مُقدّر خراب ہونے اور مُقدّر کو خراب کرنے میں بہت فرق ہے کہتے ہیں مُقدّر خراب ہو تو اُونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کُتّا کاٹ لیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اہلِ پاکستان پر یہی اونٹ اور کُتّے والا زمانہ آیا ہُوا ہے! کہیں سے کیسا ہی اُونٹ لے آئیے، قتل و غارت اور بد امنی کا کُتّا کاٹ ہی لیتا ہے! کوئی اگر سمجھ سکے تو ہمیں بھی سمجھائے کہ ہم کیا تھے‘ کیا بننا چاہتے تھے اور کیا بن گئے ہیں؟ بنانے پر آئیں تو ایٹمی ہتھیار بنا ڈالیں۔ نہ بنانا چاہیں تو چھوٹے سے نالے پر معمولی سی پُلیا بھی برسوں تک نہ بنائیں! توڑنے پر آئیں تو آسمان کے تارے توڑنے پر اُتر آئیں‘ اگر طے کر لیں کہ کسی بھی بُرائی اور خرابی کی گردن نہیں توڑنی‘ تو برسوں اُس کے ساتھ نباہ کرتے چلے جائیں۔ بات توڑنے کی چلی ہے تو خیال رہے کہ دہشت گردی کے جن کو بوتل سے نکالنے کے بعد بوتل توڑ دی گئی ہے۔ جب بوتل ہی نہ رہی تو جن بھی بے فکری سے من چاہی وارداتیں کرتا پھر رہا ہے۔ نئی بوتل کا اہتمام ہونے تک تو کوئی بھی اسے روکنے ٹوکنے کی پوزیشن میں دِکھائی نہیں دیتا۔ جن اداروں پر عوام اپنے تحفظ کے حوالے سے تکیہ کرتے ہیں اُنہیں چند شخصیات کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا ہے۔ لیجیے، قصّہ ختم ہوا۔ اب جسے اپنی جان و دِل عزیز ہوں وہ اُس کی گلی میں جائے کیوں؟ یعنی اپنی گلی تک محدود رہے۔ ہر قدم پُھونک کر اُٹھائے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ گھر سے نکلتے وقت کئی دُعائیں پڑھ کر اپنے آپ پر دَم کر لیتے تاکہ حکومتی نااہلی سے محفوظ رہیں۔ مگر یہ کل کی بات ہے۔ کل تک لوگ سڑکوں پر سفر کے دوران اور گلیوں میں چلتے ہوئے خوف زدہ رہا کرتے تھے، اب تو گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ گھر بیٹھے لوگوں کو گولی نہیں ماری جا سکتی تو کیا ہُوا؟ بم دھماکوں کی نذر کرنے میں کون مانع ہو سکتا ہے؟ جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتوں نے شاید تہیّہ کر لیا ہے کہ حالات کو اُس نہج تک جانے دینا ہے کہ لوگ خود ہی کہیں کہ اُنہیں اُن کے ووٹوں سے بننے والی کوئی حکومت نہیں چاہیے۔ ایک طرف دہشت گردی نقطۂ عروج پر ہے‘ دوسری طرف ’’مُنہ کی کھانے والے‘‘ وفاقی وزیر داخلہ نے قوم کے زخموں پر بوری بھر نمک چھڑکنے کی ایک اور کوشش فرمائی ہے۔ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ کوئی وضاحت چاہے تو کہتے ہیں کہ پے در پے اقدامات نے طالبان کو کونوں کُھدروں میں دُبکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ طالبان کی کمر توڑی جا چکی ہے تو پھر یہ سب کیا ہے جو ہو رہا ہے تو جواب ملتا ہے کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے کارکنان حالات خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ آپ سوچیں گے یہ کالعدم تنظیم اچانک کہاں سے آ گئی؟ ہماری دُور اندیش جمہوری حکومتیں بعض پوٹلے سنبھال کر رکھتی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر کھول کر سیاست کے فٹ پاتھ پر نئے پتھارے لگائے جا سکیں۔ کالعدم لشکر جھنگوی کا پوٹلا بھی اسی طرح سیاسی سٹور سے نکالا گیا ہے تاکہ جو کچھ کہیں اور نہ ڈالا جا سکتا ہو اِس میں سے برآمد کر لیا جائے۔ اس تنظیم کا گڑا مُردہ اکھاڑ کر دو فائدے بٹورنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک طرف تو پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالنا مقصود ہے کہ وہ نام نہاد فہرست مل جانے پر بھی دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہی۔ اور دوسری طرف شیعوں اور سُنّیوں کو ’’قریب‘‘ لانا ہے۔ مُلک بھر میں شیعہ، سُنّی دونوں مارے جا رہے ہیں۔ چند عناصر فرقہ واریت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دونوں جانتے ہیں کہ کِس کے اشارے پر کیا ہو رہا ہے۔ مُلک بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں پر جو قیامت ڈھائی جاتی رہی ہے اُس کے نتیجے میں یہ تصوّر عوام کے ذہنوں میں راسخ ہو چکا ہے کہ حکومت خواہ کوئی اشارہ دے، قتل و غارت فرقہ واریت کی بُنیاد پر نہیں بلکہ بعض خفیہ مقاصد کے لیے ہے۔ اب بھی معاملہ یہی ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی پر ڈیڑھ ماہ میں دو مرتبہ قیامت ڈھائی گئی۔ ملک بھر میں احتجاج ہوا مگر احتجاج کرنے والوں نے عام سُنّیوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے حکومتی نااہلی پر لعن طعن کی۔ اب رحمن ملک بار بار کالعدم تنظیم کا نام لے کر معاملات کا رُخ کِس طرف موڑنا چاہتے ہیں؟ اگر حکومت اپنے ’’اقدامات‘‘ سے طالبان جیسے طاقتور حریفوں کو زیر کر سکتی ہے تو لشکر جھنگوی جیسے گروپ کو زیر و زبر کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ جن کے ہاتھ میں اختیار ہے وہ عوام اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ جس کام کا مینڈیٹ ملا ہے وہ تھوڑا بہت تو انجام دیں۔ نیم دِلانہ ہی سہی، دہشت گردی اور قتل و غارت روکنے کی کوشش تو کی جائے۔ یہ کہاں کی غیرت ہے کہ کہیں بم دھماکہ ہو اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موقع پر پہنچنے کے لیے احکام کے منتظر رہیں؟ کراچی کے عباس ٹاؤن میں بم دھماکے کے بعد بہت دیر تک امدادی کارروائی شروع نہ کی جا سکی۔ کیا یہ بھی حکومتی پالیسی کا حصّہ ہے کہ زخمیوں کو بروقت طبّی امداد نہ پہنچائی جائے یا نہ پہنچانے دی جائے؟ کراچی جیسے پھیلے ہوئے اور متنوّع آبادی والے شہر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ بظاہر باندھ دیے گئے ہیں تاکہ کِسی خرابی کی صورت میں وہ کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکیں۔ ہر گام پر سیاسی مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں۔ مُقدّر خراب ہونے اور مُقدّر کو خراب کرنے میں بہت فرق ہے۔ حالات جان بوجھ کر خراب کیے جا رہے ہیں یا اُنہیں بد سے بدتر ہونے دیا جا رہا ہے۔ کسی کے ماتھے پر شرمندگی کی رَمق بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ قوم کسی نہ کسی طرح قتل و غارت، بدامنی اور دہشت گردی کے کُتّے سے بچنا چاہتی ہے مگر دوسری طرف یاروں کی پوری کوشش ہے کہ مُقدّر اور اونٹ کا کھیل چلتا ہی رہے۔ آخر یہ تماشا کب ختم ہو گا؟ ختم ہوتا ہوا مینڈیٹ مزید کِتنے گُل کِھلائے گا؟ قوم کو انتخابات کے فِلٹر سے گزرنے سے پہلے کِتنی خرابیوں کی پائپ لائن سے گزرنا ہے؟ قوم کا نصیب کب جاگے گا یعنی جنہیں حالات درست کرنے کے لیے کچھ کرنا ہے اُن کی نیند کب پوری ہو گی؟