عید کی چھٹیاں

اس دفعہ عید کی چھٹیاں ملک کی آبادی کی طرح بڑھتی ہی چلی گئیں۔ پہلے صرف تین دن یعنی منگل ،بدھ اور جمعرات کی چھٹی کا اعلان ہوا۔ لیکن سمجھدار لوگوں نے فوراً پیر کی چھٹی کی درخواست لکھی اور ہفتہ اتوار ساتھ شامل کرکے تین سے چھ چھٹیاں بنالیں ۔ اسلام آباد کے لوگ چونکہ کئی ماہ سے محنت مشقت کرتے تھک گئے تھے۔ انہوں نے بجا طور پر سوچا کہ ہفتہ اتوار تو ویسے ہی چھٹی ہوتی ہے۔ جمعہ کے دن دفتر کھولنے کا کیا فائدہ، خواہ مخواہ فالتو بجلی جلے گی اور آنے جانے میں پٹرول بھی خرچ ہوگا ۔ لہٰذا جمعہ کی بھی چھٹی ۔ سوکل ملا کر نو چھٹیاں… اتنی چھٹیوں کا سوچ کر ہی خوشی سے ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ یوں لگا جیسے بیٹھے بٹھائے ایک خزانے کے مالک بن گئے ہیں۔ جس کو جیسے چاہیں لٹائیں۔ہم نے سوچا کہ چھٹی کے بغیر زندگی بھی آخر کیا زندگی ہے۔ ابھی ڈھنگ سے سوبھی نہیں پاتے کہ کام پر جانے کے خوف سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ کام پر چلے گئے تو ہوش نہ رہا کہ کب دوپہر ہوئی اور کب شام ہوئی۔ تھکے ہارے اس سوچ کے ساتھ گھر پہنچے کہ کہیں جانے کا نام نہ لیں گے لیکن ہوتا وہی ہے جو بیگم کو منظور ہوتا ہے۔ ان حالات میں عید کی اتنی وافر چھٹیاں ملنے پر یقین ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے جس سے زندگی کا لطف اٹھانا واجب ہے۔ دل میں مدتوں سے چھپے ہوئے ارمان شریربچوں کی طرح مچلنے لگے۔ آرزوئوں کا ایک سیلاب امنڈ آیا۔ ایک خیال ابھی پوری طرح جمتا نہیں تھا کہ اس سے بھی دلکش منظر دماغ کی سکرین پر ابھرآتا۔ یوں بات نہیں بنے گی۔دل ودماغ نے مشورہ دیا ۔ اگر خود کو کسی قرینے کا پابند نہیں کروگے تو نودن کیا نوسودن بھی یوں ہی گزر جائیں گے۔ یہ خیال آتے ہی کاغذ قلم پکڑا اور چھٹیوں کا پروگرام ترتیب دینا شروع کردیا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پورے نودن کا بڑا جامع پروگرام ترتیب پاگیا۔ پہلے دودن یعنی ہفتہ ،اتوار آرام کیلئے رکھے گئے۔ پیر کیلئے کاموں کی ایک طویل فہرست تیار ہوگئی۔ منگل کادن مطالعے کیلئے وقف کیا اور بڑی سوچ بچار کے بعد دوتین ایسی کتابیں منتخب کرکے رکھ لیں جو عرصہ سے زیر مطالعہ تھیں۔ عید کے بعد کے چار دن دوستوں سے ملاقاتوں، فلم بینی اور تاش وغیرہ کیلئے وقف کئے گئے۔ خیال تھا کہ آخری دن یعنی اتوار کو گائوں کا چکر لگائیں گے اور وہاں کی تازہ آب وہوا کا لطف اٹھاکر شہر واپس آئیں گے۔ پروگرام کے مطابق ہفتے کو گہری نیند سورہے تھے کہ فون کی گھنٹی نے جگا دیا۔ کوئی دور کے رشتہ دار بول رہے تھے اور اپنے ایک بزرگ کی وفات اور جنازے کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے۔ حسبِ توفیق اظہار افسوس کیا اگرچہ دل چاہ رہاتھا کہ ان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ ہمیں اس سانحے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جو علی الصبح جگا کر اطلاع دے رہے ہیں۔ قرابت داری کا خیال آیا تو ضمیر نے ملامت کی کہ موت بر حق ہے ۔ آج کسی کی کل ہماری باری ہے۔ گھڑی دیکھی۔ جنازے کا وقت قریب آرہاتھا۔ بھاگم بھاگ پہنچ گئے۔ لیکن جنازے کا دور تک کوئی آثار نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ کسی عزیز کا انتظار ہے۔ جس کی فلائٹ لیٹ ہے۔ خدا خدا کرکے یہ مرحلہ طے ہوا۔ مقررہ وقت سے کوئی دو گھنٹے بعد فراغت ہوئی۔ صبح کے نکلے دوپہر کے بعد گھر پہنچے۔ ہفتے کا دن تو اکارت گیا۔ سوچا کوئی بات نہیں۔اتوار کو کسر پوری کرلیں گے۔ لیکن بیگم کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔وہ ہم سے بالا بالا ایک مختلف پروگرام ترتیب دے چکی تھیں جس کے مطابق تین گھروں میں جانا لازم تھا۔ پہلے گھر میں شادی کی مبارکباد دینی تھی۔ دوسرے گھر میں ایک نومولود کی آمد پر اظہا رمسرت مقصود تھا جبکہ تیسرے گھر میں کسی بچے کی سالگرہ ہمارے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ دل پر پتھر رکھ کر سب کچھ سہہ گئے ۔ مگر دل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ باقی دنوں کے پروگرام میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ اسی جذبے کے تحت پیر کے دن صبح ہی صبح بڑے جوش و خروش کے ساتھ تیار ہو کر گھر سے نکلے۔ ہمارا پہلا پڑائو پانی مہیا کرنے والا دفتر تھا جو ہمیں ہر مہینے ہماری اوقات سے زیادہ بل بھیج دیتا تھا۔ لیکن دفتر میں ہو کاعالم تھا۔ کرسیاں خالی ، الماریاں بند، اہلکار غائب، معلوم ہوا کہ سب صاحب لوگ عید کی چھٹی پر ہیں۔ اب احساس ہوا کہ پیر کی چھٹی کا خیال کوئی ایسا اچھوتا نہیں تھا کہ صرف ہمیں ہی سوجھاتھا۔ اس قافیے اور ردیف کے اور بھی بڑے ماہر نکلے۔ دل پر پتھر رکھ کر ہسپتال کا رخ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے مشورے سے وہ ٹیسٹ کروالیں جو بڑے عرصے سے ملتوی ہورہے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب عید کی خوشیاں سمیٹنے کیلئے جاچکے تھے۔ اگلے پروگرام کے مطابق بینک کا رُخ کیا۔ وہاں عجیب منظر تھا۔ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ بہت سے لوگ رقم نکلوانے کیلئے اپنی باری کاانتظار کررہے تھے۔ہم بھی قطار میں لگ گئے۔ کوئی دوگھنٹے میں مطلوبہ رقم تو مل گئی لیکن بیگم کی ہدایت کے مطابق نوٹ نہ مل سکے۔ سوچا کس منہ سے گھر جائیں گے۔ ناچار جیسا منہ تھا وہی لے کر گھر کا رخ کیا۔ پروگرام کے مطابق منگل کادن مطالعے کا تھا۔ بیگم نے دل ہلادینے والی خبر سنائی کہ ڈرائیور چھٹی پر چلا گیا ہے لہذا بکرے کی خریداری کیلئے ہمیں بطور ڈرائیور خدمات انجام دینی پڑیں گی۔ مجبوراً کتاب کو ایک طرف رکھا اور بیگم کے ساتھ ہولئے ۔ اس سے آگے غم کی ایک طویل داستان ہے ۔ شام کو گھر لوٹے تو دن بھر کی محنت کا حاصل ایک بکرا نما جانور تھا۔ خدا خدا کرکے عید کا دن آیا۔ غنودگی کے عالم میں نماز ادا کی۔ کمر کسی اور قصائی کی تلاش میں نکل پڑے۔ دوپہر کے بعد ایک شخص نے ہامی بھرلی جو قصائی ہونے کا دعویدار تھا۔ اس نے بکرے سے وہی سلوک کیا جو بکرا اس کے ساتھ کرتا اگر اسے موقع ملتا۔ لیکن تقدیر نے بکرے کی قسمت میں قربان ہونا لکھا تھا سو وہ ہوگیا۔ عید کے دن ہرمومن متاعِ کوچہ وبازار کی طرح ہوتا ہے اور ہر آنے والے کا خریدار کی طرح استقبال کرنے پر مجبور ہوتا ہے سوباقی دن ملاقاتوں کی نذر ہوا۔ عید سے اگلا دن پروگرام کے مطابق دوستوں کے نام تھا۔ لیکن بچوں نے پارک کی سیر کی فرمائش کردی۔ پہلے تو ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن ضمیر نے ملامت کی کہ اتنے خود غرض نہ بنو۔ بچوں کا بھی حق ہے ،ان کو لے کر قریبی پارک میں پہنچے وہاں فٹ بال کھیلا جارہاتھا بچوں کی تعداد بڑھی تو دوٹیمیں بن گئیں اور باقاعدہ میچ شروع ہوگیا۔ ہمیں یاد آیا کہ کالج کے زماے میں بطور فٹ بالر ہمارے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ یہ تھوڑا مبالغہ ہے شاید اصل بات یہ ہے کہ مخالف کیمپ میں ہمارے نام کا ڈنکا بچتا تھا جو ہمارے ناقص کھیل کی وجہ سے ہمیں ہرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بہر حال اپنے ماضی کو فراموش کرکے ہم نے میچ کے ریفری کی ذمہ داری سنبھالی اور دونوں ٹیموں کا جوش دیکھ کر ہم بھی اسی جذبے کے ساتھ ادھر سے ادھر بھاگنے لگے۔ انجام وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ ایک جگہ زمین ہموار نہیں تھی ۔ ٹھوکر کھا کر گرے تو پائوں کو ایسی چوٹ لگی کہ اٹھنے کے قابل نہ رہے۔ لیکن میچ یونہی جاری رہا۔ کسی نے ہمارے گرنے کا نوٹس نہ لیا۔بلکہ فٹ بال کے لیے جھگڑتے ہوئے کئی کھلاڑی ہمارے اوپر سے پھلانگتے رہے۔ یقینا ان کا خیال تھا کہ ہم تھک گئے ہیں اور ذرا سستارہے ہیں۔ میچ ختم ہوا تو ہمیں ا ٹھایاگیا اور لنگڑاتے ہوئے گھر لایا گیا۔ جب پائوں کا درد بڑھ گیا تو ایکسرے کرانے سے پتہ چلا کہ پلاسٹر لگانا پڑے گا اور کم از کم دوہفتے بستر پر ہی رہنا پڑے گا۔ ہم معذورسے ہوگئے لیکن ہمارے حوصلے پھر بھی بلند تھے۔ بستر پر لیٹے لیٹے پرانے دوستوں سے رابطے شروع کئے۔ اکثر کے نمبر بدل چکے تھے جن دوچار سے بات ہوئی انہوں نے تو یوں حیرت کا اظہار کیا جیسے ہم کسی دوسری کائنات سے لوٹ کر آئے ہیں۔ اپنی خبر دی اور ان کا احوال پوچھا ۔ سب نے آنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن ساتھ ہی مصروفیات کا عذر بھی کیا۔ ہم چار دن بستر پر پڑے راہ تکتے رہے۔ لیکن جن کا انتظارتھا وہ نہ آئے۔اس کیفیت میں بستر پر لیٹے لیٹے چھٹیاں ختم ہوئیں تو ہم بہت تھک چکے تھے اور دعا کررہے تھے کہ اللہ کبھی کسی عید پر اتنی چھٹیاں نہ دے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں