"KNC" (space) message & send to 7575

کیا یہ گورننس ہے؟

گورننس کیا ہے؟
شہر میں کوئی مہمان آئے تو سارے شہر کے راستوں کو بند کر کے بلامبالغہ ہزاروں افراد کو گھنٹوں سڑکوں پر رسوا ہونے پر مجبور کر دیا جائے؟
کوئی میچ ہو تو سڑکوں پر پہرے بٹھا دیے جائیں تاکہ کوئی شہری حرکت نہ کر سکے اور بازاروں کو بند کر دیا جائے؟
کسی جلسے جلوس کا شائبہ بھی ہو تو حفظِ ماتقدم کے طور پر راستوں میں کنٹینر لگا دیے جائیں اور عام آدمی کے لیے ایک میل کا فاصلہ دس میل تک بڑھا دیا جائے؟
عجلت میں اربوں روپے کے پل اس طرح بنائے جائیں کہ ٹریفک کا مسئلہ جوں کا توں رہے؟
عقلِ سلیم کبھی اس طرزِ حکومت کی تحسین نہیں کر سکتی۔ کون سا ملک ہے جہاں مہمان نہیں آتے۔ کہاں کھیلوں کے میدان نہیں سجتے؟ کس ملک میں جلوس برآمد نہیں ہوتے؟ مانا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے مگر یہ خطرہ دوسرے ممالک کو بھی درپیش رہا۔ کیا امریکہ اس سے دوچار نہیں ہوا؟ کیا برطانیہ نہیں ہوا؟ کیا وہاں کی حکومتوں نے اسی طرح اپنے شہریوں کے لیے زندگی کو اجیرن بنایا؟ ایک عام شہری کے طور پر مجھے آئے دن یہ احساس ہوتا ہے کہ گورننس کا یہ ماڈل پوری طرح ناکام ہو چکا۔ لازم ہے کہ کسی نئے ماڈل پر کام کیا جائے۔
اس کے لیے لازم ہے کہ اس کام کو صرف بیوروکریسی پر نہ چھوڑا جائے۔ اس میں سول سوسائٹی اور عوامی نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر یہ طے کیا جائے کہ ہم نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنائے بغیر اپنے مہمانوں کا ستقبال کرنا ہے۔ کھیل کے مقابلوں کا اہتمام کرنا ہے۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر مشاورت کا دائرہ پھیلے تو ان مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ انتظامیہ تو زبانِ حال سے بتا چکی کہ اس کے پاس شہر اور سڑکوں کو بند کرنے کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں۔
میں ایک بار امریکہ کے شہر سالٹ لیک سٹی میں تھا۔ صبح ہوٹل کے کمرے میں ایک اخبار ملا‘ جو مقامی تھا۔ میں نے ورق گردانی کی تو مجھے ایک اشتہار دکھائی دیا۔ یہ شہر کی انتظامیہ کی طرف سے تھا۔ اس میں شہر کے مذبح خانے کی دوسرے مقام پر منتقلی کے بارے میں ایک مشاورتی اجلاس کے انعقاد کی اطلاع دی گئی تھی۔ عام شہریوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اس اجلاس میں شریک ہوں تاکہ ان کی مشاورت سے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ یہ اشتہار میرے ذہن میں محفوظ رہ گیا۔ یہ گورننس کا ایک ماڈل ہے۔ شہر میں مقامی حکومت ہے جہاں لوگوں کے مشورے سے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ جب وہ شریکِ مشاورت ہوں گے تو حکومت اور عام شہریوں میں ایک ہم آہنگی وجود میں آئے گی اور یوں شہر پُر سکون رہے گا۔
ہمارے ہاں حکمرانی کا جو ماڈل ہے اس میں شراکت کو حرام سمجھا جاتا ہے۔ ہم مرکزیتِ اقتدار کے قائل ہیں۔ اٹک سے صادق آباد تک ایک انتظامی یونٹ ہے۔ صرف پنجاب کا صوبہ دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے۔ مؤثر حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ اسے متعدد انتظامی اکائیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مقامی حکومتیں ہوں‘ جہاں عام آدمی بھی فیصلہ سازی میں براہِ راست شریک ہو۔ ہمارے ہاں وعدے کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے کہ کہیں دوسرے اختیار میں شریک نہ ہو جائیں۔ موجودہ ماڈل میں بیوروکریسی مرکزِ اختیارات ہے اور مقامی سطح پر عوامی نمائندے اس نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کا کردار محض اتنا ہے کہ اپنے ووٹرز کی من پسند جگہ پر تعیناتی کے لیے ڈی سی اور اے سی صاحب کو سفارش کر دیں۔
اسلام آباد میں تو بیوروکریسی ہی سب کچھ ہے۔ عام آدمی غیر متعلق ہے۔ وہ کسی فیصلے میں شریک نہیں۔ نہ کوئی پُل اس کی مشاورت سے بنتا ہے اور نہ سڑکیں اس کی ضرورت کے لیے بند کی جاتی ہیں۔ اسے تو یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی کہ فلاں راستے پر نہ جاؤ‘ وہ بند ہے۔ وہ تین چار کلو میٹر کا سفر بلاوجہ کرتا‘ پٹرول اور وقت ضائع کرتا‘ اپنا فشارِ خون بلند کرتا اور واپس لوٹ آتا ہے۔ یہ سنی سنائی نہیں‘ آپ بیتی ہے۔ یہ جگ بیتی بھی ہے کہ ہر کسی کو شکوہ کرتے ہی سنا۔ عوام کی ناپسندیدگی حکومت کے حصے میں آتی ہے کیونکہ بیوروکریسی کا عوام کی پسند ناپسند سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی عوام دوست بیوروکریٹ اگر اپنے طور پر عوام کی خیر خواہی کا سوچے تو یہ استثنا ہے۔ جیسے موجودہ وفاقی سیکرٹری تعلیم ہیں۔ وہ سرکاری سکولوں کا معیار بلند کر نے کے لیے دن رات لگے رہتے ہیں تاکہ انہیں امرا کے بچوں کے لیے قائم سکولوں سے بہتر بنایا جائے۔ انہیں شہر کے امرا سے بجا طور پر شکوہ ہے کہ وہ اسلام آباد کے پوش علاقوں میں اربوں کے گھروں میں رہتے ہیں مگر اسی سیکٹر میں موجود سرکاری سکولو ں پر ایک پیسہ خرچ کرنے پر آمادہ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگرفیصلہ سازی میں شہریوں کی شمولیت کا اہتمام ہو تو یہ شکایت دور ہو سکتی ہے۔
ہمار انام نہاد پڑھا لکھا طبقہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ عقلِ کُل ہے۔ عام آدمی کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ امورِ دین و دنیا سے واقف نہیں۔ یہ سوچ دین کے علما میں ہے اور دنیا کے علما میں بھی۔ فقہ کی تشکیل میں عام آدمی کو شریک کیا جاتا ہے نہ دنیاوی مسائل میں۔ یہ خام خیالی ہے۔ بصیرت ایک عطیۂ خدا وندی ہے جس کا رسمی تعلیم سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ قانون کا اطلاق عام آدمی پر ہوتا ہے۔ وہی بتا سکتا ہے کہ کون سا قانون کس حد تک قابلِ عمل ہے۔ اکثر قوانین کی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اس میں عام آدمی کا فہم شامل نہیں ہوتا۔ وہ ان لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں جنہیں اس کے مضمرات کا نہ تو علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کا مخاطب ہوتے ہیں۔ فقہی قوانین کا معاملہ یہی ہے اور دنیاوی قوانین کا بھی۔
ہم نے دہشت گردی کا سامنا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہم نے باہر کی ٹیموں کو بلوانا ہے اور ریاست کے مہمانوں نے بھی آنا ہے۔ ہمیں ان امور کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا گورننس کا ماڈل چاہیے جو عام آدمی کے مفادات اور سہولت کو سامنے رکھ کر بنایا جائے۔ راستے بند کر دینا کوئی قابلِ عمل حل نہیں ہے۔ اس سے عام آدمی کے لیے زندگی مشکل بنا دی جاتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ چند سو افراد جمع ہو جائیں تو پورے شہر کا نظام تہ و بالا ہو جاتا ہے۔ یہ انتظامی کامیابی نہیں‘ ناکامی ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے۔
اصولی طور پر اس کے لیے اختیارات کی تقسیم ناگزیر ہے۔ انسانی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انتظامی اکائی جتنی چھوٹی ہو گی‘ قانون کی حکمرانی اتنی ہی مؤثر ہو گی۔ عملاً گورننس کا یہ ماڈل کیسا ہو‘ اس پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ عام فورمز اور میڈیا پر بحث ہونی چاہیے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب قوم اور ریاست سیاسی جوڑ توڑ سے نکلیں۔ عام آدمی ان مسائل کو اہمیت دے جن کا تعلق روز مرہ معاملات سے ہے اور ریاست سے بھی۔ پنجاب کی حکومت نے ناجائز تجاوزات کے خلاف اقدام کا آغاز کیا ہے جو قابلِ تحسین ہے۔ ہمیں اس وقت گورننس کا ایسا ماڈل چاہیے جس میں تجاوزات جیسے مسائل مقامی سطح پر حل ہوں۔ تعلیم جیسے مسائل بھی مقامی سطح پر موضوع بنیں۔ اس کے لیے بلدیاتی اداروں کو فعال بنانا ضروری ہے۔ یہ تقسیمِ اختیارت کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ اس کے بعد ایسے فورمز فعال ہوں جس میں عوام فیصلوں میں براہِ راست شریک ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں