پاکستان نے طویل عرصہ دہشت گردی کا الزام سہہ لیا۔ اب بھارت کی باری ہے۔
تاریخ ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی۔ 1979ء میں اس خطے کو ایک بڑے معرکے کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ انتخاب امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی تائید کے ساتھ کیا۔ پاکستان کو اس معرکے میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنایا گیا۔ مقصد سوویت یونین کا خاتمہ تھا۔ مسلمانوں کا جذبۂ جہاد اس کے لیے بطور ہتھیار استعمال ہوا۔ نجی جہاد کو جائز کہا گیا اور کئی غیرریاستی مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان کی تربیت‘ تنظیم اور آباد کاری کے لیے پاکستان کی سرزمین کو سازگار بنا دیا گیا۔ 1989ء میں جب یہ معرکہ سر کر لیا گیا تو امریکہ نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس دوران میں القاعدہ کے ساتھ کئی مقامی مسلح گروہ پیدا ہو چکے تھے۔ ان کا مستقبل کیا ہو گا‘ امریکہ کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان گروہوں نے اپنی لیے نئے میدان ڈھونڈ لیے۔ یہی بات خواجہ آصف صاحب نے بتائی۔ اس سے پہلے امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی اس غلطی کا اعتراف کر چکی ہیں کہ 1989ء میں جہادی تنظیموں سے امریکہ کی لاتعلقی ایک غلط فیصلہ تھا۔گویا اس خطے میں جو کچھ ہوتا رہاوہ ایک عالمی بندوبست تھا۔ امریکہ اور دوسرے ممالک اس میں شامل تھے۔ تنہا پاکستان کو کٹہرے میں کھڑاکرنا درست نہیں تھا۔ شواہد یہی ہیں کہ پاکستانی ریاست نے بھی تدریجاً خود کو اس دلدل سے نکا لنے کی شعوری کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں ان گروہوں میں سے بعض نے پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کو ہدف بنا لیا۔ اب پاکستان کئی برس سے ان گروہوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے جتنے جوان ان دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے‘ اتنے بھارت کے ساتھ جنگوں میں شہید نہیں ہوئے۔ یہی نہیں‘ بھارت یا کہیں اور کوئی دہشت گردی کا ایک ایسا واقعہ نہیں ہوا جس کا ذمہ دارپاکستان کو ٹھیرایا گیا ہو۔ بھارت نے پہلگام کے حادثے کا الزام پاکستان پر دھرا تو پاکستان نے اس کی بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کر دی۔ عالمی سطح پر اس بار بھارت کے الزام کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 1979ء میں تاریخ کے جس خاص دورکا آغاز ہوا تھا‘ وہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
جو نیا دور شروع ہوا ہے اس میں عالمی سطح پر بھارت ایک ایسی ریاست کے طور پر سامنے آیا جو دہشت گردی کا پشتی بان ہے۔ یہ بات صرف پاکستان نہیں کہہ رہا۔ کینیڈا اور امریکہ بھی کہہ رہے ہیں۔ کینیڈا نے تو بھارت کی ریاست سے باضابطہ احتجاج کیا کہ وہ بحیثیت ریاست کینیڈا میں دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے۔ پاکستان میں دو صوبے دہشت گردی کی ہدف ہیں اور پاکستان کا الزام ہے کہ بھارت ان میں ملوث ہے۔ اس کے کئی شواہد پیش کیے جا چکے۔ اس لیے اب بھارت کی باری ہے کہ وہ کٹہرے میں کھڑا ہو اور ان الزامات کا جواب دے۔ پاکستان نے جتنی صفائی دینا تھی‘ وہ دے چکا۔تاریخ کے اس نئے دور کے آغاز کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی بدل جانی چاہیے۔ اب ہمیں عالمی فورمز پر بھارت کی دہشت گردی کا مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ اب سفارتی سطح پر دفاعی جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں۔ اس دور میں خارجہ پالیسی کو جارحانہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مئی کا معرکہ بھی ہمارا مدد گار ہو گا۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ بھارت کے عزائم جارحانہ ہیں۔ اس نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑی۔ بے گناہ شہریوں کو ہدف بنایا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا اور اپنی جنگ کو دفاع تک محدود رکھا۔ انسانی آبادیوں کو ہدف نہیں بنایا۔ پاکستان کے پاس کہنے کو اب بہت کچھ ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے سفارتی سلیقے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
خطے کی سطح پر بھی ہمیں ایک نئی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک جو آزادی سے سانس لیناچاہتے ہیں‘ وہ پاکستان کی کامیابی سے خوش ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی دوسرے کی تھانیداری کو قبول نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلیاں پاکستان کے حق میں ہیں۔ وہاں اب ایک پاکستان اور امن دوست سیاسی بندوبست وجود میں آ چکا۔ حسینہ واجد مودی ہی کا زنانہ روپ تھیں۔ ان کی سفارت کاری بھی مودی صاحب کی طرح نفرت پر کھڑی تھی۔ آج مودی سرکار کے علاوہ اس خطے میں کوئی ایسی حکومت نہیں جو دوسرے پر بالا دستی چاہتی ہو۔ اس لیے یہ بہت سازگار وقت ہے کہ سارک جیسے فورم متحرک ہوں اور اس خطے کو مل کر آگے بڑھنے کا پیغام دیا جائے تاکہ یہاں خوش حالی اور امن ہو۔
چین بھی ہر اُس عمل میں تعاون کرے گا جس کا مقصد علاقائی امن ہو۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے آثار ہیں جو خوش آئند ہیں۔ اس کے لیے چین کا کردار واضح ہے۔ چین بھی ایک عالمی قوت کے طور اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے۔ تاہم وہ یہ کام تجارت اور دوسرے پُرامن ذرائع سے کرنا چاہتا ہے۔ اس نے سی پیک کو کامیاب بنانا ہے اور اس کیلئے علاقے میں امن ضروری ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کی سرزمین کو دہشتگرد تنظیمیں استعمال کر رہی ہیں۔ اگر افغانستان کو اس پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ ایسے گروہوں کے خلاف پاکستان سے تعاون کرے جو خطے کے امن کیلئے خطرہ ہیں تو یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہو گا۔بھارت کے عام شہریوں تک بھی ہماری طرف سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ امن میں بھارتی عوام کا بھلا ہے۔ سیفما جیسے فورمز کو اب متحرک ہونا چاہیے کہ وہ امن کا پرچم لہرائیں۔ اہلِ دانش اور میڈیا کی سطح پر مکالمہ ہونا چاہیے۔ عوامی سفارت کاری کے ساتھ ہمیں مذہبی سفارت کاری پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ بھارت میں مسلمانوں کے علمی و دعوتی ادارے موجود ہیں۔ اس تعلق کو مستحکم کیا جائے۔ ارون دھتی جیسے باوقار اہلِ دانش کو یہاں مدعو کیا جائے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستان اس خطے میں امن کا حقیقی داعی ہے۔ یہ بات ہم نے ثابت کر دی کہ ہم اپنے دفاع سے غافل نہیں ہیں اور جارحیت کا مؤثر جواب دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری امن کی خواہش کو اب کمزوری سمجھنے کی حماقت کوئی نہیں کرے گا۔
مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کیلئے بھی فضا سازگار ہو رہی ہے۔ بھارت اسے دوطرفہ معاملہ بنانا چاہتا ہے مگر دنیا نے جان لیا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے‘ اسلئے یہ دو طرفہ نہیں۔ یہ موقع ہے جب دنیا کو آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں اس مسئلے کے حل میں معاون ہو۔ اب زیرِ بحث آنا چاہیے کہ مودی سرکار نے اس خطے کے آئینی تشخص پر 2019ء میں جو وار کیا‘ اس کی کوئی اخلاقی اور قانونی بنیاد نہیں۔ مسئلہ کشمیر میں لوگ جس طرح ریاستی جبر کا شکار ہیں‘ اسے بھی سامنے لانا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کیلئے حالات کو سازگار بنا دیا ہے۔ ایک مستحکم اخلاقی بنیاد کے ساتھ ہم پُرامن جنوبی ایشیا کے علمبردار کے طور پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا اور آگے بڑھے۔ مودی صاحب ماضی کی تلخیوں کو زندہ کرنا چاہتے اور نفرت کی سیاست کرتے ہیں۔ اس بات کو دنیا تک پہنچانا ہماری سفارتی بصیرت اور ابلاغی صلاحیت کا امتحان ہے۔ اگر ہم اس سازگار ماحول سے فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ بدقسمتی ہو گی۔ جنگ سے پہلے اور اس دوران میں سفارتی محاذ پر ہم فتح مند رہے جس کیلئے پالیسی ساز تحسین کے مستحق ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ہم اس محاذ پر اللہ تعالیٰ کی مدد سے مزید کامیابیاں سمیٹیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے نصرت کے مستحق ہونے کیلئے لازم ہے کہ ہماری اخلاقی برتری قائم رہے۔