تاریخ گواہ ہے کہ زندہ اور باشعور قوموں پر جب کڑا وقت آتا ہے یا کوئی خطرہ در پیش ہوتا ہے تو وہ اپنے سارے اختلافات بھول کر متحد ہو جاتی ہیں اور یک جان ہو کر خطر ے کا مقابلہ کرتی ہیں ۔وطن عزیز کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے وہ قومی سطح پر مکمل اتحاد اور اتفاق رائے کا تقاضا کرتی ہے لیکن بد قسمتی سے معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے اور ہر سمت سے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل میں دہشت گردی کا مسئلہ سر فہرست ہے،اسی لیے موجودہ حکومت نے اس کے حل کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی جس میں ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت نے باہمی مشاورت اور غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ پہلے مرحلے میں دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کیے جائیں اور اگر مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہو تو پھر طاقت استعمال کی جائے۔قومی قیادت کے اس فیصلے پر اب تک کافی لے دے ہو چکی ہے۔ دیانت داری سے سوچا جائے تو اس لائحہ عمل پر تنقید کی زیادہ گنجائش نہیں ۔اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے دو ہی راستے ہیں۔۔۔۔۔دہشت گردی میں ملوث گروہوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کیا جائے کہ وہ جو کر رہے ہیں غلط ہے،اس لیے اسے فوراًختم کردیں یا پھر بھرپور طاقت استعمال کر کے انہیں سبق سکھایا جائے۔ تیسرا راستہ کوئی نہیں۔ہماری قومی قیادت نے یہ دونوں طریقے آزمانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جو لوگ مذاکرات کے مخالف ہیں، وہ ان کے بے اثر ہونے کی خبر دے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ ٹھیک سوچ رہے ہوں،لیکن طالبان سے بات چیت کرنے سے کیا قیامت آجائے گی؟آپ کے پاس طاقت کے استعمال کا راستہ تو موجود ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ طالبان مذاکرات کی دعوت قبول کرلیں لیکن تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے وقت ضائع کریں اور اس دوران دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ظاہر ہے،یہ روش ناقابل قبول ہوگی اوراس صورت میں بھر پور طاقت کے استعمال میں کوئی تردد نہیں ہوگا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طالبان مذاکرات تو شروع کردیں لیکن وہ بے نتیجہ ہوں۔ اس صورت میں بھی آخری حربہ استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔لیکن قومی اتفاق رائے کو رد کرتے ہوئے مذاکرات کی راہ ترک کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔مذاکرات کی کامیابی کا ایک فیصد بھی امکان ہو تو کوشش ضرور ہونی چاہیے۔ طالبان بہر حال کلمہ گو ہیں، اگر کوئی ایسی تدبیر ہوجائے کہ ایک مسلمان کا خون بھی رائیگاں ہونے سے بچ جائے تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔دوسری صورت میںاگر طاقت کا استعمال ہی دہشت گردی کے مسئلے کا حل ہے تو اس پر بھی پوری قوم کو متحد اور یکسو ہونا چاہیے۔کسی جماعت یا گروہ کے دل میں کوئی خلش نہیں رہنی چاہیے۔اس وقت ملک میں موثر اور کثیر تعداد طالبان سے مذاکرات کے حق میں ہے اور ان کا یہ مطالبہ کل جماعتی کانفرنس میں متفقہ طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔اگر مذاکرات کی سوچ غلط ہے تو لفظی جنگ کی بجائے عملی اقدامات سے ہی یہ جھگڑا ختم ہو سکتا ہے۔مذاکرات کے راستے پر چلے بغیر قومی سطح پر انتشار بر قرار رہے گااور وہ یکسوئی حاصل نہیں ہو سکے گی جو فوجی کارروائی کے لئے شرطِ اوّل ہے۔ بہت افسوس اور بدقسمتی کی بات ہے کہ قوم اس معاملے میں متحد ہونے کی بجائے ہر روزبڑھتے ہوئے انتشار اور خلفشار کا شکار ہے۔تازہ امریکی حملے کے بعد ٹھوس عملی اقدامات کی بجائے نت نئے شوشے اور بحثیں شروع ہو چکی ہیں ۔جماعت اسلامی حکیم اللہ محسود کوشہید قرار دے چکی ہے ،مولانا فضل الرحمن ایک قدم آگے بڑھ کرفرماتے ہیں کہ امریکی حملے میں کتا بھی مرے تو اسے بھی شہید سمجھیں گے۔ان حضرات سے کون پوچھے کہ شہادت کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے لیکن یہ فیصلہ خود اللہ ہی کرے گا کہ کس نے اس کے لیے جان دی اور کون شہادت کے رتبے پر فائز ہونے کا اہل ہوا۔اللہ نے اپنا یہ اختیارجماعت اسلامی سمیت کسی کو نہیں دیا۔اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اپنے آپ کو ایسے فتوے دینے کا مجاز سمجھتے ہیںتو گویا وہ خدائی میں شریک ہونے کا زعم رکھتے ہیں ۔بہر حال،انہیںاس بات کاحق تو کسی صورت میں نہیں کہ وہ اپنے فتوے کی برچھی فوجی جوانوں اور افسروں کے ان غمگین اور افسردہ لواحقین کے سینوں میں اتاریں جن کے پیارے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں ۔افواجِ پاکستان کو بھی یہ معاملہ قادرِمطلق پر چھوڑ دینا چاہیے جو خوب جانتا ہے کہ کس نے اس کی خاطر جان دی۔روزِِمحشر اس کی عدالت سے فیصلے ہوں گے تو سب سر جھکا کر تسلیم کر لیں گے۔اس لیے یہ تماشا اب بند کریں کہ کون شہید ہے اور کون نہیں۔ قوم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ تمام فروعی بحثیں ختم کر کے پورے خلوص کے ساتھ اس پالیسی پر عمل کیا جائے جو مکمل اتفاق رائے سے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائی ہے۔کل جماعتی کانفرنس کو منعقد ہوئے خاصا وقت گز ر چکا ہے مگر اس عرصے میں صرف مذاکرات کا راستہ ’’ہموار ‘‘ کرنے کی بات ہو رہی ہے۔کتنا راستہ ہموار ہوااور کتنی نا ہمواری باقی ہے،کچھ پتا نہیں ۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا،یاکچھ ہو رہا ہے تو اتنے پر اسرار طریقے سے کہ کچھ ہونے یا نہ ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اگر مذاکرات کا راستہ واقعی اتنا نا ہموار اور کٹھن ہے کہ اس پر چند قدم بھی آگے بڑھنا مشکل ہو چکا ہے تو بہتر ہے کہ حکومتی ٹیم مزید وقت ضائع نہ کرے۔آخر یہ معاملہ اتنا غیر اہم نہیں کہ اس کے لیے وقت کی کوئی قید ہو نہ حتمی تاریخ ۔حکیم اللہ محسودکی موت بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ اس نئی صورت حال میں ہمارے وزیرداخلہ مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں اور انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ ان کے رابطے طالبان سے ختم ہو چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کے خیال میں حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ مذاکرات کو ختم کرنے کی سازش ہے تو حکومتی سست روی کو کیا نام دیا جائے؟ ملک میں جاری یہ بحث بہر حال بند ہونی چاہیے کہ مذاکرات کئے جائیں یا نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو فیصلہ ہوچکا ہے اس پر فی الفور عمل کیا جائے۔ہمارے وزیرِ داخلہ کو اگر کچھ نہیں سوجھتا تو مناسب ہوگا کہ مذاکرات کے حامی لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان سے طالبان سے رابطہ بحال کرنے میں مدد لی جائے۔طالبان کی نئی قیادت نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے اور مذاکرات کی بجائے حکیم اللہ محسود کی موت کا بدلہ لینے کی بات کی ہے۔اس کے با وجود اگر مذاکرات کے حامی یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ تمام رکاوٹیں دور کر کے بات چیت شروع کرواسکتے ہیں تو پھر دیر نہ کریں یہ ذمہ داری فوراً ان کے سپرد کریں۔ان لوگوں کو آزمانے میں آخر ہرج ہی کیا ہے جو طالبان سے اتنے قریب ہیں کہ ان کو یہ بھی خبر ہے کہ حکیم اللہ محسود اپنی موت سے پہلے دہشت گردی سے تائب ہو کر امن کی راہ پر چلنے کا ارادہ کر چکا تھا اور اس معاملے میں اپنے ساتھیوں سے باقاعدہ مشاورت کر رہا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ اہم ذمہ داری سونپے جانے پر شہادت کے سر ٹیفکیٹ جاری کرنے والے ہمارے ’’رہنما‘‘ کچھ مصروف ہو جائیں اور مزید دلخراش فتوے جاری کرنے سے باز رہیں۔ ایک مقررہ مدت میں اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو یہ قوم کی خوش نصیبی ہوگی ورنہ قومی اتفاق رائے کے مطابق بلا جھجک اگلا قدم اٹھایا جائے تاکہ گومگو کی موجودہ کیفیت اورطویل انتظار کی اذیت ختم ہو اور قوم خوف اور بے یقینی کی سولی پر نہ لٹکی رہے۔