"KNC" (space) message & send to 7575

قومی ریاست: پاک بھارت جنگ کے بعد

جنگ ہمیشہ تاریخ ساز ہوتی ہے۔ تاریخ ہی نہیں‘ یہ جغرافیے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جو اہم موڑ آئے‘ اکثر کسی جنگ ہی کے نتیجے میں آئے۔ جغرافیہ تو ہے ہی جنگ کی دَین۔ جنگ کے یہ اثرات اس کی شدت اور طوالت کی نسبت سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جو عالمی جنگیں ہوئیں‘ انہوں نے تاریخ اور جغرافیے پر بے پناہ اثرات مرتب کیے۔ عالمِ انسایت ایک صدی سے ان اثرات کی گرفت میں ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ نے برصغیر کے نقشے کو ایک بار پھر بدل ڈالا۔ افغانستان میں دس سال تک جو جنگ جاری رہی‘ وہ تاریخ کے دو ادوار کے درمیان حدِ فاصل بن گئی۔ پاکستان اور بھارت 2025ء میں ایک مختصر جنگ سے گزرے۔ اس نے بھی نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کو متاثر کیا۔ اس اثر انگیزی میں تاریخ اور جغرافیہ کے ساتھ سیاسی افکار بھی شامل ہیں۔
قومی ریاست کا تصور دوسری عالمی جنگ کے بعد سامنے آیا جب سلطنتوں کا دور تمام ہوا۔ نیشنلزم نئی دنیا کا سب سے طاقتور سیاسی نظریہ بن گیا۔ جدید ریاستوں کی تشکیل اسی کے زیرِ اثر ہوئی۔ بیسویں صدی کے آخر میں‘ جب امریکہ واحد سپر پاور بن گیا اور ابلاغیات کی دنیا میں غیر معمولی تغیر آیا تو کہا گیا کہ دنیا اب عالمگیریت کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ ایک طرح سے قومی ریاست کے خاتمے کا اعلان تھا۔ سیاسی مفکرین یہ کہتے سنے گئے کہ دنیا اب ایک نئے عہد میں داخل ہو رہی ہے جس میں قومی ریاست کا تصور غیر متعلق ہو جائے گا۔ نظریاتی ریاست کا تصور بھی ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کرنے کا باعث بنا۔
پاکستان‘ جو اس عالمگیر تبدیلی کے برخلاف ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا‘ اسے بھی اپنی بقا کے لیے قومی ریاست ہی کا پیرہن اختیار کرنا پڑا۔ نظریاتی اور قومی ریاست کے اس امتزاج سے ہم شناخت کا مسئلہ حل نہیں کر سکے‘ جسے قومی ریاست نے یورپ یا شمالی امریکہ میں حل کر دیا تھا۔ 'پاکستانیت‘ کا تصور قومی ریاست کے تصور سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔ یہی سبب ہوا کہ ہمارے ہاں قدیم قومی شناختیں نہ صرف زندہ رہیں بلکہ 'پاکستانیت‘ کے بالمقابل کھڑی ہو گئیں۔
مختصر دورانیے کی پاک بھارت جنگ میں یہ عجیب بات سامنے آئی کہ شناخت کے اس بحران کے باوجود پاکستانیت کا تصورِ شناخت کا سب سے بڑا اور معتبر حوالہ بن کر سامنے آیا۔ ایامِ جنگ میں اس نے دوسری شناختوں پر غلبہ پا لیا۔ 1971ء میں اس شناخت کو جو شدید جھٹکا لگا‘ حالیہ جنگ نے اس کے اثرات کو قابلِ ذکر حد تک کم کر دیا ہے۔ پاکستان کی فتح کا جشن کراچی سے خیبر تک منایا گیا۔ نصف صدی تک پاکستانیت کا یہ تصور کہیں دبا رہا اور موقع ملنے پر باہر آ یا یا اس نے اچانک ظہور کیا ہے؟ یہ سوال قومی ریاست کی بحث سے جڑا ہوا ہے۔
'پاکستانیت‘ کے اس احساس نے ثابت کیا کہ قومی ریاست کا تصور متروک نہیں ہوا۔ عالمگیریت نے ایک حد تک سرمایے کو یہ سہولت فراہم کی کہ اسے جغرافیائی حدود کی قید سے نکال دیا مگر وہ قومی ریاست کے تصور کو ختم نہیں کر سکی۔ آج بھی 'ملک‘ اجتماعی شناخت کا ایک مستند حوالہ ہے۔ وطن سے مختلف ہونے کے باوصف 'ریاست‘ ہمارے لیے وہ سائبان ہے جسے ہم اپنا سمجھتے ہیں اور اس کی موجودگی ہمیں تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔ اس جنگ سے معلوم ہوا کہ پاکستانیت کا یہ تصور صرف پنجاب تک محدود نہیں‘ جیسے ہمارے بعض لبرل دوستوں کا خیال ہے۔
اس کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ پاکستان کی اکثر آبادی کے لیے وطن ہی ریاست بھی ہے۔ اس کے لیے دونوں میں تصادم نہیں۔ یہ فرق ایک پاکستانی کے لیے اُس وقت مسئلہ بنتا ہے جب وہ امریکہ یا کسی دوسری قومی ریاست کی شہریت اختیار کرتا ہے۔ جو لوگ ہجرت کر کے یہاں آئے‘ ان کے لیے شناخت ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا جس کے خوفناک نتائج نکلے اورکراچی‘ حیدر آباد جیسے شہر ایک بڑے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔
پاک بھارت جنگ نے پاکستانی شناخت کو زندہ کر دیا ہے۔ اس سے ان سیاسی قوتوں کو نقصان پہنچے گا جو پختون یا بلوچ عصبیت کو پاکستانی عصبیت کے متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو نمایاں کیا ہے کہ پاکستانی شناخت پر اصرار اس شناخت سے متصادم ہے جو علاقائی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں ان آوازوں کو پذیرائی بھی ملی ہے۔ حالیہ جنگ نے بتایا ہے کہ یہ مہم پاکستانی شناخت کو کمزور نہیں کر سکی۔ عوام پختون ہوں‘ بلوچ ہوں یا پنجابی‘ آج بھی اپنی پاکستانی شناخت پر قائم ہیں اور پاکستان کی فتح وشکست کے ساتھ ان کی خوشی اور غم وابستہ ہیں۔
کیا اس کا کوئی تعلق بیرونی جارحیت سے بھی ہے؟ ایک مؤقف یہ ہے کہ پاکستانیت کی شناخت اُس وقت بروئے کار آتی ہے جب کوئی خارجی چیلنج درپیش ہو۔ اسی پس منظر میں یہ تھیوری بھی سامنے آتی ہے کہ ریاست یا برسرِ اقتدار طبقہ جب داخلی بحرانوں پر قابو نہیں پا سکتا تو کسی خارجی خطرے‘ حقیقی یا فرضی‘ کا عَلم اٹھا لیتا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اس سے عارضی فائدہ تو ہو سکتا‘ مستقل نہیں۔ پھر حالیہ جنگ میں پاکستانیت کا جو بے ساختہ اظہارہوا‘ وہ بتاتا ہے کہ یہ جذبہ حقیقی ہے‘ کسی برسرِ اقتدار طبقے کے مفادات نے اسے وجود نہیں بخشا۔
یہ بحث تو قومی ریاست سے متعلق ہے جو اس جنگ سے پیدا ہوئی۔ اس کا دوسرا پہلو بین الا قوامی ہے۔ پاکستا ن کی اس فتح کو مسلمانوں نے عالمی سطح پر اپنی فتح سمجھا۔ ان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ یہ کیوں ہوا؟ کیا قومی ریاست کی طرح‘ امتِ مسلمہ بھی ایک زندہ تصور ہے جسے قومی ریاستوں کی تقسیم مار نہیں سکی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ امت کی یہ شناخت مذہبی و روحانی ہے یا سیاسی؟ ایک صدی کے تجربات بتا رہے ہیں کہ قومی شناخت مذہبی شناخت پر غالب رہی ہے۔ اس کا اظہار غزہ میں بھی ہوا۔ اس درد کو محسوس تو سب نے کیا مگر کوئی مسلم ملک فلسطین کو اپنا مسئلہ بنانے پر آمادہ نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی یہ خوشی بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اسے امت کے سیاسی تصور کا احیا نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ تجزیہ کتنا درست ہے‘ اس کا اندازہ آنے والے چند ماہ میں ہو جائے گا۔
کیا قومی ریاست کا تصور بھارت میں بھی اسی طرح اجتماعی شناخت بن جائے گا؟ کیا یہ بھارت کے شہریوں کو بھی بلاامتیاز مذہب ونسل مجتمع کر دے گا؟ اب تک تو اس کی تائید نہیں ہو سکی۔ کیا اس کا سبب بھارت کی شکست ہے جس سے عوام کے جذبات غصے میں ڈھل گئے ہیں؟ یہ غصہ بھی کیا وطن سے وابستگی کو مضبوط بنائے گا؟ اسی سے متصل سوال یہ بھی ہے پاکستانیت کو کس نے زندہ کیا ؟جنگ نے یا فتح نے؟ خاکم بدہن اگر نتیجہ مختلف ہوتا تو کیا 'پاکستانیت‘ اسی طرح وحدت کی علامت کے طور پرجلوہ گر ہو تی؟
سرِ دست میں ان سوالات کے جواب نہیں دے سکتا۔ ان سوالات نے سوچ کے عمل کو مہمیز دی ہے۔ جب میں کسی حتمی نتیجے تک پہنچا تو اس موضوع پر کلام کر سکوں گا۔ اس مرحلے پر ان سوالات کا پیدا ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ اس جنگ نے تاریخ اور جغرافیہ ہی کو نہیں‘ سیاسی افکارکو بھی متاثر کیا ہے۔ سیاسیات کے طالب علموں کو ان سوالات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ اس جنگ کے حاصلات کیا ہیں؟ ہمارے کس نظریے کو تقویت ملی ہے اور کسے زک پہنچی؟ قومی ریاست کا مستقبل کیا ہے؟ کیا آج بھی کسی نظریاتی ریاست کے لیے پنپنے کا کوئی امکان ہے؟ یہ جنگ‘ کیا کفر اور اسلام کا معرکہ تھا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں