میں اگر آج لاہور میں ہوتا ہے‘تو اس کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شریک ہوتا۔اب یہی ممکن ہے کہ 'بقلم خود‘ شرکت کی جائے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب نے ''میرے رہنما‘میرے ہم نوا‘‘ کے عنوان سے مختلف شخصیات کے بارے میں اپنی معلومات اور تاثرات کو جمع کر دیا ہے۔میں انہیں 'بے کم و کاست‘ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ تاثرات‘ خاطرِ احباب کا خیال رکھ کرقلم بند کیے گئے ہیں۔اس بات کی کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ اس سے بے نیازی ایک نقاد ہی کو زیبا ہے یاپھر مؤرخ کو جس کی بنیادی ذمہ داری حقائق کا بیان ہے‘تاثرات کا نہیں۔اسے اس سے غرض نہیں کہ کتنے آبگینے چکنا چور ہوتے ہیں۔
یہ خاکہ نگاری نہیں ہے اور نہ ہی فرید پراچہ صاحب کے ہاتھ میں احمد بشیر مرحوم کا قلم ہے۔احمد بشیر نے احباب کا جو حشر کیا ہے‘وہ ان کے احباب ہی جانتے ہوں گے۔ان میں خواتین وحضرات دونوں شامل ہیں۔میرے جیسے کمزور دل لوگ تو دوسرے کے ایسے احوال پڑھ کر تنہائی میں بھی پانی پانی ہو جاتے ہیں۔ تاہم ان خاکوں کو ادب پارے قرار دیا گیا ہے۔ مجھے کبھی ان کے تاثرات جاننے کا براہِ راست موقع نہیں ملا جن کے خاکے اڑائے گئے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جواپنے ایسے تذکروں پر بد مزہ نہیں ہوتے۔ حضرتِ جوش جیسے تو بقلم خود لکھتے اور داد پاتے ہیں۔
پراچہ صاحب کو احساس ہے کہ انہیں اسی سماج میں رہنا اورسیاست کرنی ہے۔ سیاست کا مزاج یہ ہے کہ وہ مخالفت پالنے سے گریز کرتی ہے۔ہمارے ہاں مخالفت اور دشمنی میں کم ہی فرق کیا جا تا ہے۔پراچہ صاحب کا قلم اس کتاب کے ہر صفحے پر اس احساس کی گرفت میں رہا۔ 390 صفحات کو اس ضبط کے ساتھ ضبطِ تحریر میں لانا آسان نہیں۔ پراچہ صاحب اس پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے۔کئی مقامات ہیں جہاں پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر میر انیس کی نصیحت مانع ہے۔میں چونکہ بعض ایسی شخصیات ا ور واقعات سے شخصی طور پر آگاہ ہوں ‘اس لیے بین السطور بھی پڑھ لیا۔مجھے یقین ہے کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا پس منظر رکھنے ولا ہر قاری سمجھ سکتا ہے کہ کہاں گریز ہے اور کہاں خیالِ خاطرِ احباب۔
مثال کے طور پر فرید پراچہ صاحب نے مو لانا امین احسن اصلاحی کا بے حد محبت اور احترام سے ذکر کیا ہے۔اس تلخی سے دانستہ درگزر کیا ہے جس کا تعلق مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی داستانِ ہجرو وصال سے ہے؛ تاہم میں تذکرے میں اس معاصرانہ چشمک کو محسوس کر سکتا ہوں جو مولانا اصلاحی کے ایک' شاگرد‘ سے کبھی پیدا ہوگئی تھی‘اگرچہ پراچہ صاحب استادی شاگردی کے اس رشتے کو ماننے میں متردد ہیں۔ انہوں نے لیاقت بلوچ صاحب کی روایت سے جو واقعہ لکھا‘مجھ تک وہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں پہنچی ہے اور بغیر کسی انقطاع کے۔ایک ایسے صاحب سے جو گاڑی میں مولانا کے ساتھ موجود تھے؛ تاہم سند کے اختلاف سے روایت کے مفہوم پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ بات ایک ہی ہے‘الفاظ البتہ مختلف ہیں۔روایت میں یہ مسائل ہوتے ہیں اس لیے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ خبرِ واحد سے ظن حاصل ہوتا ہے‘یقین نہیں۔
پراچہ صاحب کی اس کتاب میں مذکور بعض شخصیات کے بارے میں دلچسپ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔جیسے علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے ذکر میں انہوں نے بتایا کہ دورِ طالب علمی میں ‘سرگودھا جمعیت نے انہیں مدعو کیا۔طالب علم اپنی معاشی بے مائیگی کے سبب ان کا شایانِ شان استقبال نہ کر سکے۔اپنے تئیں انہوں نے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔ علامہ صاحب نے دستر خوان پر نگاہ ڈالی ا ور کہا: ' کڑاہی گوشت نہیں ہے‘؟پراچہ صاحب کو پہلی بار معلوم ہوا کہ اس نام کی کوئی ڈش بھی پائی جاتی ہے۔وہ اس ادا کو بھی اہلِ لاہور کے خوش خوراکی کے کھاتے میں ڈال کرآبگینوں کو صاف بچا لے گئے۔
ایک جگہ عمران خان صاحب کا بھی ذکر ہے ۔پراچہ صاحب کا تجربہ اس خوش خیالی کی تائید نہیں کرتا کہ خان صاحب 'سیاست‘ نہیں جانتے۔ وہ 'سیاست‘ جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔برادرم حفیظ اللہ خان نیازی کے بارے میں معلوم ہے کہ ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے۔وہ نظریاتی طور پر اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔میرا اُن کے ساتھ تعلقِ خاطر ہے تو اس کی بنیاد بھی یہی ہے۔ان کے تذکرے میں پراچہ صاحب لکھتے ہیں: ''جماعت اسلامی کے ساتھ تحریکِ انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے وہ اہم حصہ دار تھے۔اس حیثیت سے انہوں نے سید منورحسن صاحب کو بروقت بتا دیا تھا کہ تحریکِ انصاف کی بنیاد پر سیاسی فیصلے نہ کریں۔ عمران خان نے انہیں کہا ہے کہ ہم نے جماعت کو صرف مصروف رکھنا ہے‘سیٹ کوئی نہیں دینی‘‘۔ اس گواہی کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہیں 'سیاست‘ نہیں آتی؟
تعلق کی مختلف جہات کو سامنے رکھتے ہوئے‘پراچہ صاحب نے اس کتاب کو کئی حصوں میں بانٹا ہے۔ایک حصہ 'قائدین و ذمہ داران‘ کا ہے۔اس سے مراد جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور فکری رہنما ہیں۔ان میں مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی‘ امام حسن البنا‘ سید علی گیلانی‘ پروفیسر خورشید احمد ‘سید منور حسن اورقاضی حسین احمد جیسے رہنماؤں کا تذکرہ ہے۔ ایک مضمون میں مولانا مودودی اور امام حسن البنا میں مماثلتیں تلاش کی گئی ہیں۔ یہ دلچسپ مضمون ہے اگرچہ بعض مماثلتیں دور از کار معلوم ہو تی ہیں جیسے تصوف ۔مولانا کا خاندان صوفیانہ روایت سے تعلق رکھتا تھا مگر وہ خودکبھی اس کا حصہ نہیں رہے اورنہ ہی مزاجاً وہ اس روایت کو قبول کر سکتے تھے۔
اس کتاب میں بہت سی ایسی شخصیات کا ذکر ہے جن سے لوگ عام طور پر واقف ہیں۔کچھ وہ ہیں جو کم معروف ہیں مگر اس لائق ہیں کہ لوگ انہیں جانیں۔جیسے علامہ عنایت اللہ گجراتی۔کچھ ان کے ذاتی تعلق دار ہیں۔ جیسے علما اکیڈمی کے ڈرائیور فیض رسول۔مصنف نے سب کی خوبیوں پر نظر رکھی اوران کی کمزوریوں سے دانستہ صرفِ نظر کیا ہے۔ کتاب میں مذکور ایک طبقے میں شامل کرتے ہوئے‘ فرید پراچہ صاحب نے ڈیڑھ سطر میرے لیے بھی وقف کی ہے۔میں اس عنایت پر ان کا شکر گزار ہوں۔
اس سے پہلے ''عمرِ رواں ‘‘ کے عنوان سے فرید پراچہ صاحب کی خود نوشت شائع ہو چکی۔اس میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں یہ شخصیات زیرِ بحث آئی ہیں‘جن کااس کتاب میں ذکر ہے۔پراچہ صاحب اس سلسلے کو دراز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انہوں نے دیباچے میں احباب سے گزارش کی ہے کہ وہ اس ضمن میں آئندہ لکھی جانے والی کتابوں کے بارے میں راہ نمائی کریں۔ چونکہ وہ مجھے بھی احباب کی اس فہرست میں شامل کرتے ہیں ‘اس لیے ایک گزارش میں بھی کیے دیتا ہوں۔
تذکرہ نگاری میں یہ سوال اہم ہے کہ پڑھنے والے کے لیے اس کی افادیت کیا ہے؟کیا اس تذکرے سے اس کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے؟ کیا اس میں معروف لوگوں کے بارے میں ایسی معلومات ہیں جو اس سے پہلے اخفامیں تھیں؟کیااسے کوئی اخلاقی پیغام مل رہا ہے؟ کیا وہ کسی ایسے کردار سے متعارف ہور ہاہے جو اس کے لیے اجنبی تھا مگر اس کے لیے دلچسپی کا باعث ہے؟
فریدپراچہ صاحب کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔کیا اچھا ہو کہ اس سلسلے کی آئندہ کتاب‘وہ ایک مؤرخ کے قلم سے لکھیں۔اس سے آبگینوں کو ٹھیس لگ سکتی ہے مگر تاریخ کی درستی کے لیے یہ قربانی دے دینی چاہیے۔