بے چارہ نظامِ تعلیم

وطنِ عزیز میں رائج موجودہ نظامِ تعلیم کی مثال کسی مداری کی پٹاری جیسی ہے جس میں سے وقفے وقفے سے رنگ برنگی چیزیں برآمد ہوتی رہتی ہیںاور آخر میں پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ ایک سراب اور نظر کا دھوکہ تھا۔ حقیقت کچھ بھی نہیں ۔ جب بھی دور بدلتا ہے اس پٹاری میں سے ایک نئی تعلیمی پالیسی بینڈ باجے کے ساتھ یوں شان سے برآمد ہوتی ہے جیسے کوئی بارات آرہی ہو۔ کسی پانچ ستارے والے ہوٹل میں شاندار محفل سجتی ہے۔ کوئی بڑا آدمی بڑے کرّ وفر سے کرسیٔ صدارت پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ پرانی پالیسی کی خامیاں بیان ہوتی ہیں۔ نئی پالیسی اس دعوے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے کہ بس تھوڑا انتظار جیسے ہی پالیسی پر عمل شروع ہوا قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔لیکن قوم کی تقدیر بڑی سخت جان ہے ، نہیں بدلتی۔ ہوتا وہی ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ کچھ عرصہ گزرتا ہے۔ پھر کہاں کی تعلیم اور کہاں کی پالیسی ، دونوں کا سراغ نہیں ملتا۔ اگر کوئی محقق کھوج لگانے نکلے تو بقول شاعر یہ خزانے اسے ممکن ہے خرابوں میں ملیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اکیسویں صدی میں جس تیزی سے سے علمی سطح پر ترقی ہورہی ہے ۔ عقل اس پر دنگ رہ جاتی ہے ۔ لیکن اس عرصے میں وطنِ عزیز میں کیا کیا تماشے نہیں ہوئے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کی پٹاری میں سے ابتدائی سالوں میں پہلے ’’پڑھا لکھا پنجاب ‘‘برآمد ہوا۔ پھر دانش سکولوں کا شگوفہ پھوٹا، اب صورتِ حال یہ ہے کہ دانش ان کوششوں پر ہر طرف ماتم کناں ہے۔ نت نئے تجربات کے نتیجے میں ہمارے نظامِ تعلیم کی حالت اس مریض کی طرح ہوچکی ہے جس کے معالج ہنر سے بے بہرہ اورشعور سے عاری ہوں۔ انہیں مریض کے مرض کا کچھ اندازہ نہ ہو جو نئے نئے تجربات کرنے کیلئے مریض کو تختۂ مشق بنائے رکھیں اور جب اس کی جان پر بن آئے تو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلتے بنیں۔ قانونِ فطرت ہے کہ اگر کانٹے بوئے جائیں گے تو پھول نہیں اگیں گے۔ چنانچہ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ اس وقت قوم جتنی منتشر ہے۔ ہمارا نظام تعلیم اس سے زیادہ انتشار کا شکار ہے۔ اس وقت یہ نظام مکمل طور پر لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ماہرین ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکے کہ کونسی زبان میں تعلیم ہونی چاہیے۔ کہیں اردو ذریعہ تعلیم ہے تو کہیں انگریزی ۔ دلائل کی جنگ ہے کہ ہر طرف اور ہر وقت جاری ہے۔ انگریز تو چلے گئے لیکن انگریزی کا پلہ پھر بھی بھاری ہے۔ آخر کیوں نہ ہو جب انگریزی ہی قابلیت کا معیار ٹھہرے اور سرکارودربار کی زبان بھی ہو۔ لہٰذا ان پڑھ سے ان پڑھ آدمی بھی مجبور ہے کہ وہ وقت معلوم کرنے کیلئے ’’ٹیم‘‘ پوچھے اور پڑھے لکھوں کو ویسے ہی’’شوآف‘‘ کی بیماری ہے۔ ہر’’گیدرنگ‘‘ میں ملک کی ’’سچوایشن‘‘پر اپنے ’’تھاٹ‘‘ دینے کیلئے اردو میں انگریزی کا تڑکا لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے اب انگلش میڈیم فیشن ہے اوراردو میڈیم ایک مجبوری بلکہ معذوری۔ انگلش میڈیم طرۂ امتیاز ہے اور اردو میڈیم پس ماندگی اور لاچاری کا اشتہار۔ انگلش میڈیم امارت کی شان ہے تو اردو میڈیم غربت کا اعلان۔ جس کسی کا بس چلتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو کسی انگلش میڈیم والے سکول میں بھیجے چاہے وہ جیسا بھی ہو۔ اس لسانی تفریق نے بیچارے نظامِ تعلیم اور پوری قوم کو طبقاتی طور پر بھی تقسیم کردیا ہے۔ اس وقت امیروں کے سکول اور ہیں ،غریبوں کے اور۔ امرا کے سکولوں میں سجے ہوئے کمرے اور میز کرسیاں ہیں جبکہ غریب کا سکول کرسی ،میز بلکہ چھت سے بھی بے نیاز۔ استاد اور شاگرد مل کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے۔ امیروں کے سکولوں میں خوبصورت یونیفارم پہنے ہوئے سجے سجیلے بچے۔ جبکہ غریبوں کے سکولوں میں اوّل تو یونیفارم کا تصور ندارداور اگر ہے بھی تو غربت کا اشتہار۔ امرا کے سکول کے استاد مغربی لباس اور ٹائی پہنے ہوئے جبکہ خواتین نئے نئے فیشن اختیار کئے ہوئے۔ اس کے برعکس غریب سکول کے اساتذہ دھوتی یا شلوار پہنے ہوئے۔ غرض نظامِ تعلیم نے امیر اور غریب کو ایسے تقسیم کردیا ہے کہ زندگی کے دوکناروں کی طرح یہ دوطبقے اب شاید کبھی نہ مل سکیں۔ اس پر اکتفا نہیں۔ اس نظام تعلیم کی بدولت ہمارا معاشرہ سماجی طور پر بھی بٹ چکا ہے۔ کسی زمانے میں جب انگلش میڈیم سکولوں کی ایسی فصل نہیں بوئی گئی تھی۔ امیر غریب سب کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے۔ اس زمانے کے استاد بھی ایسے تھے کہ بچوں کو پڑھاتے بھی تھے اور ان کی تربیت بھی کرتے تھے۔ ان کی نظروں میں غریب امیر کا کوئی فرق نہ تھا۔ اگر فرق تھا تو لائق اور نالائق کا۔ ایسے ماحول میں سب کو ابھرنے کے برابر مواقع ملتے تھے۔ سکولوں میں کوئی امیر تھا نہ کوئی غریب ۔ سب طالب علم تھے اور ایک دوسرے کے ساتھی اور دوست۔ استاد کی بڑی عزت تھی اور معاشرے میں ایک خاص مقام ۔ گائوں کے جاگیرداری ماحول میں جہاں چوہدری کے برابر بیٹھنا جرم تھا،پرائمری سکول کے استاد کو چوہدری کی چارپائی پر جگہ ملتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ ہمارے تعلیمی نظام نے وہ رنگ جمایا کہ استاد استاد نہ رہا۔ معمولی تنخواہ پانے والا ادنیٰ سرکاری ملازم بن گیا۔مالی طور پر تووہ کبھی بھی خوشحال نہیںتھا۔لیکن اس کے احترام میں کوئی کمی نہیں تھی۔ ہر دور اور ہر ماحول اسے عزت دیتا تھا۔ اور وہ بچوں کو دل وجان سے تعلیم دیتا تھا۔ لیکن جب ہم نے استاد سے اس کی عزت چھین لی،علم کی روشنی پھیلنی بند ہوگئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جہاں ترقی کرنے والی قومیں علم کے حصول کے لئے دن رات کوشاں ہیں وہاں ہم جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے ملک میں دیہاتی آبادی کی کثیر تعداد تو پہلے ہی جدید علوم سے بے بہرہ ہے ۔ ایسے علاقوں کے غریب بچے دینی علم حاصل کرنے کیلئے کسی نہ کسی مدرسے سے وابستہ ہوجاتے ہیں اور وہاں سے ’’دوروٹی کے امام‘‘ بن کر نکلتے ہیں۔قرآن تو پڑھتے ہیں ۔ حفظ بھی کرلیتے ہیں لیکن حقیقت میں چلتے پھرتے قرآن نہیں بن سکتے۔اس کے برعکس جو سکول کی تعلیم کیلئے جاتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح دسویں پاس کرکے سرکاری نوکری کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہمارے حکمران تعلیم کے نام پر جواربوں روپے خرچ کرتے ہیں اس سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نیم خواندہ بے روزگار تیار ہوتے ہیں جن کی نہ حکومت میں کھپت ہوسکتی ہے نہ نجی شعبہ قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ پھر یہ بے روزگارکسی اور کام کے بھی نہیں رہتے۔ وہ کھیتوں میں ہل چلاسکتے ہیںنہ کسی کار خانے میں مزدوری کرسکتے ہیں۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر اکثر وبیشتر جرائم کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر اس قسم کی بے مصرف اور نقصان دہ سرمایہ کاری شاید ہی اور کہیں ہوتی ہو۔ اس بیماری کا علاج پاکستان بننے کے فوری بعد بابائے قوم نے بتا دیا تھا۔ جب انہوں نے ایک تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زور دے کر ہدایت کی تھی کہ ملک میں فنی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ اسی بات کو ایک دو اور موقعوں پر بھی انہوں نے دہرایا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ ملک نے اگر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے تو اسے ہنر مندوں کی ضرورت ہوگی ۔ اگر ہم ان کی ہدایت پر عمل کرتے تو آج ہمارے پاس ہنر مندوں کی ایک فوج تیار ہوتی جو ملک کے اندر بھی کام آتی اور بیرون ملک بھی محنت کرکے کمائی کا ذریعہ بنتی۔ آج ملک میں معاشرتی علوم جاننے والے تو بے شمار مل جائیں گے لیکن اگر آپ کی بجلی، فرج، ٹی وی ،ائیر کنڈیشنر یا موبائل فون خراب ہوجائے تو اچھا کاریگر نہیں ملے گا۔ کار خانوں میں کام کرنے کیلئے ہنر مند کی ضرورت ہوتو تلاش کرنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ فنی تعلیم کے شعبے کی حالت یہ ہے کہ پنجاب جیسے کثیر آبادی والے صوبے میں صرف چار سو ادارے ہیں جن کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔باقی صوبوں کی حالت اس سے بھی بری ہے۔ لہٰذا وقت آگیا ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز ہوش میں آئیں ۔خوشحال طبقے اور نجی شعبے کو ان کے چائو چونچلوں پر چھوڑیں اور وہ جو پڑھنا چاہتے ہیں ان کو پڑھنے دیں۔ لیکن ملک کی اکثریت کیلئے فنی تعلیم کا بندوبست کریں جس کی ان کو اور قوم کو اشد ضرورت ہے۔ تاکہ وہ ہنر سیکھ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں اور قوم کی معاشی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں۔ اس کا سیدھا ساطریقہ یہ ہے کہ میٹرک کی سطح پر فنی تعلیم شروع کی جائے اوربچوں کی صلاحیت کے مطابق ان کو کوئی ایسا ہنر سکھایا جائے جس کے زور پر وہ آسانی سے روزی کما سکیں اور اس طرح ہم ملک کے قیمتی وسائل کو صحیح استعمال کرتے ہوئے بے روزگاری میں سرمایہ کاری کرنے سے بچ سکیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں