باجوڑ حادثے نے سیاست میں ایک نئی صف بندی کو نمایاں کیا ہے۔ یہ پہلے سے موجود ہے مگرکم ہی کو متوجہ کر سکی ہے۔
یہ حادثہ ہمیں تادیر اداس رکھے گا۔ انسانی جان انمول ہے۔ یہ اگر اتنی ارزاں ہو جائے تو فطرتِ سلیم اس کو گوارا نہیں کر سکتی۔ تشدد اور وہ بھی اس درجے کا کہ جان چلی جائے‘ ناقابلِ برداشت ہی نہیں ناقبولِ قبول بھی ہے۔ کوئی مذہبی تعبیر اورکوئی سیاسی فلسفہ‘ مہذب انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں جو تشدد پر ابھارنے والا ہو۔ کوئی مقصد اتنا ارفع نہیں ہو سکتا کہ اس کے لیے زمین کو فساد سے بھر دیا جائے۔ باجوڑ میں بے گناہ لوگ مار ڈالے گئے۔ وہ اب واپس نہیں آ سکتے۔ اس کے مجرم ناقابلِ معافی ہی نہیں‘ عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔
اے این پی اور پیپلز پارٹی اگر دہشت گردی کا ہدف رہی ہیں تو قابلِ فہم ہے۔ ان کا عدم تشدد اور جمہوریت کا فلسفہ‘ ان لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں جو بزعمِ خویش صالحیت کے علم بردار اور اسلام کا غلبہ چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تشدد سے بھی اسلام غالب آ سکتا ہے۔ اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے وہ اپنے فلسفے کو دینی اصلاحات میں بیان کرتے ہیں۔ یہ نقطۂ نظر پاکستان کے گلی بازاروں میں بیان ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی۔ ہر آدمی بندوق نہیں اٹھاتا لیکن ہماری صفوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو دامے درمے سخنے اس تعبیرِ دین کو پیش کر رہے ہیں‘ جو جمہوریت کو کفر کہتے ہیں۔ جب جمہوریت کفر ٹھیری تو پھر تبدیلی کا واحد راستہ تشدد ہی ہے۔ یہ لوگ اسے جہاد‘ انقلاب اور غلبۂ دین جیسوں اصطلاحوں کے پردے میں بیان کرتے ہیں۔
غلبۂ دین کے علم بردار ہونے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی اعلانیہ جمہوریت کی طرف دار ہیں۔ ان کی تاریخ جمہوری جدو جہد سے عبارت ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ انتخابی عمل کا حصہ بنے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں لکھ رکھا ہے کہ آئین کی حدود سے ماورا کوئی اقدام کیا جائے گا نہ خفیہ حکمتِ عملی اپنائی جا ئے گی۔ مولانا فضل الرحمن اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں۔ اس سیاست میں وہ سب کچھ روا رکھتے ہیں جو اقتدار کی سیاست میں جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ لیکن وہ جمہوریت ہی کے علمبردار رہے ہیں۔ یہ بات مولانا کے ان ہم مسلکوں کو پسند نہیں جو تشدد کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں۔ مولانا پر اس سے پہلے تین بار خود کش حملہ ہو چکا۔ ان کا خیال ہے کہ مولانا ان کے پیغام کی اشاعت میں رکاوٹ ہیں۔ اگر وہ نہ ہوں توہم پورے مسلک کو بہا لے جائیں۔ ان کا یہ خیال کچھ ایسا غلط نہیں ہے۔ داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں کا بھی مولانا کے بارے میں یہی خیال ہے۔ اس لیے وہ ان سب کے نشانے پر ہو سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا مخمصہ مگر یہ ہے کہ وہ 'اچھے انتہا پسند‘ اور برے انتہا پسند‘ کی تقسیم کے قائل رہے ہیں۔ ردِ عمل کی نفسیات ایک دوٹوک مؤقف اختیار کرنے میں حائل رہی ہے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں محترم منور حسن مرحوم کا بیان ذہن میں تازہ کر لیجئے۔ اسی طرح افغان طالبان کے بارے میں بھی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کا مؤقف ہمیں معلوم ہے۔ اب طالبان اور ٹی ٹی پی کا تعلق ظاہر و باہر ہے۔
مولانا فضل الرحمن تو مخمصے کا شکار ہیں مگر دوسری طرف کھڑے لوگوں کو کوئی ابہام نہیں ہے۔ وہ واضح ہیں کہ جو جمہوریت کی بات کرتا ہے وہ ایک کافرانہ تصور کی ترویج کرتا ہے۔ اس میں اور اے این پی اور پیپلز پارٹی جیسی اعلانیہ سیکولر جماعتوں میں کوئی فرق نہیں۔ ان کا اسلامی تشخص بے معنی ہے۔ اس تفہیم کے مطابق سیکولرازم اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ اس منزل پر سب بندوق بردار ہم آواز ہیں۔ ان کے باہمی اختلافات فکری بنیاد پر نہیں‘ تنظیمی اور حکمتِ عملی کی سطح پر ہیں۔
جب تک جمہوریت پسند مذہبی طبقات اس مخمصے میں مبتلا رہیں گے‘ وہ ایسے حادثات سے نہیں بچ سکیں گے۔ جمہوریت کے معاملے میں جو صف بندی ہو چکی‘ انہیں اس میں اپنے دھڑے کا انتخاب کر لینا چاہیے۔ اگر وہ جمہوریت کے قائل ہیں تو ان کی اصل اتحادی اے این پی‘ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ جیسی جماعتیں ہیں۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں سیکولر ہیں لیکن جمہوری ہونے کی وجہ سے اپنی حکمتِ عملی میں عوام کے مذہبی جذبات سے صرفِ نظر نہیں کرتیں۔ جمعیت‘ اے این پی کے اکابر سے مل کر کے پی میں حکومت بنا چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی بھی اتحادی رہ چکی اور آج بھی ہے۔ اسلام ان کے مابین کبھی وجہ تنازع نہیں بنا۔ یہ سب جمہوریت کی برکت ہے۔
دوسری طرف وہ تشدد پسند مذہبی گروہوں کے ہاتھوں بارہا زخم کھا چکے۔ باجوڑ کا حادثہ بتا رہا ہے کہ ان گروہوں کی نظر میں مذہبی لوگوں کی جان مباح ہے اگر وہ جمہوریت کے قائل ہیں۔ دوسری طرف جمعیت کے کارکنوں کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی یا (ن) لیگ سے ان کے جتنے اختلافات بھی ہو جائیں‘ ان کی طرف سے ان کے جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس سے یہ صف بندی پوری طرح واضح ہو جانی چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام کو اس مخمصے سے بھی نکلنا ہوگا کہ تشدد افغانستان میں روا ہے اور یہاں نہیں۔ اگر وہ جمہوریت کو درست سمجھتے ہیں تو پھر انہیں افغانستان میں بھی جمہوریت ہی کی بات کرنی چاہیے۔ جو لوگ جمہوریت کو جائز نہیں سمجھتے‘ ان کے نزدیک آئین یا بین الاقوامی سرحدوں کے احترام کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی خود کو ریاست ِپاکستان کا نہیں‘ امارتِ اسلامی افغانستان کا حصہ سمجھتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے چند روز پہلے اپنا یہ دعویٰ پھر دہرایا ہے کہ انہوں نے انگریز کو یہاں سے بھگایا ہے۔ ان کا اشارہ اہلِ دیوبند کی اٹھائی ہوئی تحریکِ آزادی کی طرف ہوتا ہے۔ ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن نے آخری دور میں عسکری جد وجہدسے رجوع کر لیا تھا۔ وہ جان گئے تھے کہ اس کا حاصل جانوں کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بطور قوم ہمیں سوچنا ہوگا کہ شمال مغربی سرحد پاکستان کے لیے سب سے زیادہ خطرناک کیوں ثابت ہوئی؟ سر حد کے اس طرف طالبان حکمران ہوں یا اشرف غنی صاحب‘ یہ سرحد ہمارے لیے یکساں طور پرخطرناک ہے۔ یہ وہ سرحد ہے جس کے پار سے ہونے والے وار سے کوئی گروہ نہیں بچ سکا۔ نہ مذہبی نہ سیکولر۔ نہ دیوبندی نہ غیر دیوبندی۔ نہ فوج نہ عوام۔ مسئلہ کہاں ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟
باجوڑ کے حادثے کو چین اور پاکستان کے مشترکہ منصوبوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان دشمنانِ پاکستان کو اسی سرحد کے قرب ہی میں ساز گار ماحول کیوں میسر ہے؟ بھارت بھی اگر کوئی منصوبہ بناتا ہے تو اس طرف کا رُخ کیوں کر تا ہے؟ وہ سرحد جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے‘ وہاں سے اہلِ فساد کو کمک کیوں نہیں ملتی؟
ان سوالات کا سامنا کیے بغیر ہم پاکستان کو داخلی طور پر محفوظ نہیں بنا سکتے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاست کو مل کر ان سوالات کے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ مسئلہ عمران خان صاحب کے پیدا کردہ بحران سے کم سنگین نہیں۔ جو وحدت یہاں دکھائی گئی ہے‘ لازم ہے کہ اس کا ظہور اس دہشت گردی کے مسئلے پر بھی ہو۔ یہ وحدت آخری بار نواز شریف صاحب نے قائم کی تھی‘ جب ریاست اور سیاسی قیادت کو ہم آواز کر دیا تھا۔ اس کے مثبت نتائج ہم نے بچشمِ سر دیکھے۔ آج پھر اسی یک سوئی کی ضرورت ہے۔