ہندوتوا کے نظریے نے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ کیا ہم ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ اس باب میں ہماری اخلاقی ذمہ داری کیا ہے؟
جاوید اختر صاحب پر ترس کھانا چاہیے۔ بقا کی جنگ میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ شبانہ اعظمی صاحبہ کا ایک انٹر ویوکبھی سنا تھا۔ وہ مرثیہ خواں تھیں کہ ممبئی میں مسلمانوں کو مکان کرایے پر نہیں ملتا۔ ان کے شوہر کو‘ جو ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے‘ اسی شہر میں رہنا ہے تو انہیں مکان چاہیے۔ اس لیے وہ اپنی مسلم شناخت سے دست بردار ہو گئے۔ یہ معمولی حادثہ نہیں کہ کوئی بقا کی جدوجہد میں اپنی شناخت کھو دے۔ وہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی فرد یا گروہ اپنے اخلاقی وجود کو برقرار رکھتا ہے تو اسے خان بہادر کا خطاب ملنا چاہیے۔
بھارت کے مسلمان دہرے عذاب کا شکار ہیں۔ ایک تاریخی واقعات سے برآمد کیا گیا اور دوسرا نظریاتی ہے۔ ان کے ہم مذہبوں نے برصغیر پر صدیوں حکمرانی کی ہے۔ وہ باہر سے آئے اور مقامی آبادی پر حکمران بن گئے جس کی اکثریت ہندو تھی۔ وہ سلطنتوں کا دور تھا اور حکمرانی کا حق فاتحین ہی کیلئے ثابت تھا۔ اسی اصول پر مسلمان بھی یہاں کے حکمران بنے۔ انہوں نے دوسرے فاتحین کی طرح جبرکو اپنی طاقت کی اساس نہیں بنایا۔ ہندوئوں کی مذہبی وتہذیبی شناخت کا احترام کیا۔ جدید اصطلاح میں بات کی جائے تو مقامی آبادی کے بنیادی حقوق محفوظ رہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے خلاف مقامی آبادی کی طرف سے کبھی قابلِ ذکر بغاوت نہیں ہوئی۔
مسلمانوں کا طویل اقتدار ہندوئوں کے ایک طبقے کیلئے نفسیاتی روگ بن گیا جو اپنی مذہبی شناخت کے بارے میں زیادہ حساس تھا۔ جب انگریزی اقتدار سے آزادی کا لمحہ قریب آیا تو اس نفسیات کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والی سوچ نے انگڑائی لی اور یہ چاہا کہ انگریزوں کے جانے سے اقتدار کی جو مسند خالی ہو گی‘ اس پر ہندوئوں کا قبضہ ہو۔ یہ وہ دور تھا جب سیاسی منظر نامے پر ہندوستانی قومیت کا غلغلہ تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ سب ہندوستانیوں کو مل کر انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ ان میں مسلمان بھی شامل تھے۔ قائداعظم‘ محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد کی سطح کے مسلمان۔
یہ سوال اہم تھا کہ انگریزوں کے بعد جو سیاسی بندوبست وجود میں آئے گا‘ اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اس پر کئی فارمولے زیرِ بحث رہے مگر کانگرس کی قیادت نے اس کو بحث کا مرکزی موضوع بنانے سے گریز کیا اور یہ تاثر دیا کہ یہ زیادہ اہم مسئلہ نہیں۔ تاہم اس دوران میں ایسے واقعات ہوئے‘ جن سے اس خدشے کو تقویت ملی کہ نیا سیاسی نظم اگر جمہوری اصولوں پر آگے بڑھا تو ہندو اکثریت مسلمانوں کے تہذیبی وجود کیلئے خطرہ بن جائے گی۔ دنیا اب سلطنتوں کے عہد سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہو چکی تھی جس کے اجزائے ترکیبی میں جمہوریت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جمہوریت کا مطلب تھا اکثریت کی حکمرانی۔
اس کے ساتھ مسلمانوں میں یہ سوچ بھی مستحکم ہو رہی تھی کہ وہ انسانوں کا ایسا گروہ نہیں جس کی سماجی وسیاسی حیثیت کا تعین گنتی سے ہوگا۔ ان کی ایک تہذیبی ومذہبی شناخت ہے اور وہ ایک قوم ہیں۔ نیا سیاسی بندوبست اسی وقت مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول ہو گا جب وہ ان کی اس شناخت کا ضامن بنے گا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہندو اور مسلم تہذبیوں میں بعض ایسے جوہری اختلافات ہیں جو اُن کے ایک ساتھ رہنے میں مانع ہیں۔ اس لیے اگر نئے سیاسی نظم میں مسلم اکثریتی علاقوں کو خودمختاری مل جائے اور ہندوئوں کو ان کے اکثریتی علاقے میں یہی مقام مل جائے تو اس تقسیم سے پُرامن بقائے باہمی ممکن ہو جائے گی۔
ایک اہم سوال مگر اس حل کے ہم رکاب تھا اور وہ یہ کہ ان خودمختار علاقوں میں اقلیتوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اس کا کوئی باضابطہ جواب تلاش کرنے کے بجائے اسے انسان کی اخلاقی حس پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اقلیت کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے گا۔ اس 'اخلاقی حس‘ کا ظہور ہوا تو بدترین مذہبی فسادات پھوٹ پڑے۔ اسی اخلاقی حس کا ایک مظاہرہ باؤنڈری کمیشن نے کیا جب ناانصافی کی ایک داستان رقم کی۔ ان فسادات کی وجہ سے لاکھوں افراد نے ہجرت کی۔ لاکھوں قتل ہوئے۔ اتنی بڑی ہجرت کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھی۔ یہ ہجرت نہیں تھی‘ بڑا انسانی المیہ تھا۔ اسی المیے نے پاک بھارت دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ وہ انتہاپسند ہندو ذہنیت جو انگریزوں کے جانے کے بعد پورے ہندوستان پرراج کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی‘ اس نے 'مادرِ وطن ‘ کی تقسیم کو جرم کہا اور مسلمانوں کو مجرم قرار دیا۔ اسی ذہنیت نے پاکستان کو ناکام بنانا چاہا مگر ان کا یہ وار خالی گیا۔ ان کا دوسرا نشانہ وہ مسلمان تھے جو بھارت میں رہ گئے۔
یہ مسلمان پاکستان کے حامی تھے لیکن ان کو شاید یہ گمان نہیں تھا کہ یہ تاریخی واقعہ خطے میں ایک مستقل دشمنی کی بنیاد بن جائے گا اور وہ اس کا ہدف بنیں گے۔ کانگرس میں جب تک مولانا ابوالکلام آزاد اور نہرو جیسی قدآور شخصیات موجود رہیں‘ انتہا پسندوں کو زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ مسلمانوں کے ادارے قائم رہے اور سیکولرازم کی بات ہوتی رہی جس کا مقصد یہ تھا کہ ایک مذہب کے پیروکار‘ عددی اکثریت کی بنیاد پر دوسرے پر حاکم بنیں نہ اس کی تہذیبی شناخت کے درپے ہوں۔ قائداعظم نے بھی وہاں رہ جانے والے مسلمانوں کو یہی نصیحت کی وہ اپنی ریاست کے وفادار شہری بنیں۔ انتہا پسند ہندو ذہنیت کو مگر یہ گوارا نہیں تھا۔ یہ آگ آر ایس ایس کی صورت میں سلگتی رہی اور پھر ہندوتوا کی شکل میں شعلہ بن گئی۔ مودی سرکار نے اس پر مسلسل تیل ڈالا۔ اس کا ایک مقصد اکھنڈ بھارت کا قیام ہے۔ اس طرح یہ تاریخی واقعات‘ نظریاتی سیاست کے ساتھ مل کر بھارتی مسلمانوں کیلئے دہرا عذاب بن گئے۔ اس نے بھارت کے ہر مسلمان شہری کی ریاست سے وفاداری کو مشکوک بنا دیا۔ اب اسے اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے جاوید اختر بننا پڑتا ہے۔
جو لوگ ایسا نہیں کر سکتے‘ ان کیلئے زندگی زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ آج بھارت کے مسلمان مضطرب ہیں۔ ہم مسلم اکثریتی علاقوں میں بسنے والے قیامِ پاکستان کے تجربے سے اُس طرح نہیں گزرے جیسے وہ مسلمان گزرے جہاں تحریکِ پاکستان برپا ہوئی۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ انہیں پاکستان کا حصہ نہیں بننا مگر وہ تحریکِ پاکستان میں جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ انہوں نے ہندو اکثریتی علاقوں میں اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔ وہ اس گمان میں رہے کہ دو نئی ریاستوں کا تعلق برادرانہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور وہ دہرے عذاب کا شکار ہو گئے۔
بھارت کے جو مسلمان شہری پاکستان کو برا نہیں کہنا چاہتے اور قائداعظم کی ہدایت کے مطابق بھارت کے بھی وفادار ہیں‘ ان کے مفادات کا خیال رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اس لیے ہم بھارتی مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب ان کے معاملات میں مداخلت نہیں‘ بلکہ ان کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ ہندوتوا آئیڈیالوجی کے اثرات سے بچ سکیں جو انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ پاکستان کو برا بھلا کہیں۔ ہماری خواہش ہونی چاہیے کہ وہ بھارت میں مسلم تہذیب کو زندہ رکھیں۔ ان کے جان ومال محفوظ رہیں۔ ان کی معاشی اور سماجی قوت میں اضافہ ہو۔ ہمارے ساتھ ان کا مذہبی اور تہذیبی رشتہ برقرار رہے اورمسلمانوں کا وجود اس خطے میں بحیثیت مجموعی انتہا پسندی کے خلاف اسلام اور امن کی آواز بنے۔