کیا آج کی پیپلزپارٹی کو بھٹو صاحب سے کوئی فکری و سیاسی نسبت ہے؟4 اپریل بھٹو کی برسی ہے۔ لازم ہے کہ آج کے دن یہ سوال، سب سے زیادہ پارٹی کے حلقوں میں زیر ِبحث آئے۔
بھٹو صاحب تضادات کا مجموعہ تھے۔ سیاست کھیل ہی ایسا ہے۔میں اپنی تاریخ کے کسی ایسے سیاست دان کو نہیں جانتا جو تضادات سے پاک ہو،سوائے قائد اعظم کے۔ان کا معاملہ حیرت انگیز حد تک مختلف تھا۔سیاست کا عمومی چلن لیکن یہی ہے کہ تضادات کے ساتھ نباہ کرنا پڑتا ہے۔سیاست کبھی اخلاقیات کے تابع نہیں رہی۔اس کا خمیر زمینی حقائق سے اٹھتا ہے۔ان حقائق سے منہ زور قوت کہیں پائی نہیں جاتی۔سیاست میں کامیابی کے لیے ان حقائق سے مطابقت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ یہیں سے تضاد کا آ غاز ہو تا ہے۔ بھٹو صاحب کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ چلے تھے جاگیرداروں سے لڑنے اور پھر انہی کے ہاتھ میں اسمبلی کے ٹکٹ تھما دیے۔ اسی طرح مذہبی طبقات سے بھی انہوں نے مفاہمت کی۔ ایسا نہ کرتے تو کیا ہوتا؟ شاید آج بھی زندہ ہوتے اورکسی گوشہ تنہائی میں محوِ مطالعہ۔ چند کتابوں کے مصنف اورکچھ علمی مجالس میں زیرِبحث۔
بھٹو صاحب نے جس آئیڈیل کو اپنی سیاست کی اساس بنایا، وہ اسلامی سوشلزم تھا۔ یہ اصطلاح انہوں نے پہلی بار استعمال نہیں کی۔ لیاقت علی خان نے سب سے پہلے اسے اپنا آئیڈیل بتایا۔ پیپلزپارٹی کے نا م سے ہی جی ایم سید اور عبد الغفار خان مل کر ایک جماعت بنا چکے تھے، جس نے روٹی کپڑا اور مکان کو اپنا نعرہ بنایا۔ یہ بات لیکن کم لوگ جانتے ہیں۔ اسلامی سوشلزم اور پیپلزپارٹی کا انتساب بھٹو صاحب ہی کی طرف ہے کیونکہ انہوں ہی نے اسے عوامی سطح پر متعارف کرایا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی فلسفے کے طور پر مقبول بنایا۔ یہ اسلام ہی کی ایک تعبیر تھی جس میں سوشلسٹ معاشی افکار کی آمیزش کی گئی۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک اسلام اور سوشلزم میں اختلاف یا تضاد نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو وہ اسلام کو ترجیح دیتے۔
عصری افکار کے زیر اثر اسلام کی تعبیر مسلم معاشرے کی ایک مستقل قدر ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو اپنے عہد کے نظامِ ِفکر سے ہم آہنگ بات کو آسانی سے قبول کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کا خیال بھی یہی تھا۔ وہ چونکہ ایک فلسفی تھے اس لیے انہوں نے فلسفیانہ سطح پر مذہبی واردات کو عقلی پیراڈائم میں بیان کرنے کی اہمیت کو واضح کیا۔ ان کا پہلا خطبہ اسی موضوع پر ہے۔ جسے ہم سیاسی اسلام کہتے ہیں، یہ بھی اس دور کی دیَن ہے جب دنیا نظاموںکے تناظر میں سوچ رہی تھی۔ یوں اسلام کو بھی بطور نظام متعارف کرایا گیا۔ سوشلزم بھی اشتراکی خیالات کے زیرِ اثر وجود میں آنے والا ایک نظام ہے۔ اسلامی سوشلزم سے مراد یہ تھی کہ اجتماعی و سیاسی سطح پر اسلام کا ظہور اس طرح ہو کہ معاشی مساوات کو یقینی بنایا جائے۔
اس تعبیر پر علمی تنقید ہو سکتی ہے لیکن اسے کفر قرار دے کرمبالغہ کیا گیا جس کا جواز نہیں تھا۔ اگر اسلام کی سیاسی تعبیر جائز ہے تو معاشی کیوں ناجائز ٹھہری؟ ایک فرق البتہ ایسا تھا جس کی وجہ سے اسلام کی سیاسی تعبیر مذہبی حوالے سے قبول کر لی گئی مگر اسلامی سوشلزم کفر قرار پایا۔ یہ ابلاغ کا فرق ہے۔ اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والے اصلاً دین کے عالم تھے۔ ان کی شخصیت کی اٹھان مذہبی تھی۔ یوں ان کی تعبیر میں مذہبی رنگ کہیں نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔عقائد، مراسمِ عبادت، بود و باش، لغت، ہر بات میں مذہب غالب ہے۔ اس کے بر خلاف اسلامی سوشلزم کی تعبیر پیش کرنے والے اصلاً سماجی علوم اور عملی سیاست سے متعلق لوگ تھے۔ ان کی لغت مذہبی لٹریچر کی روایت سے ماخوذ نہیں، یوں ایک مذہبی ذہن اس سے اجنبیت محسوس کرتا ہے۔ سیاسی اسلام کے مبلغین کو ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ اسلوبِ بیان کے حوالے سے ان کا تعلق دبستانِ شبلی سے تھا۔ اس اسلوب میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ جدید اور قدیم ذہن کو بیک وقت مخاطَب بنا سکتا ہے۔ اسلامی سوشلزم کے علم برادر اس سے محروم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو صاحب کی سیاسی مقبولیت کے با وجود، اسلامی سوشلزم بطور فکر، سنجیدہ حلقوں میں جگہ نہیں بنا سکا۔
بھٹو صاحب نے سیاسی حقائق سے ہم آہنگ ہو نے کی کوشش کی تو فکری اعتبار سے بھی مفاہمت اختیار کر لی۔ یوں ان کا سیاسی حلقہ تدریجاً سمٹنے لگا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی المناک موت نے ان کے سیاسی فلسفے اور پیپلزپارٹی کی ساکھ کو سہارا دے دیا اور یوں اس کا سیاسی زوال تھم گیا۔ اگر یہ فطری طریقے سے آگے بڑھتا تو ان کی توانا شخصیت بھی شاید تادیر اس کو برقرار نہ رکھ سکتی کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں مفاہمت اختیار کر لی تھی۔
سوشلزم ایک رومانوی تصور ہے۔ ریاست کبھی ماں کی طرح نہیں ہوتی لیکن یہ ایک رومان ضرور ہے۔ ہیرو کی غیر فطری موت نے اس داستان کو مزید رومانوی بنا دیا۔ پیپلز پارٹی اس رومان کے سہارے آج تک قائم ہے اوراب اس کی قیادت تیسری نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس رومان کو کیا پھر زندہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا پیپلزپارٹی پھر اسے عوام کے لیے ایک پر کشش سیاسی عمل میں تبدیل کر سکتی ہے؟ اس سے اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن بھی ہے؟ کیا انسان کا فکری اور سیاسی ارتقا سوشلسٹ نظریات کے لیے سازگار ہے؟
میرا خیال ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے جس فکری مشقت کی ضرورت ہے، اس کا داعیہ کہیں مو جود ہے اورنہ صلاحیت۔ اب پیپلزپارٹی کے پاس تو کوئی حنیف رامے بھی نہیں۔ قمر زمان کائرہ یا چوہدری منظور احمد جیسے لوگ اس رومان سے وابستہ ہیں لیکن یہ سائنٹیفک سوشلزم ہے، اسلامی سوشلزم نہیں۔ اس کے ساتھ عالمی فکری منظر نامہ بھی سوشلزم کے لیے سازگار نہیں رہا۔ اسے ایک متروک تصور خیال کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی عملاً ایک مدت سے اس سے لاتعلق ہو چکی۔ یہ سیاسی حقائق سے ہم آہنگی ہے جس کے تحت سرمایہ دارانہ نظام سے وابستگی کے سوا اب کسی کے پاس بقا کا کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ وہ فکری احیاء کے بارے میں سوچ سکے۔
اس کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ سماجی سطح پر لبرل طبقے کو سیاسی قیادت فراہم کردے۔ اس ملک میں جو لوگ معیشت سے لے کر سماج تک، لبرل اقدار کا فروغ چاہتے ہیں، ان کے پاس کو ئی سیاسی فورم نہیں۔ پیپلزپارٹی ہی ان کا فطری مرکز بن سکتی ہے۔ اس باب میں نواز شریف صاحب کی کوشش کامیاب ہو نے وا لی نہیں۔ اگر بلاول کی سیاسی تربیت درست خطوط پر ہو تو میرا خیال ہے کہ اس کا سیاسی احیاء ممکن ہے۔ وہ جس طرح کی سطحی تقریریں کر رہے ہیں، اس سے ان کی شخصیت کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ اگر ان کو مستقبل کے لیڈر کے طورپر ابھرنا ہے تو ان کی فکری اور سیاسی تربیت لازم ہے۔
بھٹو صاحب کی برسی پر پیپلزپارٹی کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب اور اسلامی سوشلزم سے وابستہ رومان کو کس طرح ایک متحرک اورعملی سیاسی پروگرام میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ رومان سے مہمیز مل سکتی ہے لیکن سیاسی حکمتِ عملی کے لیے زمین حقائق سے ہم آہنگی لاز م ہے۔ سوشلزم سے لبرل ازم کی طرف سفر بہرحال مشکل ہے۔ یہ سماجی حد تک تو ممکن ہیِ سیاسی اور معاشی سطح پر نہیں۔