اہلِ عرب نے جس طرح صدر ٹرمپ کی پذیرائی کی‘ وہ بے حسی کا ایک تکلیف دہ مظاہرہ تھا۔ ایک طرف فلسطین کا مقتل آباد تھا اور دوسری طرف اس کے سب سے بڑے ذمہ دار کے استقبال کے لیے جشنِ طرب برپا تھا۔ افسوس ہوا اور حیرت بھی۔
سعودی عرب‘ قطر‘ امارات سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بچھے چلے جاتے تھے۔ ایسی وارفتگی ہر امریکی صدر کے لیے نہیں دکھائی گئی۔ صدر بائیڈن نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیاتھا مگر بادشاہ نے کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ استقبال کے لیے ایئر پورٹ بھی نہیں گئے۔ مہمان شاہی محل پہنچا تو بادشاہ سلامت اپنی جگہ کھڑے رہے اور صدر بائیڈن چل کر ان تک آئے۔ پس منظر میں امریکی صدر کا سعودی عرب کے بارے میں ایک بیان تھا جسے پسند نہیں کیا گیا۔
اس بار مگر عربوں کے تیور ہی کچھ اور تھے۔ انہوں نے امریکی صدر کو مالا مال کر دیا۔ ٹریلین ڈالرز کے تجارتی معاہدے کیے۔ کروڑوں ڈالر کے تحفے پیش کیے۔ ہم نے پہلی بار عرب بیٹیوں کو سرِ عام زلفیں لہراتے دیکھا اور وہ بھی امریکی صدر کے لیے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح امریکی صدر کو اپنی خوشی کا یقین دلائیں اور انہیں یہ بتائیں کہ ان کی آمد کو وہ اپنے لیے کتنا بڑا اعزاز سمجھ رہے ہیں۔ حیرت امریکی صدر کی اس پذیرائی پر ہے اور افسوس اس کا کہ غزہ میں آباد مقتل کا‘ قطر کے سوا کہیں ذکر ہوا نہ کسی نے ان کے دکھ کو بیان کیا۔ جیسے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ جیسے یہ سب افسانہ ہے۔
دنیا جانتی ہے یہ افسانہ نہیں ہے۔ یہ انسانی جسموں پر لکھی گئی ظلم کی وہ داستان ہے جو کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔ صدر ٹرمپ کی موجودگی میں غزہ کے مقتل سے لاشے اُٹھ رہے تھے۔ اسرائیل نے اس ظلم کو اس یقین کے ساتھ روا رکھا کہ کسی سمت سے اُسے مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مطلوب اس خطے کو فلسطینیوں سے ہمیشہ کے لیے خالی کرنا ہے۔ یہ منصوبہ جاری ہے۔ اسرائیل کو صدر ٹرمپ اور امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ بھی اسے 'جنت‘ بنانا چاہتے ہیں۔ دو ریاستی سے معاملہ ایک ریاستی حل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عرب حکمران اس تبدیلی سے صرفِ نظر کیسے کر سکتے ہیں؟ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انہیں ان تبدیلیوں کا کوئی ادراک نہیں۔ یہی بات میرے لیے باعثِ حیرت ہے۔ اس لیے دل یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
ایک مضبوط اسرائیل عربوں کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کر نے سے یہ خطرہ کم نہیں زیادہ ہو گا۔ پھر 'گریٹر اسرائیل‘ کا خواب تعبیر چاہے گا۔ اردن اور مصر اس کی زد میں ہوں گے۔ مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو کیا یہ خطرہ ٹل گیا؟ امریکہ اگر چہ اب بھی وہاں موجود ہے لیکن اس کے بعد اس کا اثر مزید بڑھ جائے گا۔ یہ بات قرینِ قیاس نہیں کہ عرب اس متوقع منظر نامے سے واقف نہیں ہیں۔ اگر وہ واقف ہیں تو لازم ہے کہ وہ ایک مضبوط اور مکمل فلسطینی ریاست کی بات کریں۔ ایسی ریاست جو اسرائیل کی طرح آزاد اور خود مختار ہو۔ اگر وہ خود کو مجبور پاتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کریں تو اس کی واحد صورت دو ریاستی حل ہے۔ یہ حل بھی علامتی نہ ہو‘ حقیقی ہو۔
قطر نے صدر ٹرمپ کے سامنے جنگ بندی کی ضرورت بیان کی۔ بے گناہ شہریوں کے قتل کا حوالہ دیا۔ اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے مستقل حل پر مگر بات نہیں کی۔ اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ کسی نے اس 'پُرمسرت‘ موقع پر فلسطینیوں کو یاد رکھا۔ قطر اس سے پہلے بھی تنازعات میں ثالثی کرتا رہا ہے۔ امارات میں لیکن جشن کا سماں رہا۔ فلسطینی کسی کو یاد نہیں آئے۔ سعودی عرب کی زیادہ توجہ شام پر رہی جس کے نئے سیاسی نظم کو صدر ٹرمپ نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول کر لیا۔ ترکیہ بھی اس عمل میں شریک تھا۔ اللہ کرے کہ اہلِ شام کو امن نصیب ہو۔
سوال یہ ہے کہ عربوں نے صدر ٹرمپ کے استقبال میں اتنی گرم جوشی کیوں دکھائی؟ یہ دورہ جوش سے زیادہ وقار کا حامل ہو سکتا تھا۔ میں اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر سکا۔ بعض کا خیال ہے کہ عرب بادشاہوں کو صدر ٹرمپ کا اندازِ حکومت زیادہ بھاتا ہے کہ وہ مشاورت پر کم یقین رکھتے ہیں۔ جمہوری نظام کے بجائے فردِ واحد سے معاملہ کرنا اہلِ عرب کے لیے آسان ہے۔ مجھے اس جواب سے اطمینان نہیں ہوا۔ کیا اس کا تعلق کسی ایسی تبدیلی سے ہے جو زیرِ زمین پرورش پا رہی ہے؟ کیا صدر ٹرمپ اور عرب حکمرانوں میں مشرقِ وسطیٰ کے باب میں کسی نئے بندوبست پر اتفاق ہو گیا ہے؟ میرے پاس ان سوالات کے جواب نہیں لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہ غیر معمولی پذیرائی بے مقصد نہیں ہو سکتی۔
صدر ٹرمپ امریکہ کے لیے بہت سی دولت سمیٹ کر لے جا رہے ہیں۔ کم وبیش ایک ماہ پہلے جب ان کی معاشی پالیسی تنقید کی زد میں تھی تو انہوں نے ناقدین کو اپنے اس دورے کے انتظار کا مشورہ دیا تھا جسے امریکہ کے لیے وسیع معاشی امکانات کا حامل بتایا گیا تھا۔ ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ انہوں نے عربوں سے جو تجارتی معاہدے کیے ہیں‘ یہ امریکی معیشت کو تازہ خون فراہم کریں گے۔ لاکھوں افراد کے لیے روزگار پیدا ہو گا۔ امریکہ کے ساتھ عربوں کی تجارت یکطرفہ ہوتی ہے۔ وہ محض خریدار ہیں۔ مال تو امریکہ کا بکے گا اور ظاہر ہے کہ فائدہ بھی اُسی کا ہو گا۔ صرف قطر کی ایئر لائن 210 جہاز خریدے گی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ محض ایک ڈیل سے کتنی کمائی کرے گا۔ صدر ٹرمپ کا یہ دورہ اس لیے امریکہ کے لیے سراسر فائدے کا سبب ہے۔ سوال تو عربوں کا ہے کہ انہیں کیا ملا؟
عربوں کو اسلحہ ملے گا۔ اس اسلحے کا مگر ہدف کون ہے؟ ایران؟ اب ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ایران نے خود کو بہت کمزور کر لیا ہے۔ یہ بات اب طے ہو گئی کہ ایرانی معیشت کسی بڑے جنگی اور توسیعی منصوبے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ ایران حزب اللہ کا دفاع نہیں کر سکا اور بشار الاسد جیسا اتحادی قصہ پارینہ بن گیا۔ وہ حماس کی مدد بھی نہیں کر سکا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ایران اب عربوں کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایران نہیں تو پھر عرب اتنا اسلحہ کس کے لیے جمع کر رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کا نقشہ چھپا ہوا ہے۔ اس کا ایک سبب دفاع بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر عربوں کی عسکری قوت اتنی ہو کہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ یہ 'کوئی‘ مگر کون ہو سکتا ہے؟ اگر ایران نہیں تو پھر کون؟ اسرائیل؟ کوئی تیسرا نام تو مجھے اس فہرست میں دکھائی نہیں دیتا۔ کیا عرب سمجھتے ہیں کہ انہیں بہرحال ایک فیصلہ کن معرکہ اسرائیل کے ساتھ لڑنا ہو گا؟ آج نہیں تو کل‘ مشرقِ وسطیٰ میں ایک جنگ ہونی ہے؟ صہیونیت کی سیاسی آئیڈیالوجی یہودی پیش گوئیوں کے اشتراک سے مشرقِ وسطیٰ کو پھر کسی بڑے فساد میں مبتلاکر سکتی ہے؟ جو اقتدار میں ہوتے ہیں‘ وہ اتنے سادہ نہیں ہوتے جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب سوالات یقینا ان کے سامنے ہوں گے جو نسل در نسل اقتدار میں ہیں اور اس تسلسل کو بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ غزہ کی صورتِ حال کیوں اس دورے کا مرکزی نقطہ نہیں بن سکی؟ اسرائیل کے مظالم پر امریکی صدر سے کیوں کھل کر احتجاج نہیں ہوا جو اسرائیل کا مستقل اور غیر مشروط مددگار ہے؟ حتمی جواب میرے پاس نہیں لیکن یہ تجزیہ ان سوالات کے جواب کی تلاش میں شاید کسی حد تک معاونت کر سکے۔