ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ
علامہ اقبال کا یہ شعر‘ نہیں معلوم کیوں کچھ دنوں سے بہت یاد آ رہا ہے۔ بے ساختہ لبوں سے جاری ہو جاتا ہے۔
انسانی نفسیات کے عالم کہتے ہیں کہ تحت الشعور میں پیوست کوئی واقعہ‘ کوئی خیال‘ جب اظہار چاہتا ہے تو حواس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھر زبان اس کی مرضی سے حرکت کرتی ہے۔ کان وہی سنتے ہیں جو وہ سناتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب خارجی عوامل اس خیال کو اظہار کا موقع دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ جبر ہے جو لازم نہیں کہ اظہارِ رائے پر پابندی ہی ہو۔ اخلاقی جبر‘ کوئی سمجھے توسب سے بڑا جبر ہے۔ کذب برہنہ ہوکر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے مگر کوئی اخلاقی تقاضا زبان پر تالا لگا دیتا ہے۔ ایسا واقعہ بادلِ ناخواستہ‘ شعور کی سطح سے اترتا اور تحت الشعور میں جا مقیم ہوتا ہے۔ یہ جب پھر سے شعور کا حصہ بننا چاہتا ہے تو بے ساختہ‘ روپ بدل بدل کر‘ حواس کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ایک روپ شعر بھی ہے۔ اس شعر نے زندگی کی کئی بھولی بسری یادوں کو زندہ کر دیا۔
میرے والدِگرامی ہم بہن بھائیوں کی صحبت کے بارے میں بہت حساس تھے۔ انہوں نے ہر ایسی صحبت سے ہمیں دور رکھا جس کے بارے میں انہیں اندیشہ تھا کہ اخلاقی رزائل پیدا کر سکتی ہے۔ مجھے اس نو عیت کی ایک مجلس بہت یاد آتی ہے‘ میں ان سے آنکھ بچا کر جس میں کبھی کبھار جا نکلتا تھا۔ یہ آبادی سے باہر‘ ایک جوہڑ کے کنارے برگد کے ایک پیڑ تلے منعقد ہوتی تھی۔ ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ گرمی میں دوپہرکو زمین میدانِ حشر بن جاتی تھی۔ 'صبح کرنا شام کا‘ جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ مردوں نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ وہ اس برگدکے نیچے تاش لے کر بیٹھ جاتے۔ کئی ٹولیاں بن جاتیں۔ یہاں ہر طرح کے لوگ ہوتے۔ جیت ہار پہ شور اٹھتا۔ یہ جوا نہیں تھا‘ محض وقت گزاری کا ایک مشغلہ تھا۔ مجھے بچپن میں یہ سب اچھا لگتا مگر ہمارے والد کا خیال تھا کہ یہ صحبت مضرِ اخلاق ہے۔ تاش کھیلنا ویسے بھی شرفا کے ہاں ممنوع اور شیطانی اعمال میں شمار ہوتا ہے۔ مولانا مودودی سے کسی نے پوچھا: کیا تاش کھیلنا حرام ہے؟ فرمایا: 'کم از کم حلال بھی نہیں ہے‘۔ مجھے اُس وقت اس مجلس سے دور رہنے کا بہت قلق ہوتا تھا‘ جیسے ٹی وی پہ کوئی دلچسپ ڈراما چل رہا ہو اور آپ کو اس کو دیکھنے سے روک دیا جائے۔
ان صحبتوں میں اگر میں بکثرت اٹھتا بیٹھتا تو میرے اخلاق پہ کیا اثر پڑتا؟ میں نہیں جانتا لیکن اس کا ایک نتیجہ ضرور نکلا کہ میں زندگی کی بہت سی عملی مہارتیں بروقت نہیں سیکھ سکا۔ انسانی مزاجوں کا تنوع ناقابلِ فہم رہا۔ اس سے عملی زندگی میں مشکلات پیش آئیں۔ یہ سب باتیں اُس وقت سمجھ میں آئیں جب بالوں میں چاندی اُتر آئی۔ ایسی صحبتوں سے الگ رہ کر فوائد کیا ملے‘ کبھی شمار نہیں کیے۔ یہ ضرور ہوا کہ زندگی کے کئی برس ایسے گزر گئے جن میں مہینے کا پڑاؤ تھا نہ دن کا۔ اٹھارہ سال میں اٹھائیس کے ہو گئے۔ یہ دوسروں سے سنا کہ عمرِ رواں میں ایک دور ایسا بھی آتا ہے جسے جوانی کہتے ہیں اور اس سے کچھ دلفریب کہانیاں جڑی ہوتی ہیں۔ دیکھیے یہ جوانی کب آتی ہے۔ پچاس پچپن برس تک تو آئی نہیں۔ اس تقویم کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آدھ کے سوا‘ کسی ہم عمر سے دوستی نہ ہو سکی۔ ہمیشہ یہی خیال رہا: اب بچوں سے کیا دوستی!
خدا نے والد صاحب کی اس احتیاط کو اس طرح ثمربار کیا کہ اِس عہد کے چند بے مثل لوگوں کی صحبت نصیب کر دی۔ ہمیں بچپن میں بڑے لوگوں کی کہانیاں سنائی گئیں اور یہ بتایا گیا کہ بڑائی کا معیار علم ہے یا اخلاق۔ اگر دونوں جمع ہو جائیں تو نورٌ علیٰ نور۔ سچ یہ ہے کہ یہ کردار کتابوں کے صفحات ہی میں قید دیکھے۔ بچشمِ سر دیکھنے کی حسرت ہی رہی۔ دل مگر یہ کہتا تھا کہ نبوت کا باب بند ہوا ہے‘ علم اور نیکی کا نہیں۔ یہ تو اللہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کی مجلس میں بیٹھنے والی جماعت نیکی کے اس درجے پر تھی کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے۔ اللہ نے قرآن ہی نہیں تورات وانجیل میں ان کی سجدوں سے مزین پیشانیوں کا ذکر کیا۔ یہ بتایا کہ ایسے لوگ بعد والوں میں بھی ہوں گے۔ اس لیے دل کہتا تھا کہ یہ لوگ ہیں تو ایک دن ضرور ملیں گے۔ پھر وہ 'دن‘ آ ہی گیا۔ ملے تو دو چار ہی مگر مل گئے۔
1988ء میں جب میں کم وبیش بائیس برس کا تھا‘ پہلی بار میرے کانوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کا نام سنا۔ میرے بڑے بھائیوں جیسے دوست منیر احمد خلیلی صاحب نے مجھے پڑھنے کیلئے ''ماہنامہ اشراق‘‘ کا ایک شمارہ دیا۔ اس میں جاوید صاحب کا مضمون 'دبستانِ شبلی‘ پڑھا اور پھر اس کی گرفت سے نکل نہیں سکا۔ یہ مضمون وسیلہ بنا اور اللہ تعالیٰ مجھے ان کی صحبت میں لے گیا۔ میں کم وبیش دو برس ایک طرح سے ان کے گھر کا فرد بن کر رہا۔ ان کے ظاہر وباطن کو دیکھا۔ آج تک دیکھتا چلا آ رہا ہوں۔ میں نے بچشمِ سر دیکھ لیا کہ بڑا آدمی کیسا ہوتا ہے۔ جاوید صاحب نے کسی ابتدائی نشست ہی میں ایک بار یہ کہا کہ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی اگر بڑے لوگ ہیں تو اس کی وجہ صرف علم نہیں‘ اس علم سے ہم رکاب ان کا اعلیٰ اخلاق بھی ہے۔ میں نے ان سے سیکھا کہ مسلم تہذیبی روایت میں علم‘ اخلاق سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ آج بھی جب میں کسی علمی نکات بکھیرنے والے کو بداخلاق اور بدتمیز پاتا ہوں تو دل اُسے عالم ماننے میں متردد ہوتا ہے۔ جاوید صاحب کو میں نے علم اور اخلاق کا نمونہ پایا۔ انہوں نے جن حالات میں اور جیسے اپنا ادارہ بنایا‘ اس کے عینی شاہد ابھی زندہ ہے۔ بعد کے مراحل کا میں بھی گواہ ہوں۔ کسی حکومت سے اس ادارے کے لیے ایک پیسہ نہیں لیا گیا۔ صدر فاروق لغاری نے المورد کے لیے سر کاری پلاٹ کی پیشکش کی مگر اسے قبول نہیں کیا گیا۔ کسی غیر ملکی ڈونر سے المورد کے لیے ڈونیشن نہیں لی گئی‘ حالانکہ پاکستان کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ عبادات اور معاملات میں مَیں نے انہیں ہمیشہ قابلِ رشک پایا۔
پھر اللہ نے مجھے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم کی صحبت عطا فرمائی۔ ان کے ساتھ بھی کم وبیش پچیس برس گزرے۔ علم واخلاق کا یہ دوسرا اجتماع ہے جسے میں نے اتنے قریب سے دیکھا۔ میں نے ان کو بھی جاوید صاحب کی طرح مناصب اور روپے پیسے سے بے نیاز پایا۔ میں اس بات کا براہ راست علم رکھتا ہوں کہ انہیں یونیورسٹی اور حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے معذرت کی اور پھر ان کی سفارش پر ایک دوسری شخصیت کو یہ مناصب دے دیے گئے۔ تادمِ مرگ میرا ان سے ساتھ رہا۔ وہ اسلام آباد کے پوش علاقے‘ ایف سیون میں اپنے مکان میں رہتے تھے۔ میرے حاشیہ خیال میں بھی کبھی یہ نہیں آیا کہ امریکی امداد کے بغیر وہ یہ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ میں اگر ایسا سوچتا تو آج اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں کسی بدی کا گمان ہی مجھے گناہ محسوس ہوتا ہے۔ جاوید صاحب اور انصاری صاحب ان میں سے ہیں۔
میں اسے اپنی ذات پر اللہ کے عظیم ترین احسانات میں شمار کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اسے لوگوں کی صحبت عطا فرمائی۔ کاش میں ان کی طرح بن سکتا۔ ان کے علم اور اخلاق سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا۔ تاہم اگر میں آج علم واخلاق کی اہمیت کو سمجھتا ہوں تو اس احساس کو زندہ رکھنے میں ان شخصیات کی صحبت کا بڑا کردار ہے۔ مجھے صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی نہ امام ابوحنیفہؒ جیسوں کی۔ اللہ نے لیکن دو چار ایسے لوگوں سے ضرور ملا دیا کہ صحابہ اور اسلافِ امت کے بارے میں مشہور واقعات کی سچائی پر یقین میں اضافہ ہوا۔
اقبال کے شعر نے کتنی خوشگوار یادوں کو زندہ کر دیا۔ اس شعر اور یادوں میں کیا تعلق ہے‘ ہر کوئی بقدرِ ہمتِ اوست اسے دریافت کر سکتا ہے۔