آئی ایم ایف کی منزلِ مراد کیا ایسا معاشی اضطراب ہے جو خانہ جنگی میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو؟
موجودہ حکومت بجلی کی قیمت میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ یہ اس کے بس میں نہیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ‘ حکومت کے کسی فوری فیصلے کا نتیجہ نہیں کہ آج احتجاج ہوا اور کل فیصلہ واپس لے لیا جائے۔ یہ برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے جس میں ہر کسی نے حصہ بقدرِ جثہ ڈالا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے دیکھیں تو جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت اعتراض کا حق نہیں رکھتی۔ جماعت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ معاملات کو یہاں تک پہنچانے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسے کبھی اقتدار ہی نہیں ملا۔
تاجر بھی احتجاج کا حق نہیں رکھتے۔ تاجر برادری پورا ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ پاکستان میں صرف تنخواہ دار طبقہ پورا ٹیکس دیتا ہے۔ جب بھی تاجروں سے کہا جاتا ہے کہ مغرب کے بعد دکانیں بند رکھیں تاکہ بجلی بچائی جا سکے تو وہ احتجاج پر اُتر آتے ہیں۔ جب ہرکوئی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے گریزاں ہے تو کون کس کے خلاف احتجاج کر رہا ہے؟
عام آ دمی بھی یہ جانتا ہے کہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی سب سے کم قیمت ہوتی ہے۔ اس کے لیے پانی کے وسیع ذخائر کی تعمیر ضروری ہے۔ کالا باغ ڈیم ہر اعتبار سے قابلِ عمل منصوبہ تھا۔ شمس الملک جیسے لوگ اصرار کرتے رہے مگر سیاسی جماعتیں اس کے خلاف دیوار بن گئیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد قومی یک جہتی کا منظر سامنے آیا تو نواز شریف صاحب نے اس سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ ڈیم کی تعمیرکا اعلان کر دیا۔ یہ یک جہتی لمحوں میں غائب ہو گئی اور پنجاب کو ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔
پنجاب میں پیدا ہونے والی گندم سارے ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے پورے پاکستان کے چولھے جلتے ہیں۔ پنجاب کی گندم تو افغانستان تک جاتی ہے۔ پنجاب کو لیکن لوگوں نے ہمیشہ الزامات کی سولی پر چڑھائے رکھا۔ کالا باغ ڈیم نہ بن سکا۔ سیلاب اور مہنگی بجلی اس کے ناگزیر نتائج ہیں۔ سیلابی پانی نے پنجاب اور سندھ کو بربادکر دیا۔ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو ان دونوں آفتوں سے بچا جا سکتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ خشک موسموں میں ذخیرہ شدہ پانی ہمارے کام آتا اور ہم خشک سالی سے بھی بچتے۔
چلیں‘ کالا با غ نہیں بن سکا تو کوئی دوسرا ڈیم بن جاتا۔ مشرف صاحب نے دس برس ضائع کر دیے اور کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بھاشا ڈیم کا منصوبہ بنا۔ نواز شریف حکومت نے جگہ خریدی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اسے جاری رکھا۔ اتنا بڑا منصوبہ مگر تکمیل کے لیے وقت چاہتا ہے۔ پھر یہ کہ اپنی افادیت کے باوجود‘ یہ کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہے۔ خان صاحب نے چھوٹے ڈیم بنانے کی بات کی لیکن قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔
دوسرا مسئلہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں۔ یہ سیاسی عدم استحکام ہے جس نے معاشی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا۔ 2014ء سے ملک مسلسل حالتِ اضطراب میں ہے۔ اسباب بارہا زیرِ بحث آچکے۔ ان کو دُہرانا تحصیلِ حاصل ہے۔ جہاں معاشی سرگرمی نہیں ہوتی اور سماج مسلسل حالتِ احتجاج اور ہیجان میں رہتا ہے تو وہاں سے سرمایہ رخصت ہو جاتا ہے۔ سرمایہ پُرسکون ماحول چاہتا ہے جہاں اس کی افزائش کے لیے سازگار ماحول میسر رہے۔ میثاقِ معیشت کی بارہا بات ہوئی لیکن اِسے رَد کیا جاتا رہا۔ کرپشن کے نعرے سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کی کوشش معیشت کی عمارت کو ڈھا گئی۔ اس سے قرض پر انحصار بڑھا۔ اس انحصار نے ہماری دریوزہ گری میں مزید اضافہ کیا۔ آئی ایم ایف کی وہ شرائط بھی ہم نے مان لیں‘ عوام جن کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ کیسا المیہ ہے کہ ا سے بھی کامیابی سمجھا گیا کہ ان کڑی شرائط پر قرضہ تو ملا۔
حکومتی اکابر تین دن سر جوڑ کر بیٹھے مگرکوئی حل تلاش نہیں کر سکے۔ جب حل موجود نہیں تھا تو ملتا کیسے؟ بجلی چوری کے خاتمے کے لیے مضبوط ریاست چاہیے۔ وہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا جو بچی کھچی معیشت کو بھی لے ڈوبے۔ حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہتی ہے۔ ہم جانتے ہیں‘ اس کا جواب کیا ہو گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف کو ایک عام پاکستانی کی قوتِ خرید کے بارے میں علم نہیں؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ وہ سب جانتے ہیں۔ اس کے باوجود متبادل اقدامات کے بجائے بجلی کے نرخ کے اضافے ہی پر اصرار کیوں؟
یہی وہ سوال ہے جو معیشت کو سیاست سے جوڑ دیتا ہے۔ اسے پولیٹکل اکانومی کہتے ہیں۔ اب ایک طرف جمہوریت کے نام پر جلد انتخابات کا مطالبہ ہو گا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالا جا ئے گا۔ اگر ریاست حسبِ منشا جواب نہیں دے گی تو سماجی و سیاسی اضطراب میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں‘ ان کا کوئی لیڈر نہیں۔ بجلی کے نرخ میں اضافہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ہو سکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عالمی قوتیں ہمیں اسی مقام تک پہنچانا چاہتی ہیں؟
ریاست اور سماج کو مل کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے اور خود کو اس راستے پر نہیں ڈالنا جو بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے۔ سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک کُل جماعتی کانفرنس بلائے اور سیاسی جماعتوں کو کسی ایک میثاق پر متفق کرے۔ دوسرا یہ کہ تمام تجارتی تنظیموں کو بھی مدعو کرے۔ حکومت اپنی حدود ان کے سامنے رکھے اور ان سے پوچھے کہ ان کے پاس ان مسائل کا حل کیا ہے۔
ایک بات پر اتفاق ہونا چاہیے کہ احتجاج مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج کا کوئی جواز نہیں۔ اس کا آئینی مینڈیٹ محدود ہے اور یہ اس معاشی حکمتِ عملی کی ذمہ دار نہیں جس کے نتائج یہ قوم بھگت رہی ہے۔ اس وقت احتجاج کا مطلب عوام کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مل کر ملک کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش کریں۔ معاشی عمل کو جاری رکھنا اس وقت سب سے اہم ہے۔ اس کو سبو تاژ کرنے کا مطلب عوام کی معاشی مشکلات کو بڑھانا ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت بھی دکھائی یہ دیتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی نے خود کو اگر متبادل سیاسی قوت کے طور پر سامنے لانا ہے تو ہیجان پیدا کرنا اس کی حکمتِ عملی نہیں ہونا چاہیے۔ احتجاج کے لیے کوئی ہدف ہونا چاہیے۔ آج تو کوئی ہدف ہی نہیں۔ جماعت اسلامی اگر اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تو اسے عوام کو شعوری سطح پر مخاطب بنانا اور یہ بتانا ہوگا کہ کن معاشی پالیسیوں نے یہ دن دکھایا اور جماعت کے پاس کون سی متبادل معاشی حکمتِ عملی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کو مولانا مودودی کے افکار کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو شعوری تبدیلی کو حقیقی تبدیلی کی اساس قرار دیتے ہیں۔ احتجاجی سیاست مولانا کی حکمتِ عملی میں کہیں نہیں تھی۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے جماعت کو اس اسلوبِ سیاست سے روشناس کرایا لیکن یہ نتیجہ خیز نہ ہو سکا۔ اگر یہ نسخہ عمران خان صاحب کے لیے کارآمد ثابت ہوا ہے تو لازم نہیں کہ جماعت کے لیے بھی باعثِ شفا ہو۔
آج ہمیں انتخابات تک کا وقت گزارنا ہے۔ اس کے لیے استحکام لازم ہے۔ یہ معیشت کے حق میں بھی ہے۔ واحد راستہ یہی ہے کہ جو معیشت چل رہی ہے‘ اس وقت اسے چلنے دیں۔ یہ جان کر آگے بڑھنا ہوگا کہ موجودہ معاشی مسائل کا فوری حل موجود نہیں ہے۔