نوید ہو کہ امریکی غلامی سے نجات کے لیے نکلنے والے قافلے کا مقدمہ الجیش‘ امریکہ پہنچ چکا۔ اس کے سالار شہباز گل ہیں حیرت مگر یہ ہے کہ ایک کشکول اُن کے ہاتھ میں ہے۔
متاثرینِ خان کو میر صاحب کا شعر کیا سنائیں کہ اس نازکیٔ خیال کا اس حلقے میں گزر کہاں؟ یہاں کون ہے جو میر کے 'شعرِ شور انگیز‘ کو سمجھ پائے۔ جہاں نثر سر پٹکتی پھرتی ہو‘ وہاں شعر کی کیا اوقات کہ معنی آفرینی کا علم اٹھائے۔ خطاب اُن اہلِ وطن سے ہے جو شعر و نثر ہی کا نہیں‘ سماجی علوم اور تاریخ کا بھی کچھ ذوق رکھتے ہیں۔
ایک برس پہلے‘ جب یہ قافلۂ شوق محوِ سفر ہوا تو یہ تاثر دیا گیا کہ اس کا اگلاپڑاؤ واشنگٹن ہے۔ وہ مرکزِ شر‘ جہاں ایک نادرِ روزگار ہستی کے خلاف عالمی سازش تیار ہوئی اور جو شیطانِ کبیر کا مسکن ہے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری کا ماتم کرتی رہی‘ تب کہیں ایک دیدہ ور میسر آیا۔ عالمِ اسلام کو ایک بے مثل قیادت عطا ہونے کے اس الہامی فیصلے پر سب سے زیادہ تشویش واشنگٹن میں پیدا ہوئی۔ ایک شیطانی قوت کو کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ عالمِ اسلام سے 'ایبسلوٹلی ناٹ‘ کی صدا ابھرے۔ یہ اس زبان سے انکار کیسے سُن سکتی تھی جہاں سے اقرار کے سوا کبھی کچھ صادر نہ ہوا اور جہاں سے دما دم ایک ہی صدا آرہی تھی: 'آمنا وصدقنا‘۔
ایک برس تک یہ قافلہ مگر پاکستان ہی میں بھٹکتا رہا۔ کبھی پشاور سے اسلام آباد اور کبھی لاہور سے راولپنڈی براستہ وزیر آباد۔ جیسے جیسے قافلے کا رُخ بدلا‘ ہدف بھی بدلتا گیا۔ پہلے یہ ہدف امریکہ تھا۔ پھر 'ایک شخص‘ بنا۔ پھر 'ایک گروہ‘۔ آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب۔ ہم جیسوں کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اہداف میں یہ تبدیلی کیوں؟ کچھ محبانِ خان نے توجہ دلائی کہ فکر کی اس رفعت اور عزم کی اس اٹھان کو پانا تمہارے بس میں نہیں۔ اقبال تک ان بے چاروں کی دسترس نہ تھی یا یوں کہیے کہ فکر ونظر کے اس الہامی سفر میں اقبال کا گزر کہاں تھا کہ ان کو خاطر میں لاتے۔ ایسا ہوتا تو وہ ہمیں اقبال کا یہ شعر ضرور سناتے:
تری نگاہ فرو مایہ‘ ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ
خیر‘ میں نے اپنے آپ کو ان کی طرف سے یہ شعر سنایا اور خودکو اپنی فکری بے مائیگی کی طرف متوجہ کیا۔ میں نے خود کلامی کی: 'تم مذہب‘ تاریخ‘ اور سماجیات کی چند کتابیں پڑھ کر یہ سمجھتے ہو کہ چانکیہ سے مکیاولی تک‘ اور نظام الدین طوسی سے ظہیر الدین بابر تک‘ بحرِ سیاست کے شناوروں نے اقتدارکے جن داؤ پیچ کا تذکرہ کیا ہے‘ تم نے انہیں جان لیا ہے تو غلطی پر ہو۔ تمہیں نہیں معلوم کہ 'ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است‘۔
میں نے خود کو سمجھایا کہ اس قافلے کو بہر حال جانا واشنگٹن ہی ہے لیکن براستہ اسلام آباد۔ شیطانِ کبیر سے براہِ راست متصادم ہونے سے پہلے‘ اس قافلے کو نہیں معلوم کتنے'شیاطینِ اصاغر‘ کا قلع قمع کرنا ہے۔ اپنی صفوں سے میر جعفروں کو تلاش کرنا اور کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے۔ عرفِ عام میں 'پکا کام‘ کرنا ہے تاکہ جب خیر وشرکا آخری معرکہ برپا ہو تو آستین میں سے کوئی سانپ نہ نکل آئے۔ یہ مسئلہ حکمتِ عملی کا ہے۔ میرا سیاسی شعور ابھی اتنا پختہ نہیں کہ اس کی نزاکتوں کو سمجھ سکے۔ یوں میں نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔
اشرار کی مگر ہمارے ہاں کمی نہیں۔ مسئلہ شعوری پسماندگی کا بھی ہے۔ ایسے لوگ کہاں خاموش رہتے ہیں۔ لفظوں کے کچوکے لگاتے اور کبھی آوازوں کے نشتر چبھوتے ہیں۔ اس قافلۂ شوق کے کفن بردار اہلِ عزم کو 'ایبسلوٹلی ناٹ‘ کی یاد دلاتے ہیں جسے یہ بھول چکے ہیں کہ یادداشت کے معاملے میں قدرت نے ان کے ساتھ زیادہ سخاوت کا معاملہ نہیں کیا۔ وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ انسانی قافلے نے تہذیب کی سر زمین پر اُس دن قدم رکھا جب اسے خان صاحب کی قیادت میسر آئی۔ جس یاد داشت کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ ایک سال ہو‘ اسے ماضی کے قصے یاد دلانا عبث ہے۔ ہم مگر کارِ عبث کے عادی ہیں۔ ہم باز نہیں آتے۔ ایسے لوگوں کے لیے محبانِ خان کے پاس ایک دندان شکن جواب ہے: 'تمہاری سوچ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی جہاں خان کی سوچ پرواز کرتی ہے‘۔ معترضین مگرکہاں سنتے ہیں۔ یوں یہ کشمکش تادمِ تحریر جاری ہے۔
یہ قافلۂ شوق ابھی امریکہ نہیں پہنچا تھا کہ راستے میں9مئی آ گیا۔ ایک طوفان برپا ہو گیا۔ 'جن پہ تکیہ تھا‘ وہی پتے ہوا دینے لگے‘۔ اس قافلے کے نقیب کو اندازہ نہ ہو سکا کہ ان کے چمنِ آرزو پر ایک موسمِ خزاں گزر چکا۔ جن پتوں پر ان کو تکیہ تھا‘ وہ خزاں رسیدہ ہونے کے بعد شجر سے جھڑ چکے۔ ان کا فیض اب ختم ہو چکا۔ شجر مگر قائم ہے اور اس پر نئے برگ و بار آچکے۔ خزاں گزر چکی۔ نئے پتے نئے عزم کے ساتھ لہلہا رہے ہیں۔ انہیں کم از کم تین سال تک تو اپنی بہار دکھانی ہے۔ تین سال بعد بھی امکان ہو سکتاہے کہ خزاں اس چمن کا رخ نہ کرے۔ یہ پتے تین برس مزید سر سبز رہیں۔
قافلۂ سالار تبدیلی کا نعرہ بلند کرتے کرتے‘ اس تبدیلی کو سمجھ نہ سکا۔ اس خزاں نے 'وہاں‘ کے بعد 'یہاں‘ کا رُخ کر لیا‘ جہاں ایک اور گلستانِ امید آباد کیا گیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس شجر کی ٹہنیاں برہنہ ہوگئیں۔ کل تک جو برگ ہائے رنگا رنگ کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں‘ اب اُس طوفان کی داستان سنا رہی تھیں جو یہاں سے گزر گیا۔ جس چمنِ خیال سے اقبال جیسے نغمہ خواں کا گزر نہ ہو‘ اس میں غالب کا کیا ذکر۔ اگر ایسا ہوتا تو میں سالارِ قافلہ کے گھوڑے کی باگ تھامتا‘ اسے روکتا اور غالب کا یہ شعر ضرور سناتا:
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
غالب کا شعر مگر میں اُن کو سنا سکتا ہوں جو جانتے ہیں کہ یہ محض شعر نہیں ہیں۔ ان لفظوں میں زندگی کی وہ حقائق پرو دیے گئے ہیں جو آفاقی ہیں۔ اس قافلے کو اس سے کیا غرض کہ تاریخ‘ واقعات کو اگر سنبھال سنبھال کر اپنی زنبیل میں جمع کرتی ہے تو اس کی یہ مشقت بے مصرف نہیں ہوتی۔ یہ اس لیے ہے کہ آنے والے اس سے عبرت پکڑیں اور شاہراہِ حیات پر موجود ان آثار سے سبق سیکھیں جو جانے والوں کی بربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ غالب جیسے شاعر تو ان اسباق کو دو مصرعوں میں بند کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
یہ قافلۂ شوق اقبال کو کچھ سمجھتا ہے نہ غالب کو۔ اسے تو ایک بے خودی دن رات چاہیے۔ اسی بے خودی میں‘ اس کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب اس کا ہر اول دستہ امریکہ پہنچا لیکن اس عزم کے ساتھ نہیں جو پہلے قدم اٹھاتے وقت‘ اس کا ہم سفر تھا۔ یہ اب واشنگٹن سے مدد کی درخواست کر رہا ہے۔ اس سے انسانی حقوق کی بھیک مانگ رہا ہے۔ التجا کر رہا ہے کہ ہمیں اپنی سرپرستی میں لے لو۔ تم دنیا میں حقوقِ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار ہو۔ ہم تم ہی سے فریاد کرتے ہیں کہ ماسکو اور بیجنگ سے ہمارے حق میں کوئی آواز اٹھ رہی ہے نہ ریاض اور انقرہ سے۔ آج ہم تم ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
کون سوچ سکتا تھا کہ یہ سفر 'ہم کوئی غلام ہیں‘ کا انقلاب آفریں نعرہ بلند کرتے ہوئے‘ ایک دن اپنے عہد کے ہبل کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے گا:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو