایک ناممکن چیز کا ممکن ہونا تصور کیا جائے تو جس دن ایسا واقع پیش آیا توانہیں یقین ہے کہ ملک میں زندگی کا پہیہ جام ہوجائے گا اور وقت تھم جائے گا۔ آمد ورفت کا نظام مفلوج ہوجائے گا۔ بسیں رک جائیں گی۔ زیرِ زمین گاڑیوں کی آمد ورفت بند ہوجائے گی۔ شہروں میں چلنے والی ٹیکسیاں نایاب ہوجائیں گی۔ طلبا اپنے تعلیمی اداروں میں نہیں جائیں گے۔ استاد پڑھانے نہیں آئیں گے۔ کوئی دفتر نہیں کھلے گا۔ دکانیں بند رہیں گی۔ تجارتی مراکز اپنا کام معطل کردیں گے۔ اخبار ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن ایک طوفان اٹھادیں گے۔ اس طرح پوری قوم معمولات زندگی ترک کرکے احتجاج کیلئے نکل آئے گی۔ اتنا موثر احتجاج ہوگا کہ فوجی حکومت ایک مذاق بن جائے گی اور جس کسی نے ایسے پاگل پن کا مظاہرہ کیا ہوگا بے دست وپا ہو کر اپنے ساتھیوں سمیت دم دبا کر بھاگ جائے گا۔
اس کے برعکس ہم اپنا جائزہ لیں تو صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک یا دو بار نہیں ،بلکہ کئی دفعہ آئین کی پامالی ہوئی اور آمروں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔وجوہ چاہے جو بھی ہوں،یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب بھی منتخب حکومت کا تختہ الٹا جاتا ہے کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔جمہوریت کے غم میں کوئی آنکھ اشک بار نہیں ہوتی۔ حکومت کے مخالفین مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ عوام خوشی منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ سیاستدان جانے والوں کو جلی کٹی سناتے ہیں اور آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اخبارات خیرمقدمی اداریے لکھتے ہیں۔ٹی وی چینل انقلاب کے مثبت اثرات پر گفتگو کرتے ہیں۔دیکھتے دیکھتے سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایسا تاثر ملتا ہے جیسے اس سے بہتر کچھ ہوہی نہیں سکتاتھا۔ سب سے پہلے ایوب خان کے مارشل لاء کا بڑا پرتپاک خیر مقدم ہوا۔ پھر قوم اتنی عادی ہوگئی کہ ہر آمر کی آمدکا جشن منایا گیا۔12اکتوبر1999ء کے فوجی اقدام کی بھی کوئی قابل ذکر مخالفت نہیں ہوئی بلکہ غیرملکی صحافیوں کے بار بار پوچھنے پر بھی ہمارے راہنمائوں نے اس غیر آئینی اقدام کو اس امید میںجائز ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شاید اگلی باری ان کی ہو۔ فوجی آمر کی جھلک دیکھ کر عوام نے تالیاں بجائیں۔ سیاست پیشہ لوگوں نے حسبِ توفیق آمرانہ نظام کو کندھا دینے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں۔جن کی خدمات قبول ہوئیں، وہ فیض یاب ہوئے اوراندھا دھند لوٹ مار کرکے اپنی آنے والی کئی پشتوں کے لیے بے تحاشہ مال سمیٹا۔ جب کشتی ڈوبتے دیکھی تو ایسے لوگ بھاگ نکلے اور جس آمر کے صدقے واری جاتے تھے اس سے یوں لاتعلق ہوئے جیسے کبھی اس سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ آمر سے اپنے راستے جدا کرکے سیاسی پناہ لینے کیلئے سب دروازوں پر دستک دے کر جب یہ لوگ مایوس ہوگئے تو کہیں سے غیبی اشارہ پاکر آمر کے دفاع کیلئے پھرمیدان میں اتر آئے۔
ان کی یہ بات بڑی منطقی اور سچائی پر مبنی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی فردِ واحد چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو،کسی غیر آئینی اقدام کی جرأت نہیں کرسکتا‘ جب تک کہ اس کی تائید کرنے کے لیے پوری ٹیم اس کے ساتھ نہ ہو۔ 12اکتوبر1999ء والا حادثہ پیش نہیں آسکتا تھا‘ اگر جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے کیلئے دوسرے لوگ تیار نہ ہوتے۔ اسی طرح نومبر 2007ء والا معاملہ بھی نہیں ہوسکتا تھا ‘ اگر اس وقت کے وزیر اعظم ‘کابینہ کے وزرا ء اور برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کے معتبر ارکان اس سارے عمل میں ملوث نہ ہوتے۔ انصاف سے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ایمرجنسی کا نفاذ اکیلے جنرل مشرف کی ضرورت نہیں تھی۔ ایمرجنسی ان سب لوگو ںکی مجبوری تھی جو اس دور کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے تھے۔ بیچارے جنرل نے تو شاید اتنا فائدہ نہ اٹھایا ہو جتنا اس کے ارد گرد موجود لوگوں نے ہاتھ رنگے اور اتنی دولت اکٹھی کرلی کہ ان کی آنے والی کئی نسلیں عیش وعشرت کرسکتی ہیں۔ اس ناجائز دولت کے بل بوتے پر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہے‘ اس لئے وہ کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں وہ جنرل صاحب کے شریک تھے۔ لہذا ان پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔ یہ ایک ایسا جائز مطالبہ ہے جس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے ۔ان لوگوں کے خلاف فردجرم عاید ہونا چاہیے‘ خواہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ دفاع کا موقع دینے کے بعدقانون کے مطابق انہیںسزا ملنی چاہیے ‘اگر وہ مجرم ثابت ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی قسم کے تذبذب کا شکار ہوئے بغیر فوری طور پر اس معاملے میں بسم اللہ کرے اور اس قبیلے کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے جو تقریباً دس سال تک جنرل پرویز مشرف کا ہم پیالہ وہم نوالہ رہااور حالات بدلتے دیکھ کر مرغِ باد نما کی طرح رخ تبدیل کرلیا۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کسی اندرونی یا بیرونی دبائو کی وجہ سے کوئی اہم ملزم قانون کے شکنجے میں نہیں آتا تو کم از کم آئین شکنی میں مددگار لوگ تو پکڑے جائیں تاکہ مستقبل میں اگر کوئی ''میرے عزیزہموطنو ‘‘ کا نعرہ بلند کرے تو حرص کے مارے ہوئے لوگ اس نعرے پر لبیک کہنے کی بجائے پہلے پچھلے لوگوں کے انجام سے عبرت پکڑیں۔