دنیا کے نقشے پر کیا ایک نیا جنوبی ایشیا ابھر رہا ہے؟
پاکستان کی حیران کن فتح نے اس کے وسیع امکانات پیدا کر دیے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں اور کچھ پرانے بے نقاب ہوئے ہیں۔ کچھ خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے اور کچھ واہمے ختم ہوئے ہیں۔ بعض افراد کا مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے اور بعض کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا ہے۔ محبت اور نفرت کے اہداف بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ پاکستان کو اب نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو ان امکانات کو سمیٹ سکے۔ یہ امکانات جن حقائق سے پھوٹے ہیں‘ ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1۔ پاکستان کو پہلے دن سے جو اخلاقی برتری حاصل تھی‘ وہ جنگ بندی کے اعلان تک باقی رہی۔ پاکستان کی حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑا نہ عالمی برادری کے سامنے۔ ایک طرف پوری قوم یکسو تھی اور عسکری بازوؤں میں شاندار وحدتِ عمل تھی کہ یہ جنگ ان پر مسلط کی گئی ہے جو انہیں لڑنی ہے۔ دوسری طرف عالمی برادری سے کوئی ایک آواز پاکستان کے خلاف نہیں اٹھی۔ بھارت کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ مودی صاحب ملک کے اندر کٹہرے میں کھڑے ہیں اور دنیا کا میڈیا بھی ان پر تنقید کر رہا ہے۔ بھارت سب کے سامنے جوابدہ ہے۔ پاکستان کہیں جوابدہ نہیں۔
2۔ پاکستان کی فتح کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ عالمی میڈیا بتا رہا ہے کہ یہ بھارت ہے جو جنگ بندی کی درخواست کے ساتھ عالمی قوتوں کے سامنے حاضر ہوا۔ اس کا فوجی بھرم ختم ہو گیا۔ اخلاقی اعتبار سے شکست کے ساتھ‘ حربی میدان میں بھی اس کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ یہ فیصلہ میدان میں ہو گیا کہ پاکستان کی فوج پیشہ ورانہ تربیت‘ ٹیکنالوجی اور عزم وہمت میں بھارتی افواج سے کہیں آگے ہے۔ یہ اب مطالعہ پاکستان کی نصابی کتاب کا کوئی باب نہیں‘ تاریخ کے اوراق پہ لکھا گیا وہ سبق ہے جو ساری دنیا کو ازبر ہو گیا ہے۔
3۔ حربی ٹیکنالوجی میں چین امریکہ کا متبادل بن سکتا ہے۔ پاکستان اور چین کا تعامل‘ اس باب میں پاکستان کو بڑی حد تک خودکفیل بنا سکتا ہے۔ پاکستان کی قیادت نے ماضی میں چینی ٹیکنالوجی میں چھپے امکانات کو پہچانا جو اس کی بالغ نظری کی دلیل ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستانی ایئر فورس کی بنیادی طاقت کا سرچشمہ امریکہ ہے لیکن اس جنگ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے امریکی اور چینی ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایک دفاعی نظام وضع کر لیا ہے‘ جس سے امریکہ پر ہمارا انحصار کم ہو جائے گا۔ تاہم‘ اس حوالے سے امریکہ سے ممکن حد تک تعاون کو جاری رہنا چاہیے۔
4۔ امریکہ پر سفارتی حوالے سے ہم زیادہ انحصار نہیں کر سکتے۔ ٹرمپ سوچ یہ ہے کہ جس معاملے سے امریکہ کا براہِ راست مفاد وابستہ نہیں اس سے دور رہا جائے۔ ترکیہ‘ سعودی عرب اور عرب امارات مشکل وقت میں پاکستان کے کام آ سکتے ہیں۔ پاکستان کی حربی کارکردگی سے عالمِ اسلام میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہواہے۔ حربی قوت کے معاملے میں عالمِ اسلام میں پاکستان کا کوئی مدمقابل نہیں۔ ترکیہ کا دفاعی نظام شاندار ہے مگر وہ ایٹمی قوت نہیں ہے۔ پاکستان کی حربی قوت کا یہ فاتحانہ اظہار پورے عالمِ اسلام کے لیے تقویت کا باعث بنے گا۔
5۔ اسرائیل کے میزائل اس معرکے میں بھارت کے کسی کام نہیں آئے۔ اس سے اسرائیل کا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ اس سے پہلے بھارت یہ میزائل نہتے کشمیریوں کے خلاف 'کامیابی‘ سے استعمال کر چکا۔ اب ان کا سامنا ایک تربیت یافتہ فوج سے ہوا۔ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ اللہ کے کرم سے اس ٹیکنالوجی کو بر باد کر سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کی جو بات ہو رہی تھی‘ یہ معرکہ اس کی کامیابی کو مشتبہ بنا دیتا ہے۔
6۔ 'جنگ بھی مسئلے کا ایک حل ہے‘ اس معرکے نے اس تصور کو رد کر دیا ہے۔ بھارت کی یہ مہم جوئی اس کے کسی کام نہ آ سکی۔ سبکی‘ وسائل کا ضیاع اور مخدوش مستقبل۔ اس کے سوا بھارت کو کیا ملا؟ مسائل کو حل کرنے کے اس کے علاوہ طریقے بھی موجود ہیں اور انہیں اختیار کرناچاہیے۔ جنگ کسی حکیم قیادت کا انتخاب نہیں ہو سکتی۔ 7۔ بھارت اپنا یہ استحقاق کھو چکا کہ اسے اس خطے کی ایک بڑی قوت مانا جائے۔ اس کے لیے جس اخلاقی قوت اور سیاسی حکمت کی ضرورت ہوتی ہے‘ بھارتی قیادت اس سے تہی دامن ہے۔ بھارت ایک ارب سے زیادہ آبادی کا ملک ہے۔ اس کی باگ اگر مودی جیسے کسی فرد کے ہاتھ میں ہو گی تو یہ نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کے لیے تشویش کی بات ہے۔ بھارت کے عوام اور اہلِ دانش کے ساتھ علاقے کی سطح پر ایک مکالمے کی ضرورت ہے جو بھارت کے کردار کو موضوع بنائے۔ بھارت میں چوبیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ قومی ریاست کے تصور نے انہیں بھارت کامخلص شہری بنا دیا ہے لیکن اگر بھارت میں مسلمانوں کے آثار مٹانے کی کوشش کی جائے گی اور ہندوتوا جیسی آئیڈیالوجی کو فروغ دیا جائے گا تو اس سے جہاں بھارت کی داخلی یکجہتی کو نقصان پہنچے گا‘ وہاں پاکستان اور بنگلہ دیش کا مسلم تشخص بھی بھارت کے داخلی حالات پر اثر انداز ہوگا۔ گویا اس کے علاقائی سطح پر کچھ نتائج ہیں جو ناگزیر ہیں‘ اگر مودی طرز کے کردار بھارت کی قیادت کریں گے۔ 8۔ غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے پاکستان کو مطعون کرنا موجودہ تناظر میں عبث ہے۔ ماضی کے واقعات کا حوالہ عصری معنویت نہیں رکھتا۔ اس باب میں پاکستان کی حکمتِ عملی بدل چکی۔ پاکستان اس وقت ان غیر ریاستی عناصر کا ہدف ہے۔ کوئی ایسی شہادت موجود نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ پاکستان کا پہلگام کے حادثے میں کوئی ہاتھ ہے۔ حافظ سعید صاحب ایک مدت سے گرفتار ہیں۔ مسعود اظہر صاحب کا بھی اب کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حادثے کے حوالے سے بھارت کا چورن فروخت نہیں ہوا۔ دنیا نے اسے مسترد کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش نے بھارت کے پروپیگنڈے کو غیر مؤثر بنا دیا۔ 9۔ پاکستان نے میدانِ جنگ ہی میں نہیں‘ سفارتی محاذ پر بھی بہتر کارکردگی دکھائی۔ کسی نے پاکستان پر الزام نہیں لگایا۔ کسی نے بھارت کی اعلانیہ حمایت نہیں کی۔ پاکستان کے دوست بروئے کار آئے۔ اس کے برخلاف کسی نے‘ اسرائیل کے سوا‘ بھارت کی مدد نہیں کی۔ مادی مفادات کی وجہ سے دوسرے ممالک نے بھارت کی مذمت نہیں کی مگر اس کا ساتھ بھی نہیں دیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوا کہ پاکستان کی مالی پوزیشن اتنی مستحکم ضرور ہے کہ وہ ایسا مؤثر دفاعی نظام برقرار رکھ سکتی ہے۔ دفاعی بجٹ پر تنقید ہوتی ہے مگر اس معرکے سے معلوم ہوا کہ یہ بجٹ ضائع نہیں ہوا۔ یہ پاکستانی معیشت کے استحکام کی بھی دلیل ہے۔ 10۔ ایک ایسا جنوبی ایشیا اس خطے میں بسنے والے عوام کی ضرورت ہے جو امن کا مرکز ہو۔ اگراسلحے کے انبار رہیں گے تو یہ امن ہمیشہ خطرات میں گھرا رہے گا۔ اس معرکے سے یہاں آباد انسانوں میں اس کا احساس بڑھا ہے۔ یورپ نے جنگوں کے نتائج سے جو سیکھا ہے‘ اس خطے کے مکینوں کو بھی اس سے سیکھنا چاہیے۔ اس بات کا امکان پیدا ہو گیا کہ اس بات کے شعور میں اضافہ ہو۔ لوگ اس بیانیے کو توجہ سے سنیں۔
11۔ ایک مدت کے بعد پاکستانی قوم کی گرفت میں ایک ایسا لمحہ آیا ہے جس نے اس کو یکجان بنایا ہے۔ پاکستانی عصبیت دوسری عصبیتوں پر غالب دکھائی دی ہے۔ اس سے ملک پر عام آدمی کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور پاکستانی ہونے کا احساس اس کیلئے خوشی اور فخر کا باعث بنا۔
ان امکانات کو واقعہ بنانے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری اجتماعی دانش کا امتحان ہے۔ سپاہ نے جو کرنا تھا‘ کر دیا۔ اب امتحان سپاہِ دانش کا ہے۔