عمران خان صاحب سے کچھ ایسی خطا ہوئی کہ ان کی سیاست کاشاداب چمن‘ پلک جھپکنے میں خزاں رسیدہ دکھائی دینے لگا۔برگ ریز موسم میں پتے اس طرح جھڑ رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے شاخ پر اُگے نہیں تھے‘کسی نے ہاتھ سے ٹانک دیے تھے۔
تحریکِ انصاف کے مخلص کارکن کے لیے یہ منظر بہت دل شکن ہے۔جنہوں نے خان صاحب اور اس جماعت سے امیدیں باندھی تھیں‘ان کا اضطراب قابلِ فہم ہے۔میرا گمان یہ بھی ہے کہ وابستگان کی اکثریت نے اخلاص کے ساتھ انہیں مسیحا جانا اور یہ خیال کیا کہ وہ قوم کی شبِ سیاہ کو روزِ روشن میں بدل دیں گے۔اپنی سادہ لوحی میں انہوں نے ہر اس آدمی کوبرا جانا جس نے خان صاحب پر تنقیدکی۔حسبِ توفیق‘ دشنام کے ساتھ ان کی تواضع بھی کی۔میرا معاملہ یہ رہا کہ میں گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہ ہوا۔اس کی وجہ ان کی شیریں لبی نہیں‘سادہ لوحی ہے۔ایسے لوگ ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں کہ ذاتی سودو زیاں سے بے نیاز ہو کر کسی کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ باور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ جس مسیحا پر انہیں یقین ہے‘کوئی آدمی کسی مادی منفعت کے بغیر‘اس پر تنقید کر سکتا ہے۔
میں اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں کہ کبھی خود بھی اس سے گزار ہوں۔انقلاب کی آرزو کبھی اس دلِ ویراں میں بھی مچلتی تھی۔ تب میری برگِ اُمید بھی شاداب تھی۔اُس وقت اگر کوئی اس انقلاب اور اس کی شمع روشن کرنے والوں پر تنقید کرتا تو میرے جذبات بھی کچھ ایسے ہی ہوتے۔دشنام کی صلاحیت مجھ میں تھی نہیں‘اس لیے تلملاکر رہ جا تا۔آج دل کی دنیا میں ویرانی ہے‘ یہ جان لینے کے بعدکہ انقلاب سے بڑادھوکہ‘سیاست میں ایجاد نہیں ہوا۔وہ ناقدین آج برے نہیں لگتے جو اس وقت اس سراب کی حقیقت بیان کرتے تھے۔
مجھے تحریکِ انصاف کے ان مخلص وابستگان سے ہمدردی ہے۔ان کو طنزو تشنیع کا نشانہ بنانا‘ان کا مذاق اڑانا خوش ذوقی ہے نہ خوش اخلاقی۔ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ اس کیفیت سے نکل سکیں۔ان سے غلطی ہوئی‘کوئی گناہ نہیں ہوا:
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں‘ کافر نہیں ہوں میں
مایوسی کی اس کیفیت میں‘دو طرح کے ردِ عمل متوقع ہوتے ہیں۔ایک یہ ناکامی کے اسباب خارج میں تلاش کیے جائیں۔امریکہ' رجیم چینج‘ کا ذمہ دار ہے۔یہ 'ابسلوٹلی ناٹ‘ کہنے کا نتیجہ ہے۔یہ کسی' میر جعفر‘کا کیا دھرا ہے۔یہ سیاسی مخالفین کی سازش ہے۔یہ مقتدرہ کے کسی فردِ واحد کا اظہارِ ناراضی ہے۔ لوگ ان میں سے کسی ایک سبب کے قائل ہو سکتے ہیں اور تمام اسباب کے بھی‘ان میں موجود تضاد سے قطع نظر۔زیادہ توقع اسی ردِ عمل کی ہے کہ یہی ہمارے قومی مزاج کے موافق ہے۔ہم عام طور پر اپنی ناکامی کا ذمہ دار خارج ہی میں تلاش کرتے ہیں۔ہم عذرِ لنگ تراشتے ہیں جیسے یہ تو خود حکومت کا کیا دھرا ہے۔یہ اندازِ نظر صحیح بات تک پہنچنے میں حجاب بن جا تا ہے۔
دوسرا ردِ عمل خود احتسابی کا ہے۔اس پر غور کیا جائے کہ ہمارا طرزِ عمل‘کیا سیاست کے موزوں تھا؟کیا سیاست کے آداب یہی ہیں؟ 9مئی کو جو کچھ ہوا‘کیایہ ہیجان کی سیاست کا ناگزیر نتیجہ نہیں تھا؟خان صاحب نے ایک سال میں جو مؤقف اپنائے‘کیا یہ ان کی شخصیت کو سمجھنے میں کوئی معاونت کر سکتے ہیں؟تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے یا خان صاحب کا فین کلب؟فوج سے بطور ادارہ ٹکراؤ‘کیا درست حکمتِ عملی تھی؟ٹائیگر فورس جیسے گروہ‘کسی سیاسی جماعت کے لیے اثاثہ ہیں یامصیبت؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے کوئی ریڈ لائن پاؤں تلے رونڈ ڈالی ہو‘یہ جانے بغیر کہ اگر ہماری ریڈ لائن ہے تو کسی دوسرے کی ریڈ لائن بھی ہو سکتی ہے؟خان صاحب کی افتادِ طبع‘اس ناکامی کا سبب تو نہیں؟کیا خان صاحب کی گرفتاری سیاست کا ایسا نادر واقعہ تھا کہ اس پر اتنا سخت ردِ عمل دیا جاتا؟سیاسی جماعتوں کی معاونت کے بغیر‘کیا اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت سے دور رکھا جا سکتاہے؟اگر خود احتسابی کسی کے نزدیک ناکامی کے اسباب تلاش کرنے کا درست طریقہ ہے تووہ یقیناً ان سوالات پر غور کرے گا۔
تحریک ِ انصاف کے ان مخلصین کو میرا مشورہ ہو گا کہ وہ پہلے ردِ عمل سے گریز کریں۔واقعہ یہ ہے کہ خود احتسابی‘ ناکامی کی صورت میں کسی نعمت سے کم نہیں۔جو لوگ اپنی ناکامی کا بوجھ خارجی قوتوں پر ڈال دیتے ہیں‘وہ کبھی ناکامی کو کامیابی میں نہیں بدل سکتے۔اس سے ان کو نفسیاتی تسکین تو مل جاتی ہے‘منزل کبھی نہیں ملتی۔اگر ان کا اپنا سفر جاری رکھنا ہے تو انہیں اپنا احتساب کرنا ہو گا۔
یہ سوالات ہر کارکن کے لیے محلِ تدبر ہیں جواپنی جماعت کی شکست و ریخت پر افسردہ ہے اور دل سے اپنی پارٹی کا احیا چاہتا ہے۔تحریکِ انصاف اور خان صاحب کے بارے میں میری رائے آج بھی وہی ہے جس کا میں برسوں سے اظہار کر رہا ہوں۔تاہم میری یہ خواہش بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کے نام پر جو سیاسی قوت مجتمع ہو ئی ہے‘وہ ضائع نہ ہو۔یہ ایک مثبت سیاسی قوت بنے اور ان خطرات سے محفوظ رہے جو اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔خان صاحب سمیت ہیجان پرور افراد نے اس جماعت پر پابندی کے امکانات پیدا کرد یے ہیں۔مخلص لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اس صورتِ حال سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
میں ان لوگوں کو کسی دوسری جماعت میں شامل ہو نے کامشورہ بھی نہیں دے رہا۔اگریہ فی الواقع سیاسی شعور رکھتے اور عمران خان صاحب کے شخصی سحر میں مبتلا نہیں ہیں‘تو انہیں اپنی جد وجہد جاری رکھنی چاہیے۔سیاسی جماعتوں پر مشکل وقت آتا ہے۔سب جماعتوں پریہ وقت گزر چکا۔گزشتہ برسوں میں (ن) لیگ اور اس کی قیادت نے جو کچھ دیکھا‘تحریکِ انصاف اور اس کی قیادت نے اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں دیکھا۔ان جماعتوں نے زندگی کا ثبوت دیااور دوبارہ زندہ ہوگئیں۔ تحریکِ انصاف بھی زندہ ہو سکتی ہے‘اگر یہ لوگ تاریخ کا مطالعہ کریں اور اپنے سیاسی شعور کو سیاسی علم سے پختہ کریں۔
ان خواتین و حضرات کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہیجان سیاست کے لیے زہرِ قاتل ہے۔9مئی نے ایک بار پھر اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔سیاست تدبر‘ بصیرت اور صبر سے آگے بڑھتی ہے۔ایک سیاسی جماعت اُس دن ختم ہو جاتی ہے جب اس پر تشدد کا لیبل چسپاں ہو جا تا ہے۔مرتضیٰ بھٹو نے الذوالفقارکو سیاسی جماعت بناناچاہا لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔تحریکِ انصاف کے چہرے پر بھی یہ لیبل لگ چکاہے۔تحریکِ انصاف کے مخلص لوگوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس لیبل سے نجات ہے۔ اگروہ عمران خان صاحب کی قیادت میں اپنا سفر جاری رکھیں گے تو میرا تاثر ہے کہ یہ مشکل ہو جائے گا۔
اگر تحریکِ انصاف کے لوگ اس حکمت عملی پر سنجیدگی سے غور کریں گے جس کے خالق خان صاحب تھے اور جس پر انہوں نے ایمان بالغیب کی طرح عمل کیا تو وہ یقیناً اسی نتیجے تک پہنچیں گے جس تک منیر نیازی پہنچے تھے:
تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا