مسلمانوں کے سوادِ اعظم میں کمیونٹی کا تصور کیوں مستحکم نہیں ہو سکا؟
اسماعیلی کمیونٹی کے نئے حاضر امام شاہ رحیم الحسینی آغا خان پنجم نے اپنے پیروکاروں کے لیے ایک پیغام جاری کیا ہے۔ پہلے یہ پیغام پڑھیے: ''دنیا مشکل حالات سے گزر رہی ہے‘ جو کچھ عرصے تک ایسے رہنے کا امکان ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ نئی زبانیں اور ہنر سیکھیں تاکہ مشکل وقت کا مقابلہ کر سکیں۔ اچھی تعلیم حاصل کریں‘ کریٹیکل تھنکنگ کی عادت اپنائیں اور اپنے مستقبل کے لیے اچھے فیصلے کریں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور فوسل فیول پر انحصار کم کریں۔ جن ممالک میں رہتے ہیں اُن کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور engaged citizenship کا اصول اپنائیں۔ معذور افراد اور بزرگ عمر کے افراد کا خاص خیال رکھیں اور انہیں اپنے ساتھ شامل کریں۔ ایک خاندان میں مختلف عقائد رکھنے والے افراد کے عقائد کا احترام کریں اور انہیں مناسب مقام دیں۔ جماعت خانوں کو عبادت کے ساتھ ملنے جلنے کے مراکز بنائیں‘ جہاں بچوں اور بزرگوں کے رابطے ممکن ہوں اور مختلف سرگرمیاں ہوں۔ اپنے دین اور دنیا میں برابری پیدا کریں اور ایک کے لیے دوسرے کو ترک نہ کریں‘‘۔
اس پیغام میں ایک پیغام مستور بھی ہے۔ یہ ایک کمیونٹی لیڈر کا وژن ہے۔ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ ایک مذہبی وسماجی راہنما اپنی قوم یا قبیلے کی کس رُخ پہ پیش قدمی چاہتا ہے۔ وہ اس کی کس طرح تربیت کر رہا ہے۔ وہ اس میں کیا اوصاف دیکھنا چاہتا۔ یہ کوئی نادر خیال نہیں۔ ہر کمیونٹی لیڈر اسی طرح خود سے وابستہ افراد کو دیکھتا اور ان کے لیے ایک لائحہ عمل متعین کرتا ہے۔ ویٹی کن سے مسیحی قیادت بھی اسی طرح کا آوازہ لگاتی ہے۔ وہ اپنے مذہبی پیروکاروں کو سماجی طور پر مفید بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ذات اور کمیونٹی کے لیے فائدہ بخش ہوں بلکہ عالمِ انسانیت کے لیے بھی باعثِ خیر ہوں۔
مرکزی دھارے کی مسلم کمیونٹی میں‘ مجھے اس نوعیت کی کوئی قیادت دکھائی دیتی ہے نہ تنظیم۔ مسلمانوں کے دو بڑے گروہ ہیں۔ سنی اور اثنائے عشری شیعہ۔ ان کے ہاں دو طرح کی تنظیمیں ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسری مسلکی۔ یہ اپنے مسلک کی خدمت اور بقا کے لیے جمع ہو تے ہیں یا سیاسی انقلاب کے لیے۔ ان کے ہاں اجتماعی سطح پر جو افکار پیش کیے گئے‘ وہ بھی سیاسی نوعیت کے ہیں۔ یہ اس لیے منظم ہوتے ہیں کہ کہیں اسلامی انقلاب برپا کریں یا امریکہ وغیرہ کو برا بھلا کہیں۔ یہ بات کہ کمیونٹی سطح پر کوئی تنظیم ہو یا اپنے لیے اور عالمِ انسانیت کے لیے بیک وقت خیر کا باعث ہو‘ اس طرح کا کوئی مقصد ان کے پیشِ نظر نہیں۔ اس سے ہٹ کر اگر کچھ ہے تو انفرادی اصلاح کی تحریکیں ہیں جیسے تبلیغی جماعت۔
آپ رحیم الحسینی صاحب کی نصیحت پر نظر ڈالیں تو اس سے آپ کو قیادت کے وژن کا اندازہ ہوگا۔ ایک طرف وہ ا پنی کمیونٹی کو ماحولیات جیسے مسائل پر حساس بنا رہے ہیں اور دوسری طرف انہیں یہ نصیحت بھی کر رہے ہیں کہ وہ جس ملک میں رہیں‘ وہاں کے قانون کا احترام کریں۔ چونکہ یہ لوگ صاحبانِ وسائل ہیں‘ اس لیے یہ اپنے آپ کو ہر معاشرے کے لیے قابلِ قبول بنا لیتے ہیں۔ یہ ایسی خوبی ہے جو آج کے کثیرالمذاہب معاشروں کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کمیونٹی کے لوگ جہاں رہتے ہیں‘ دوسروں کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتے۔ اسی سبب سے لوگ بھی ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے دو مرکزی دھاروں اہلِ سنت اور اثنائے عشری شیعہ میں مجھے اس نوعیت کا کوئی رجحان دکھائی نہیں دیتا۔ سنیوں میں تو خیر قیادت کی سطح پر کوئی مرکزیت نہیں مگر اہلِ تشیع کا معاملہ مرکزیت ہونے کے باوصف‘ اہلِ سنت سے مختلف نہیں۔ مثال کے طور پر تہران یونیورسٹی میں نمازِ جمعہ کا بڑا اجتماع ہوتا ہے جس سے اکثر آیت اللہ خامنہ ای خطاب کرتے ہیں۔ یہ محض سیاسی خطابت ہوتی ہے۔ شیطانِ بزرگ کے ذکر سے بات شروع ہوتی ہے اور شیطانِ صغیر پر ختم ہوتی ہے۔ اس میں ایران کی مسلم کمیونٹی کے لیے کوئی پیغام نہیں ہوتا۔ اہلِ سنت میں مرکزیت نہیں لیکن ان کی جماعتیں موجود ہیں۔ ان کی ترجیح بھی نظامِ خلافت کا قیام اور اسلامی انقلاب ہے۔ نظامِ معاشرت ان کی ترجیحات میں کہیں نہیں۔
مسلم دنیا میں مجھے انڈونیشیا کا استثنا دکھائی دیتا ہے جس کا میں بارہا ذکر کر چکا۔ وہاں کی مسلم تنظیمیں کمیونٹی کی تعمیر پر توجہ دیتی ہیں۔ ان کی ترجیح عوام کی اخلاقی تربیت اور ان کا سماجی کردار ہے۔ ترکیہ میں فتح اللہ گولن نے یہی کام کیا جسے بدقسمتی سے برباد کر دیا گیا۔ اس بربادی میں کردار اسی سیاسی سوچ کا ہے جو کسی دوسرے پہلو سے معاملات کی تفہیم کا سلیقہ نہیں رکھتی۔ تیونس کے راشد غنوشی کو بھی اس کا ادراک ہوا اور انہوں نے سیاسی جدوجہد کو سماجی تعمیر سے الگ کر دیا۔ اس شاخ پر مگر برگ وبار ابھی تک نہیں آئے۔
اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں لوگوں کی سماجی تربیت کا اہتمام ہو۔ 'شعور‘ پیدا کرنے کے بے معنی اور بے ربط تصورات کو معنویت دی جائے۔ شعور کا مطلب معاشرے کے لیے ایک بہتر انسان ثابت ہونا ہے۔ اپنی سماجی ذمہ داریوں کے بارے میں حساس ہونا ہے۔ اس کے ساتھ یہ سمجھنا ہے کہ ناسازگار حالات میں کیسے اپنی بقا کا سامان کیا جاتا ہے۔ برصغیر کے جدید مفکرین میں دو شخصیات ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں اس بات کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اچھا مسلمان ہونے کا مطلب اپنے سماج کے لیے باعثِ خیر ہونا ہے۔ اسی طرح ناموافق حالات میں اپنی بقا اور سلامتی کے اسباب تلاش کرنا بھی ان کی تعلیم کا حصہ ہے۔ یہ ہیں مولانا وحید الدین خان اور جاوید احمد غامدی۔
مولانا وحید الدیں خان نے تو مسلم مزاج کی تشکیلِ نو کو اپنا اصل کام بنایا۔ انہوں نے اس حوالے سے معرکہ آرا کتابیں لکھیں۔ جیسے رازِ حیات۔ رازِ حیات فنی اعتبار سے مذہب کی کتاب نہیں۔ اس میں مذہبیت اتنی ہی ہے کہ ایک عالمِ دین کے قلم سے نکلی جس سے کوئی بھی استفادہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے بھارت کے مسلمانوں کو سکھایا کہ انہوں نے ہندو اکثریت کے ملک میں کیسے اپنے مفادات کی حفاظت کرنی ہے۔ یہی بات انہوں نے فی الجملہ سکھائی کہ اس دنیا میں کیسے مثبت سوچ کے ساتھ جینا چاہیے۔
یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح کے جتنے مفکر پیدا ہوئے‘ اپنوں کی طرف سے ان کا استقبال گالیوں کے ساتھ کیا گیا۔ ان پر الزامات لگائے گئے۔ انہیں دوسروں کا ایجنٹ کہا گیا۔ سرسید جیسا آدمی بھی اسی سلوک کا مستحق ٹھیرا جس نے نبی کریمﷺ کے دفاع میں کتاب لکھی تو گھر کے برتن تک بیچ ڈالے۔ انہیں انگریزوں کا ایجنٹ بتایا گیا۔ یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ انہوں نے اپنی ذات کے لیے انگریزوں سے کیا لیا۔ یہی معاملہ مولانا وحید الدین خان جیسے لوگوں کا ہے جنہوں نے ایک درویش اور دنیا سے بے نیاز آدمی کی زندگی گزاری۔
مسلمانوں کے اکثریتی گروہوں کی قیادت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ وہ مسلم کمیونٹی میں کیسے وہ اوصاف پیدا کریں جس میں سماجی تعمیر مسلمانوں کا مطمح نظر بنے۔ ان کا سماجی رویہ دوسروں سے بہتر ہو۔ دیگر مذاہب کے لوگ اس میں خوشی محسوس کریں کہ ایک مسلمان ان کا ہمسایہ ہے۔ ان کا وجود سب کے لیے نافع ہو۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے رحیم الحسینی صاحب کی نصیحت میں بہت کچھ ہے۔