''خان کبھی ڈیل نہیں کرے گا‘‘۔
''نواز شریف ہمیشہ ڈیل کر کے ملک سے باہر گئے ہیں‘‘۔
''پیپلزپارٹی کسی ڈیل کی قائل نہیں‘‘۔
آپ نے یہ جملے اکثر سنے ہوں گے۔ جملوں کا درو بست بتا رہا ہے کہ کہنے اور سننے والے کے ہاں لفظ 'ڈیل‘ کا ایک مفہوم ہے اور وہ منفی ہے۔ اگر کسی کی جانب اس کا انتساب کیا جا رہا ہے تو یہ بتانے کے لیے کہ وہ کوئی اچھا آدمی نہیں۔ کسی کو اس سے محفوظ بتایا جا رہا ہے تو یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ایک عظیم آدمی ہے۔ لفظ کے اس مفہوم پر سب کا اتفاق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کی طرف اس کی نسبت کی جائے تو وہ اس کا برا مانتا ہے اور اس سے انکار کرتا ہے کہ اس نے کوئی ڈیل کی ہے۔ میں نے کسی کو ڈیل کا اعتراف کرتے نہیں سنا۔
'ڈیل‘ انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اپنے مفہوم میں یہ کسی منفی عمل کا بیان نہیں۔ یہ دو افراد یا گروہوں کے مابین ایک معاہدے یا معاملے کا نام ہے۔ 'بارگین‘ کا لفظ بھی کم و بیش یہی مفہوم رکھتا ہے۔ الفاظ کا معاملہ مگر یہ ہے کہ ان کے معانی کا تعین لغت سے نہیں‘ استعمال سے ہوتا ہے۔ ہماری سیاست میں یہ لفظ کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب اپوزیشن میں بیٹھا سیاستدان‘ برسرِ اقتدار گروہ سے کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اسے بزدلی شمار کیا جاتا ہے۔ لیڈر کا بہادر دکھائی دینا ضروری ہے۔ اس لیے سیاستدان ڈیل سے گریز کرتے ہیں اور اگر کرنا پڑے تو اسے چھپاتے ہیں۔ یہ لگ بات ہے کہ بعد میں جب کوئی اسے طشت از بام کرتا ہے تو منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔
لفظ کے اس تاثر کے باوصف‘ ہر سیاستدان ڈیل کرتا ہے۔ اعلانیہ بھی اور خفیہ بھی۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اگر کوئی اخلاقی اصول پامال نہ ہو‘ اس میں کوئی حرج نہیں۔ سیاست نام ہوتا ہے راستہ نکالنے کا۔ ڈیل سے راستے نکلتے ہیں۔ ڈیل نہ کرنا ہمیشہ عزیمت نہیں ہوتا۔ کبھی حماقت بھی قرار پاتا ہے۔ اگر ایک سیاستدان یہ سمجھتا ہے کہ برسرِ اقتدار گروہ سے دو سال سیاست سے باہر رہنے کا معاہدہ کر کے‘ اپنی سیاست کو مکمل بربادی سے بچایا جا سکتا ہے یا ملک کو کسی بند گلی سے نکالا جا سکتا ہے تو یہ ڈیل ایک مثبت عمل ہو گا۔ یہ کمزوری نہیں‘ سیاست ہے۔
عام آدمی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ شدید مخالفت کے باوجود‘ ہمیشہ متحارب گروہوں میں پسِ پردہ ایک رابطہ ہوتا ہے۔ ماضی میں یہی ہوتا تھا۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ آج لوگ بتاتے ہیں کہ جنرل فیض حمید جب نواز شریف صاحب کے خلاف‘ جال بُن رہے تھے‘ تب بھی ان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ آج بھی سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے کون ہے جو عمران خان صاحب اور برسرِ اقتدار گروہ کے مابین رابطہ کار ہے۔ یہی رابطے ہیں جو اکثر کسی ڈیل پر منتج ہوتے ہیں۔
ہمارا زاویۂ نظر کچھ اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ اس میں ہٹ دھرمی اور عزیمت کا فرق باقی نہیں رہا۔ سیاست پر لکھنے والے بھی ہمیشہ ڈیل جیسے سیاسی عمل کی نفی کرتے رہے ہیں اور ان کرداروں کو گلیمرائز کرتے ہیں جنہوں نے تصادم کا راستہ اختیار کیا اور انہیں مطعون کیا گیا جنہوں نے ڈیل کی۔ بھٹو صاحب نے ڈیل نہیں کی مگر بینظیر بھٹو صاحبہ نے دو بار کی۔ ایک بار جنرل اسلم بیگ کے ساتھ اوردوسری بار جنرل پرویز مشرف کے ساتھ۔ میرا احساس ہے کہ بینظیر صاحبہ کے فیصلے درست تھے۔ یہ الگ بات کہ اس کے باوصف وہ ایک المناک انجام سے دوچار ہوئیں۔ ان کی شہادت پر آصف زرداری صاحب نے بھی اس نظام کے ساتھ ڈیل کی اور اسی میں ملک و قوم کے لیے خیر تھا۔
اگر معرکہ حق و باطل کا ہے تو پھر عزیمت ہی کا راستہ اپنانا چاہیے۔ حق کی شر کے ساتھ ڈیل‘ ڈیل نہیں ہوتی۔ لیکن اگر دنیا کے معاملات ہیں‘ تو وہاں ڈیل اکثر بصیرت کا پہلا تقاضا بن جاتی ہے۔ سیاست میں کبھی مثالی حل نہیں ہوتے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ موجود راستوں میں سے کون سا راستہ بہتر ہو سکتا ہے۔ جس میں ملک و قوم کا نقصان کم ہو اور آپ کا بھی۔ سیاست کی روح یہ ہے کہ امکانات کی دنیا میں رہا جائے۔ جذباتی کہانیوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
شہادت اور تصادم جیسے تصورات انقلابی نظریاتی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوئے۔ اشتراکیوں نے پہل کی اور پھر اسلام پسندوں (Islamists) نے ان کی تقلید کی۔ جو لوگ ان تحریکوں کے اثرات سے محفوظ رہے انہوں نے سیاسی عمل کو اس کے فطری دائرے میں دیکھا اور سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنایا۔ اس ضمن میں برصغیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ نے یہاں بھی انقلابی سیاست نہیں کی۔ جو سیاسی حل سامنے آئے‘ ان میں اپنا مؤقف پیش کیا۔ یہاں تک کہ تقسیمِ ہند کے باب میں اگر کیبنٹ کمیشن نے ایک تجویز پیش کی تو اسے بھی قبول کر لیا۔ یہ بھی ایک طرح کی ڈیل تھی۔
ان انقلابی تحریکوں نے صحافت پر بھی اثر ڈالا اور سیاسی تجزیے بھی اسی اسلوب میں ہونے لگے۔ اہلِ صحافت بھی ان لوگوں کو گلیمرائز کرتے ہیں جو ڈیل نہیں کرتے۔ جو سیاست کو مفاہمت سے عبارت سمجھتے ہیں‘ انہیں ناپسندیدہ کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی کے زیرِ اثر ڈیل اب اتنی بری چیز قرار پائی ہے کہ اعلانیہ کرتے وقت لوگ شرماتے ہیں۔ خفیہ مذاکرات کرتے ہیں اور انہیں چھپاتے ہیں۔ ان کا چھپانا اس بات کو اظہار ہے کہ وہ بھی اصلاً اسے ایک بری شے سمجھتے ہیں۔ جیسے ان کے دل میں کوئی چور ہے۔ فرض کریں کہ آج تحریک ا نصاف اعلان کر دے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ سے بھی مذاکرات کر رہی ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ برائی ایک عمل اس وقت بنتا ہے جب آپ اسے چھپاتے ہیں۔
میں کل ہی سوشل میڈیا پر ایک معروف صحافی سے منسوب ایک روایت پڑھ رہا تھا۔ یہ صاحب عمران خان کے عشاق میں سے ہیں۔ انہوں نے 'خبر‘ دی ہے کہ خان صاحب کو ایک ڈیل کی پیشکش ہوئی ہے۔ انہیں رہا کر دیا جا ئے گا۔ جلسوں وغیرہ کی اجازت ہو گی۔ 2026ء کے وسط میں انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ جواب میں خان صاحب کو دو کام کرنے ہیں۔ اس نظام کو چلنے دینا ہے اور اس کے خلاف دھرنا نہیں دینا۔ صحافی نے فخر سے بتایا کہ خان صاحب نے انکار کر دیا۔ قطع نظر کہ اس خبر میں کتنی صداقت ہے‘ سوال یہ ہے کہ اتنی اچھی ڈیل کو رد کرنا کیا سیاست ہے؟ اگر عوام کو مروائے بغیر اور ملک و قوم کو کسی آزمائش میں ڈالے بغیر‘ وقت سے پہلے انتخابات مل رہے ہیں تو اس پیشکش کو جھٹلانا کیا بصیرت کی نشانی ہے؟ اب دوسرا راستہ کیا ہوگا؟ احتجاج؟ اس سے جلد انتخابات ملنے کا امکان ختم ہو جائے گا اور ملک کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ مداحوں کا سر البتہ اونچا ہو جائے گا کہ دیکھو خان نے ڈیل نہیں کی۔
جب سیاسی حرکیات سے بے خبر لوگ سیاست اور میڈیا کا رخ کرتے ہیں تو سماج کو کیسی کیسی غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ سیاست جو سر تا پا حقیقت پسندی سے عبارت ہے‘ اسے ایک رومانوی تصور بنا دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے یہی سلوک تاریخ کے ساتھ کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج تک ہم اس تاریخ سے نعرہ بازی اور سطحی جذبات کے سوا‘ کوئی بصیرت افروز سبق کشید نہیں کر سکے۔