یہ 1992ء کے موسم ِ سرما کی بات ہے۔غالباََ نومبر کامہینہ تھا۔جنوبی افریقہ میں پہلی بار کرکٹ کا سہ فریقی مقابلہ ہو رہا تھاجس میں میزبان ملک کے علاوہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں۔پاکستان کی ٹیم تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کا دورہ کر رہی تھی۔اس ٹیم کے منیجر کے فرائض میرے سپر د تھے۔میزبان ملک کے لئے یہ دورہ بہت اہم تھا کیونکہ نسلی امتیاز کی پالیسی ختم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دو غیر ملکی ٹیمیں جنوبی افریقہ کا دورہ کر رہی تھیں۔ان مقابلوں کے روح و رواں جنوبی افریقن کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر علی باقر تھے جن کی بھر پور کوشش تھی کہ اس سہ فریقی ٹورنامنٹ کا انتظام اتنا شاندار کیا جائے کہ کھیلوں کے معاملے میں جنوبی افریقہ کی محرومی اور تنہائی ختم ہو جائے اور غیر ملکی ٹیموں کا آنا جانا معمول بن جائے۔
اس دورے کے سلسلے میں صحافیوں کی خاصی تعداد بھی جنوبی افریقہ پہنچ چکی تھی جس میں پاکستان سے کرکٹ کے مشہور مبصر عمر قریشی اور نوجوان صحافی نادر چودھری بھی شامل تھے۔جب پاکستان کی ٹیم میچ کھیلنے کے لئے جو ہانسبرگ پہنچی تو چند صحافیوں نے دارالحکومت کی مضافاتی بستی سویٹو جانے کاپروگرام بنایا جس میں مجھے بھی شامل کر لیا گیا۔سویٹو اگرچہ غریبوں کی بستی تھی جس کی غربت اور پسماندگی اس کے گلی کوچوں ،ٹین کے چھت والے گھروں اور مکینوں کے حالات سے ٹپک رہی تھی لیکن نسلی امتیاز کی پالیسی کے خلاف جد وجہد کی وجہ سے اس بستی نے عالمی شہرت حاصل کر لی تھی۔غیر ملکیوں کا اس بستی میں داخلہ خاصاخطرناک سمجھا جاتا تھا کیونکہ خونریز فسادات وہاں کا معمول تھے اور کسی وقت بھی کوئی حادثہ پیش آ سکتا تھا۔ان خطرات کے پیش نظر مہمان صحافیوں کو لے جانے کے لئے بکتر بند گاڑی کا بندوبست کیا گیا جس کی حفاظت کے لئے پولیس کی نفری بھی ساتھ تھی۔سویٹو کا دورہ کرتے ہوئے بڑی دلچسپ معلومات ملیں اور وہ تمام جگہیں دیکھنے کا موقع ملا جہاں ماضی میں اہم واقعات پیش آئے تھے۔اس دورے سے حاصل ہونے والی معلومات سے نسل پرستی کی بھیانک حقیقت کھل کر سامنے آئی اور شدید احساس ہوا کہ کس طرح رنگت کی بنیاد پر انسانوں سے جانوروں جیسا بلکہ اس سے بھی بد تر سلوک ہو سکتا ہے۔اسی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ نسل اور رنگ کے فرق کی بنا پر اس ظالمانہ تقسیم کے خلاف احتجاج کرنے والے اور اس جرم میں اپنی زندگی کے ستائیس قیمتی سال قید کی مشقت جھیلنے والے جناب نیلسن منڈیلا اس وقت جوہانسبرگ میں موجود ہیں اور ان سے ملاقات کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔اشتیاق پیدا ہو ا کہ اگر ایسے عظیم انسان سے ملاقات ہو جائے تو کیا کہنے۔چنانچہ سویٹو سے واپس آتے ہی ڈاکٹر علی باقر سے فرمائش کر دی۔معلوم ہوا کہ کچھ لوگ پہلے ہی ایسا خیال پیش کر چکے ہیں ۔علی باقر نے اس معاملے میں درپیش مشکلات کا ذکر کیا لیکن کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلے دن ان کا ٹیلی فون آیاتو انہوں نے خوشخبری سنائی کہ جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈ کی دعوت پر جناب نیلسن منڈیلاپاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان میچ دیکھنے کے لئے جوہانسبرگ کی کرکٹ گرائونڈ پر تشریف لائیں گے اور اس موقع پر دونوں ٹیموں سے بھی ان کی ملاقات کروائی جائے گی۔مقررہ وقت کے مطابق نیلسن منڈیلاجب کرکٹ گرائونڈ کے پیویلین میں پہنچے تو عجیب نظارہ تھا۔ان کا استقبال کرنے والوں میں رنگ و نسل کی کوئی تخصیص نہ تھی۔تماشائیوں سے لبا لب بھرا میدان ان کے لئے تالی بجا رہا تھا۔کمیٹی روم میں موجود کیا گورے کیا کالے، ملکی غیر ملکی سب چشم براہ تھے۔ہر ایک کی آنکھوں میں چمک اور ملاقات کا شوق تھا۔نیلسن منڈیلا پر وقار انداز میں چلتے ہوئے خیر مقدم کرنے والوں کی طویل قطار کے پاس پہنچے۔چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے سب مہمانوں سے باری باری ملے۔میرا تعارف ہونے پر گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔اس وقت کے وزیر اعظم جناب نواز شریف کا حال پوچھا اور پاکستان میں اپنی پزیرائی کا تذکرہ کیا۔ جواباََ میں نے انہیں پاکستان ٹیم کے ڈریسنگ روم میں آنے کی دعوت دی جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لی۔کھیل میں وقفے کے دوران وہ ڈریسنگ روم میں آئے ۔تمام کھلاڑیوں سے باری باری ملے اور دلچسپ باتیں کرتے رہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے پہلے بھی انہوں نے کوئی کرکٹ میچ دیکھا تھا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔اس وقت ان کے چہرے سے اداسی کا تاثر نمایاں تھا۔گرائونڈ کے دور ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے کہ کئی سال پہلے جب وہ میچ دیکھنے کے لئے آئے تو انہیں وہاں ایک چھوٹے سے پنجرے میں بٹھایا گیا تھا جو ہر طرف سے بند تھا تاکہ وہ اور ان جیسے سیاہ فام تماشائی اس پنجرے میں بند رہیں اور آزاد انہ کہیں ادھر اُدھر نہ جاسکیں ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اُن دنوں کی تلخی تو باقی ہوگی تو کہنے لگے کہ کئی مواقع پر اُن سے ناروا سلوک ہوا۔ لیکن انہوں نے ان کا اپنی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑنے دیا کیونکہ جو لوگ ماضی میں ہی اٹک جاتے ہیں وہ مستقبل میں آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ماضی سے صرف سبق سیکھنا چاہیے تاکہ پچھلی غلطیوں سے بچا جا سکے۔مزید کہنے لگے کہ ان کی قوم کو ایک اچھے مستقبل کے لئے ماضی کی بہت سے تلخیوں کو بھلانا ہوگا اور سخت محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ان کے خیال میں اقتصادی خوشحالی کے لئے ایک جدید نظام اور اچھی سوچ بہت ضروری تھی تمام کھلاڑیوں سے بڑی محبت سے ملے اور انہیں سپورٹس مین سپرٹ کی تلقین کرتے رہے۔جاتے ہوئے پاکستان ٹیم کے ساتھ تصویر بنوائی اور ایک دفعہ پھر پاکستان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔اُن کو الوداع کہتے ہوئے میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمارے کھلاڑیوں کے لئے کو ئی پیغام دیں تو کہا کہ ''یہ تمام کھلاڑی اپنے ملک کے سفیر ہیں ۔انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کا وقار اور عزت ہار جیت سے بھی زیادہ اہم ہے‘‘۔
اب وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں تو اکیس سال پہلے کی اس مختصر ملاقات کی باتیں قیمتی خزانہ معلوم ہوتی ہیں۔مزاج میں سادگی اتنی کہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اتنا بڑا آدمی بھی ایسا ہو سکتا ہے۔فقرے بڑے مختصر لیکن باتوں میں گہرائی اتنی کہ جیسے کسی سمندر سے موتی نکل رہے ہوں۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں ابھی انتخابات نہیں ہوئے تھے نہ ہی وہ صدر منتخب ہوئے تھے لیکن کیا دوست کیا سابقہ دشمن سب ان کے صدقے واری جارہے تھے۔جب کالے گورے سب ان سے بڑھ چڑھ کر مل رہے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس شخص میں کوئی مقنا طیسی کشش ہے کہ سب اس کی طرف لپکے چلے آتے ہیں۔نیلسن منڈیلا جس راہ پر چل کر اس مقام تک پہنچے وہ کوئی آسان راستہ نہیں تھا ۔اپنی زندگی کے بہت قیمتی ستائیس سال انہوں نے ایسی اذیت ناک قید تنہائی کاٹی تھی جس میں چھ ماہ میںصرف ایک دفعہ کسی ملاقاتی کو آنے کی اجازت تھی۔ہر ششماہی صرف ایک خط ان کو پڑھنے کو دیا جاتا تھا وہ بھی مکمل طور پر سنسر شدہ۔لیکن آفرین ہے اس عظیم انسان پر کہ ایسی تکلیف دہ قید سے نکل کر اس شخص کی بیوہ سے بھی ملنے گیا جس نے نسل پرستی کی بنیاد پر قانون سازی کی تھی اور اس وحشیانہ پالیسی کا موجد تھا۔اس نے اپنے ملک کاصدر منتخب ہو کر اور مکمل اختیار رکھتے ہوئے بھی کسی سے کوئی انتقام نہیں لیابلکہ ایک کمیشن بنا دیا جس کے سامنے پیش ہو کر سب گناہگاروں کو تائب ہونے کا موقع ملا۔اس نے رنگ اور نسل کی بنیاد پر تمام دیواروں کو گر ادیا اور گورے کالے سب کو ایک قوم بنا دیا۔اسی لئے جب وہ اس جہان سے رخصت ہوا تو وہ ایک ایسی قوم کا محبوب رہنما تھا جس میں گورے کالے کی کوئی تمیز نہ تھی۔اُسے الوداع کہنے کے لئے دنیا کے چپے چپے سے اُس کے چاہنے والے اس وقت جنوبی افریقہ میں جمع ہورہے ہیں جن میں تقریباََ ستر ملکوں کے سربراہانِ مملکت اور حکومت شامل ہیں۔ امریکہ کے موجود ہ صدر اوباما کے علاوہ کئی سابق صدور بھی ایک ایسے شخص کو رخصت کرنے کے لئے آئے ہیں جسے سفید فام دنیا بنیادی انسانی حقوق مانگنے کے جرم میں دہشت گرد کہتی رہی۔ لیکن اب جب وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں تو تاریخ انہیں بیسویں صدی کی عظیم ترین شخصیت قرار دے رہی ہے۔