کالم کی دنیا

ایک راز کی بات ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں اپنی کتابوں سے ہمیں اتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی اخباری کالموں میں ۔ ان دنوں اخبارات اور کالموں کی یہ بھرمار نہیں تھی کہ جمعہ بازار کا تصور ذہن میںابھرے۔ کالم نگاروں کی تعداد محدود تھی اور ان کے کالم اخباری صفحات پر نمایاں نظر آتے تھے۔ کئی بڑے بڑے نام تھے جن کی حیثیت آج بھی مانی جاتی ہے۔ ہر ایک کا اپنا منفرد انداز تھا۔ کوئی طنز یہ لکھتا تھا تو کوئی مزاحیہ ، کسی کا انداز تحقیقی تھا تو کسی پر انشائیے کا گمان ہوتا تھا۔ صحافتی دنیا نظر یاتی دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ کوئی سرخ تھا تو کوئی سبز۔ لکھنے والے توازن قائم رکھنے کے لیے اگرچہ دونوں بڑی طاقتوں پر گرجتے برستے تھے لیکن آخر میں گرفت ناپسندیدہ طاقت ہی کی ہوتی تھی۔ ایک کالم نگار اگر امریکہ کو للکارتا تھا کہ وہ روس کو ترنوالہ نہ سمجھے۔ تو اس کے جواب میں آواز اٹھتی تھی کہ یورپ میں سرخ فوجوں کی موجودگی ہر وقت جارحیت کا باعث بنتی ہے اور کسی نہ کسی چھوٹے ملک کو روند ڈالتی ہے۔ آزاد دنیا آخرکب تک یہ برداشت کرے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس بدمعاشی کو روکا جائے۔ لیکن افغانستان میں روس کی شکست کے ساتھ ہی دنیا میں صرف ایک بڑی سپر پاور رہ گئی اور اس طرح ہمارے اخبارات میں جاری نظریاتی جنگ بھی ختم ہوگئی۔ محبوراً کچھ لکھنے والوں کو نئے سرپرست تلاش کرنے پڑے۔لہذا کالموں میں وہ نوک جھونک ختم ہوگئی جس سے بڑی رونق ہوتی تھی۔ اس کی بجائے کالم اوراداریے ایسا ملغوبہ بن گئے جس میں لکھنے والے کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر طرح کی بات اس انداز میں ہوجائے کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اس حکمت عملی کا فائدہ تھا کہ آئندہ کالموں میں کوئی نئی بات کرنے کی بجائے سابقہ کالموں کے طویل اقتباسات اس اعلان کے ساتھ دہرائے جاسکتے تھے کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا ۔ اس طرح مکرر ارشاد کے تقاضے خود بخود پورے ہوجاتے تھے۔ جو لکھنے والا جتنا اپنا قبلہ درست کرتا تھا، اتنا ہی وہ صاحبان اقتدار کے قریب ہوجاتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ایسے مراسم کو چھپانے کی بجائے باقاعدہ ان کی تشہیر ہونے لگی۔ جس کے نتیجے میں کچھ اس قسم کی چیزیں بھی پڑھنے کو ملیں کہ کالم نگار اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آرہاتھا۔ اس لئے ان کی طبیعت میں سخت بیزاری اور غصہ تھا۔اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔بے دلی سے ٹیلیفون اٹھایا۔ وزارت اطلاعات کا کوئی افسر بول رہاتھا۔ سلام دعا اور تعارف کے بعد اس نے اطلاع دی کہ وزیر اعظم کے افریقی دورے کا پروگرام فائنل ہوچکا ہے اور کالم نگار کا دورے میں وزیر اعظم کے ساتھ جانا طے پایا ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دورہ چونکہ بہت اہم تھا اس لئے فوری طور پر انکار کرنا مناسب نہ لگا۔ ٹیلیفون کرنے والے کو اپنی بے پناہ مصروفیت کا بتایا۔ کام کی زیادتی کا عذر پیش کیا۔ لیکن وہ صاحب کچھ سننے یا ماننے پر تیار نہ تھے۔ مجبورًا یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ سوچ کر فیصلہ کرونگا۔ فون بند کرکے کالم نگارابھی سوچوں میں ہی ڈوبے ہوئے تھے کہ کسی طرح اس ناگہانی کوٹالا جائے کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی۔ یا اللہ خیر،انہوں نے دل میں کہا اور ریسیور اٹھالیا۔ اس دفعہ وزیر اعظم کے دفتر سے کا ل تھی اور فون کرنے والے سے اچھی شناسائی تھی۔ انہوں نے ایک لمبی تمہید باندھی اور بتایا کہ وزیر اعظم کے اس دورے کی بین الاقوامی اہمیت کیا ہے۔ خاص طور پر نمیبیا میں پاکستانی وفد کی موجودگی سے عالمی سطح پر کیا نتائج مرتب ہونے کا امکان ہے۔ یہ تمام تفصیل معلوم ہونے کے بعد مزید بحث اور انکار کی گنجائش ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا تمام کام کاج اور مصروفیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں دورے پر جانے کی ہامی بھر لی۔لیکن فون بند کرنے کے بعد خیال آیا کہ دورے میں صرف دو دن ہیں۔ بیچ میں ایک اتوار ہے جب سب دفتر بند ہوتے ہیں۔ ویزے کے مراحل کیسے طے ہوں گے۔ اس خیال سے ان کا دل ایک دم خوش ہوگیا کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ لیکن یہ خوشی بڑی عارضی ثابت ہوئی۔ جب ٹیلیفون کی گھنٹی تیسری بار بج اٹھی۔ اس دفعہ پروٹوکول کا کوئی افسر مخاطب تھا۔ جو پاسپورٹ کا تقاضا کررہاتھا۔ اس کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کی تو جواب ملا کہ آپ اپنا پاسپورٹ تیار رکھیں تھوڑی دیر میں کوئی آکر لے جائے گا۔ ہدایت کے مطابق پاسپورٹ تلاش کیا اور جو صاحب لینے آئے ان کے سپرد کردیا۔ ذرا فرصت ملی تو ٹھنڈے دل سے تمام صورت حال پر غور کیا۔ کچھ ضروری امور نپٹائے اور بری بھلی تیاری کرکے مقررہ وقت پر اسلام آباد پہنچ گئے۔وہاں میڈیا سے متعلق کئی اہم لوگ اور ساتھی آئے ہوئے تھے۔ ان سے خوب گپ شپ رہی اور دورے کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ سب کا خیال تھا کہ ایسے دورے وقت کی اہم ضرورت ہیں اور وقفے وقفے سے ہونے چاہئیں۔ جہاز روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد وزیراعظم صحافیوں کی نشستوں کی طرف آگئے۔ سب ساتھیوں سے فرداًفرداً ہاتھ ملایا اور خیریت دریافت کی۔ کالم نگار سے ملتے ہوئے انہوں نے خاص طور پران کی کچھ تحریروں کا ذکر کیا اور حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ دورے کے بارے میں بات چیت نہ ہوسکی۔ بعد میں دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر نے اس بارے میں بریفنگ دی۔لیکن معلوم ہوا کہ موصوف پوری تیاری کرکے نہیں آئے تھے کیونکہ وہ بہت سے سوالوں کے ٹھیک جواب نہ دے سکے اور اِدھر ُادھر کی ہانکتے رہے۔ منزلِ مقصود پر پہنچنے کے بعد وزیر اعظم تو استقبالیہ تقریب سے فارغ ہوکر چلے گئے ۔جبکہ سارے صحافی ایک طرف کھڑے اس انتظار میں تھے کہ کوئی حال پوچھے۔ ہر طرف بھاگ دوڑ لگی ہوئی تھی۔ جس کے جدھر سینگ سمائے وہ جارہاتھا۔ ابھی سب حیران وپریشان کھڑے تھے کہ اتنی دیر میں وزیر اطلاعات ایک گاڑی میں بیٹھتے نظر آئے۔ سب دوڑ کر ان کی طرف لپکے ۔ انتہائی مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ گاڑی سے اتر آئے اور اپنے ماتحتوں پر برہم ہوئے۔وزیر صاحب کا غصہ دیکھ کر سب افسروں کی دوڑیں لگ گئیں اور جلدی جلدی ایک وین کا بندوبست کرکے انہیں ایک بہت اچھے ہوٹل میں پہنچا دیا گیا جہاں پہنچ کر سکھ کاسانس لینانصیب ہوا اور آرام کرنے کا موقع ملا۔ کالم تو یہاں ختم ہوگیا۔ لیکن قارئین جانتے ہیں کہ ایسی فیوض وبرکات صرف مخصوص لوگوں کیلئے ہوتی ہیں۔ باقی سب کو سچ لکھنے کی پوری پوری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔لیکن بد قسمتی سے جہاں اپنا قبلہ درست کرنے والے من کی مرادیں پاتے ہیں تو سچ لکھنے والے اکثر وبیشتر تاریک راہوں میں گم ہوجاتے ہیں اور پھر کم ہی خوش قسمت ہوتے ہیں جن کا کوئی سرغ ملتا ہے یا تاریخ کے اوراق پر ان کا کوئی ذکر ہوتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں