برصغیر پاک وہند میں کرکٹ محض کھیل نہیں بلکہ ایک جنون کا نام ہے۔ جب بھی اس خطے میں کھیل کا میلہ سجتا ہے، زندگی مکمل طور پر متاثر ہوتی ہے۔ آج کل پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان دبئی میں کرکٹ کے مقابلے ہورہے ہیں اور ہمارے شائقین ان میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو ایک اننگز سے شکست ہوئی ہے۔ اگر معمول کی صورتِ حال ہوتی تو یہ نتیجہ پاکستانی شائقین کیلئے خاصا صدمے کا باعث ہوتا۔ لیکن میچ کے نتیجے سے زیادہ اہمیت اس خبر کو ملی ہے کہ جنوبی افریقہ کے کھلاڑی بال ٹمپرنگ کے مرتکب پائے گئے اور جرم ثابت ہونے پر ایک کھلاڑی کو سزا سنائی گئی۔ ہمارے اخبارات نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھاہے اور ٹیلیویژن کے پروگراموں میں بھی اس پر تفصیل سے گفتگو ہوئی ہے۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اکثر وبیشتر تبصرے مغربی میڈیا پر پیش کی جانے والی تصویر کاعکس ہیں۔ مغربی میڈیا اس موضوع پر بات کرتے ہوئے طوطے کی طرح رٹ لگائے رکھتا ہے کہ کرکٹ مہذب دنیا کی ایجاد ہے۔ یہ شرفا کا کھیل ہے۔ صدیوں سے اس کی اعلیٰ روایات ہیں اور کھیلنے والے ہمیشہ ان روایات کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں بہت سوچ بچار کے بعد قوانین بنائے گئے ہیں جن کی پابندی ہر ایک پر لازم ہے۔ لیکن بقول ان کے چند سالوں سے پاکستانی کھلاڑیوں نے ریورس سوئنگ شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی بال ٹمپرنگ کی وبا کرکٹ میں آگئی جس کا پہلے کوئی تصور ہی نہ تھا۔ لہٰذا اس کا سدباب اشد ضروری ہے۔ چاہے اس کیلئے کتنے ہی سخت قوانین بنانے پڑیں اور کیسی ہی سخت سزائیں دینا پڑیں۔ یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے جو مغربی میڈیا پیش کرتاہے۔ اس مسئلے کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کرکٹ کے قوانین اجازت نہیں دیتے کہ کوئی کھلاڑی گیند کی حالت کو مصنوعی طور پر تبدیل کرے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ عمل بال ٹمپرنگ ہے اور قابلِ سزا ہے۔ مغربی میڈیا سے متاثر ہوکر ہمارے اکثر ماہرین اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ گیند سے چھیڑ چھاڑ یا اس کی حالت تبدیل کرنے کی کوشش کرکٹ میں کوئی نئی چیز نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب سے یہ کھیل شروع ہوا ہے ایسی کارروائیاں بھی اس کی روایات کا حصہ ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لحاظ سے بال ٹمپرنگ ایک پرانی روایت ہے اگرچہ مختلف وقتوں میں اس کی مختلف شکلیں دیکھنے میں آئی ہیں ۔انگلش کرکٹ میں ابتدا سے ہی گیند کی سلائی خراب کرنے کا رواج تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ گیند کے بخیئے ادھیڑنا کھیل کا باقاعدہ حصہ تھا۔ کیونکہ اس سے گیند سوئنگ کرتی تھی اور بائولر کو وکٹ لینے میں آسانی ہوتی تھی۔ یہ کام خلافِ قانون تھا مگراس حد تک عام تھا کہ امپائر صاحبان بھی اسے نظرانداز کردیتے تھے۔ اس سلسلے میں کئی لطیفے مشہور ہیں جو اصلی واقعات پر مبنی ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ کائونٹی کرکٹ میں ایک بائولر نے گیند کے کچھ اس طرح بخیئے ادھیڑے کہ اس کا حلیہ ہی خراب ہوگیا۔ امپائر نے گیند کا بغورمعائنہ کیا اور یہ کہتے ہوئے گیند بائولر کو واپس کردی کہ تم نے اس گیند پر بہت محنت کرکے اسے اپنی مرضی کا بنالیا ہے۔ اب اگر کم از کم پانچ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے تم پیویلین کی راہ نہیں دکھاتے تو میں تمہارے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کرونگا۔ اس طرح کے رویے سے گیند کے بخیئے ادھیڑنے کی روایت کھیل کا حصہ بن گئی جو بدترین بال ٹمپرنگ تھی۔ لیکن اسے Seam Liftingکانام دے کر جرم کی نوعیت گھٹانے کی کوشش کی گئی۔ بال ٹمپرنگ کی ایک اور شکل وہ تھی جس میں بائولر کی کوشش ہوتی تھی کہ ہرقیمت پر گیند کی چمک کو برقراررکھا جائے۔ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔ اس کوشش میں وہ مضحکہ خیز صورتِ حال بھی دیکھنے میں آئی کہ 1974ء میں جب انگلستان کی ٹیم بھارت کا دورہ کررہی تھی تو اس کے ایک بائولر جان لیور کے خلاف الزام لگا کہ انہوں نے اپنے بالوں پر ایسی کریم لگائی ہوئی تھی جو انہیں گیند کی چمک برقرار رکھنے میں مدد دے رہی تھی۔ بھارت نے خاصا ہنگامہ کھڑا کیا لیکن اس زمانے میں بھارت ابھی کرکٹ کی بڑی طاقت کے طور پر نہیں ابھرا تھا۔ قوانین بھی ایسے سخت نہیں تھے۔ مقابلے میں انگریزوں کی ٹیم تھی۔ نہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کوئی توجہ دی نہ اخباروں میں چیختی چنگھاڑتی سرخیاں لگیں۔ اس طرح یہ واضح بال ٹمپرنگ کرکٹ کے قواعدکی معمولی خلاف ورزی بن کر کسی انکوائری یا سزاکی زد میں نہ آئی۔ اس تمام پس منظر کو فراموش کرتے ہوئے گیند کی حالت تبدیل کرنے کیلئے بال ٹمپرنگ کی اصطلاح اس وقت زیادہ زور شور سے استعمال ہوئی جب پاکستانی بائولر وں نے ریورس سوئنگ کرتے ہوئے حیرت انگیزکامیابیاں حاصل کیں۔تمام دنیانے اور انگلش پریس نے خصوصاً پاگل پن کی حد تک اس مسئلے کو اچھالا اور پاکستان کی ہر بڑی کامیابی کو بال ٹمپرنگ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ حتیٰ کہ 1992ء کے عالمی کپ کی جیت بھی ان کو ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے واضح طور پر یہ اظہار کیا کہ عالمی کپ کا اصل فاتح ان کا ملک ہے۔ جبکہ پاکستان نے بال ٹمپرنگ کرکے فائنل مقابلہ جیتا ہے۔ اس کے بعد تو ہر مقابلے کے دوران پاکستان کو وہ وہ خطابات ملے اور ایسے ایسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کا حافظہ اتنا کمزور نکلا کہ وہ سب کچھ بھول گئے جو کچھ ان کے اپنے کھلاڑی گیند کے ساتھ کرتے تھے اور ان کے امپائر سب دیکھ کر اور جانتے ہوئے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ حالانکہ وہ بھی گیند کی حالت تبدیل کرنے کی ویسے ہی کوشش تھی جیسے بعد میں ریورس سوئنگ کرنے والے بائولر اپنے اندا ز میں کرتے تھے اور محض شک کی بنیاد پر ہی مجرم قرار دیئے جاتے تھے۔ پھر انگلش اخبارات کی چنگھاڑتی ہوئی سرخیاں ہوتی تھیں اور چیخ چیخ کر دہائی دی جاتی تھی کہ کرکٹ جیسے اچھے کھیل کا قتل عام ہورہاہے۔ بد قسمتی سے تاریخ میں پہلی بار2006ء میں جب کسی کو بال ٹمپرنگ کے جرم میں باقاعدہ سزا سنائی گئی وہ بھی ایک پاکستانی کھلاڑی ہی تھا۔اس کے بعد تو یہ سلسلہ عام ہوگیا اور اس کی زد میں سچن ٹنڈولکر جیسا عظیم کھلاڑی بھی آیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم نے دیدہ دلیری سے یہ حرکت کی ہے اور بہت معمولی سزا پاکر بری ہوگئے ہیں۔ کہیں کوئی بڑا ایشو نہیں بنا۔ مغربی میڈیا پر پاگل پن کی کیفیت طاری نہیں ہوئی اور بڑی خوبی سے میچ ریفری نے یہ کہہ کر معاملہ گول کردیا کہ بائولر متواتر اس عمل میں ملوث نہیں تھا۔ اس تمام تفصیل کا مقصد کسی جرم پر پردہ ڈالنا یا اس کا دفاع کرنا نہیں بلکہ مغرب کے دہرے معیار کی نشاندہی کرنا ہے۔ جب تک خود ان کے کھلاڑی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گیند کے بخیئے ادھیڑتے رہے یہ کوئی جرم نہیں تھا اور نہ یہ کوئی مسئلہ بنا کہ اس سے شرفا کے کھیل کی حرمت داغدار ہوتی ہو۔ انگریز امپائر بھی دیدہ ودانستہ سب کچھ نظر انداز کرتے رہے۔ لیکن جب پاکستانی بائولروں نے اپنے کمال اور فن سے اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کیا تو سب کچھ بال ٹمپرنگ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ جرم بہر حال جرم ہے۔ اس کا سدِباب بھی ہونا چاہیے اور جرم کا ارتکاب کرنے والے کو جرم ثابت ہونے پر سزا بھی ملنی چاہیے۔ لیکن ایسا دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے کہ گورے جو کریں وہ کھیل کا حصہ قرار پائے اور دوسروں کا وہی جرم ناقابلِ معافی ہو اور کسی ایک کھلاڑی کی غلطی کی بنا پر پوری قوم ہی مجرم ٹھہرے۔