"KNC" (space) message & send to 7575

جدت اور روایت کی بحث

مسلم معاشرے‘ایک مدت سے نظریاتی بحران میں مبتلاہیں۔دنیا جن فکری مسائل کو مدتوں پہلے حل کر چکی‘ہم تادمِ ایں‘ان کی تفہیم کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک مسئلہ روایت ا ور جدت کاباہمی تعلق ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر ِاسلامی کو اس باب میں امتیاز حاصل ہے کہ اس نے ان زندہ مسائل کو تحقیق وجستجو کا مستقل موضوع بنارکھا ہے۔ایک طرف پی ایچ ڈی ا ورایم فل کے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ان سوالات کو مخاطب بنائیں اور دوسری طرف قومی اور بین الا قوامی کانفرنسوں کے انعقاد سے اہلِ علم کے مابین مکالمے کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ اہلِ علم کے مابین تبادلۂ خیال سے مسائل کا حل نکل سکے۔ڈاکٹر شاہ محی الدین ہاشمی فیکلٹی کے ڈین ہیں جن کی حوصلہ افزائی سے یہاں ایک شاندار علمی ماحول میسر ہے جس کا میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔اس ماحول کی تشکیل کے لیے ڈاکٹر ہاشمی کوڈاکٹر طاہر اسلام عسکری‘ڈاکٹر احمد رضا‘ڈاکٹر حافظ محمد سجاد اورڈاکٹر محمدریاض محمود جیسے بہت سے علم دوست رفقا کا تعاون بھی حاصل ہے۔
13اور14مارچ کو شعبہ فکرِ اسلامی کے زیر اہتمام ایک بین الا قوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔اس کا موضوع تھا: ''فکرِ اسلامی میں روایت وجدت:تاریخی و عصری تناظر‘‘۔اس کانفرنس میں ملک اوربیرونِ ملک سے نامور اہلِ علم شریک ہوئے۔ جرمنی سے ڈاکٹر جمال ملک اور برطانیہ سے ڈاکٹر افتخار ملک تشریف لائے۔ پاکستان سے ڈاکٹر محمد خالد مسعود‘ ڈاکٹر انیس احمد اور ڈاکٹر طفیل ہاشمی جیسے علمی شخصیات شریک ہوئیں۔شرکا نے ڈاکٹر ضیا الحق‘ ڈاکٹر محمد امین‘ڈاکٹر مبشر حسین اورڈاکٹر رشید ارشد سمیت بہت سے اہلِ علم سے استفادہ کیا۔اس کانفرنس میں ایک سو سے زیادہ مقالے پیش کیے گئے۔میں نے کوشش کی کہ میں ان دو دنوں میں‘یہاں تشریف لائے اہلِ علم سے بھرپور استفادہ کروں۔
اس کانفرنس کے منتظمین نے موضوع ہی میں جدت اور جدیدیت کا فرق واضح کر دیا تھا۔ 'جدیدیت‘(Modernity)انسان کے فکری سفر کا ایک اہم تاریخی پڑاؤ ہے جوسائنسی اندازِ فکر کا حاصل ہے۔ فکرِ انسانی نے گزشتہ صدیوں میں جو سفر طے کیا‘اس کا مرکز بلادِمغرب تھے۔ بالخصوص یورپ اورشمالی امریکہ۔عالمِ اسلام اس قافلۂ انسانی کا ہم سفر نہیں تھا۔اس قافلے سے بچھڑنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم فکرِ انسانی کے نتائج کے ردو قبول کے معاملے میں متردد رہے۔ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم نے جدیدیت کو قبول کرنا ہے یا اس کا انکار کر نا ہے۔علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں اسی مسئلے کو مخاطب بنایا ہے۔
ہمارے ہاں یہ بحث جاری تھی کہ مغرب مابعدجدیدیت (Post Modernism)کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔جدیدیت کے آخری مرحلے میں دنیا عالمگیریت کی طرف فیصلہ کن پیش قدمی کر چکی تھی۔ عالمگیریت کے نتیجے میں‘ہمیں بالجبر انسان کے تہذیبی قافلے کا حصہ بننا پڑا۔اس نے ہمارے مخمصے کو دو چند کر دیا۔ہم جدیدیت میں داخل ہوئے بغیر‘مابعد جدیدیت کا حصہ بن گئے جو دراصل فکرِ انسانی کا ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔فکرِ اسلامی کے لیے مشکل یہ پیدا ہوئی کہ جس معاشرے کو‘ جدیدیت سے گزرے بغیر‘ مابعد جدیدیت کے مسئلے کا سامنا ہے‘وہ اس کی فکری تشکیل کیسے کرے؟یہ معاشرہ تو ابھی یہی طے نہیں کر سکا کہ وہ جدیدیت کے چیلنج کا سامنا کیسے کرے؟
اس کانفرنس میں‘مجھے لگا کہ یہ سوال اہلِ علم کے لیے ہنوزالجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔شاید اسی سے بچنے کے لیے اس کانفرنس میں جدت اور جدیدیت کے فرق کو زیادہ نمایاں کیا گیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے توجہ دلائی کہ جدیدیت سائنسی اندازِ فکر کی عطا ہے جو ریاضی کے اصولوں کی طرح‘ایک سٹرکچر تشکیل دیتی ہے اورانسانی معاشرے سے بھی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سماجی تشکیل پر بھی اس کا اطلاق کرے۔اس سے تنوع کی نفی ہوتی ہے۔یہ جدیدیت کا ایک بڑا عیب ہے۔مابعد جدیدیت کسی سٹرکچر پر ایمان نہیں رکھتی‘اس لیے اس میں تنوع کا احترام ہے۔جدیدیت میں مکالمے کا امکان کم تھا۔آج یہ امکان پیدا ہو چکا ہے اور اس نے فکرِ اسلامی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے ایک راستہ پیدا کر دیا ہے۔
اس کانفرنس میں ایک مذاکرہ بھی شامل تھا جس میں مختلف فکری رجحانات کے حاملین کو جمع کیا گیا تھا۔اس نشست میں اس بات کی اہمیت کو واضح کیا گیا کہ اس مکالمے کا حصہ بننے کے لیے‘ہمیں پہلے داخلی سطح پرفکری یکسوئی پیدا کرنی ہے۔یہ یکسوئی مغرب میں پیدا ہو چکی۔وہاں چند بنیادی معاملات پر اجماع وجود میں آ چکا۔جیسے سیکولرزم۔ جیسے جمہوریت۔ گویا پہلے مرحلے کے طور پر‘ہمیں اپنے دائرے میں مکالمے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر مبشر حسین اور ڈاکٹر ضیاالحق کا کہنا تھا کہ انتہا پسند رویوں نے مکالمے کی فضاپیدا نہیں ہونے دی۔جب ہم اختلافِ رائے کااظہار فتوے کی زبان میں کرتے ہیں تو اس سے تنوع کی نفی ہوتی اور انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ادبِ اختلاف کو دینی مدارس کے نصاب کا حصہ بنائیں۔
ڈاکٹر طفیل ہاشمی نے عالمانہ بصیرت کے ساتھ ان نکات کو نمایاں کیا جنہیں فکرِ اسلامی کامو ضوع بننا چاہیے۔انہوں نے سیاستِ شریعہ اور مقاصدِ شریعت پر توجہ مرتکز کر نے کی بات کی اور وہ راہ نما اصول بتائے‘جن پر ان مباحث کو کھڑا ہو نا چاہیے۔ڈاکٹر محمد زاہد صدیق کا کہنا تھا کہ مسلم علمی روایت میں ان سوالات کے جواب دیے جا چکے جو انیسویں اور بیسویں صدی کی علمی ڈسکورس کا حصہ ہیں۔انہوں نے اس باب میں امام رازی کا بطورِخاص ذکر کیا۔انہوں نے مسلم اہلِ علم کو توجہ دلائی کہ ان کے لیے خوداپنی علمی روایت سے آگاہی کتنی ضروری ہے۔
اس کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات کے موضوعات میں بھی تنوع تھاجو اس لحاظ سے بہت خوش آئند ہے کہ ہمارے اہلِ علم میں غور وفکر کا رجحان آگے بڑھ رہا ہے۔کانفرنسوں کے بارے میں میرا عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر سنجیدہ علمی جستجو سے زیادہ محض کانفرنس میں شرکت کا شوق‘ مقالہ نگاری کا محرک بنتا ہے۔یا پھر ترقی کی خواہش جس کے لیے تحقیقی مقالوں کو ضروری قرار دیا جا تا ہے۔میری دعا ہے کہ اس کانفرنس میں پیش کیے جانے والی مقالے اس علمی بحث کو آگے بڑھانے میں معاون ہوں جو اس وقت ہماری ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں یہ جامعات ہی ہیں جہاں علم تخلیق ہو تا ہے۔اس کے لیے آزادانہ فضا ناگزیر ہے۔ہمیں اس بارے میں سوچناہوگا۔جتنی فکر ہمیں طلبہ و طالبات کی جسمانی اور اخلاقی طہارت کی ہے‘اتنی ہی فکر ہمیں ان کی ذہنی آزادی کی بھی ہونی چاہیے۔جتنا زور‘ہم سر پرچادرڈالنے کے لیے لگا رہا ہے‘اتنا زور اس پر بھی لگانا چاہیے کہ اس سر میں جنم لینے والے خیالات کا آزادانہ اظہار ہو۔فکرِ اسلامی‘اسلام نہیں ہے۔یہ تفہیمِ اسلام کی انسانی کاوش ہے جس میں‘صحت اور غلطی‘دونوں کا امکان ہوتا ہے۔ ہمیں اس اصول کو اختیار کرنا ہے۔اگر کوئی بات غلط ہوگی تو کوئی دوسرا صاحبِ علم اس کی تصحیح کر دے گا۔اس لیے کسی غلطی پر پریشان ہونی کی ضرورت نہیں‘اگر وہ علمی پیرائے میں بیان ہو ئی ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیوسٹی کے شعبہ فکرِ اسلامی نے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ انسان کے فکری سفر سے لاتعلقی ہمیں کس نوعیت کے علمی اور نظری بحران میں مبتلا کر سکتی ہے۔علمی بے مائیگی کا ناگزیر نتیجہ فکری دریوزہ گری ہے۔ جہاںفکرکشکول اٹھا لے وہاں معیشت بھی گداگر بن جاتی ہے۔فکرِ اسلامی کے لیے لازم ہے کہ وہ فکرِ انسانی کے قافلے کاہم قدم بنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں