دو لال بیگ نالی میں بیٹھے پیٹ پُوجا کر رہے تھے۔ ایک نے کہا: ’’ذرا سامنے دیکھو‘ ریسٹورنٹ میں لوگ اُجلے کپڑے پہنے، چمکتی ہوئی میز پر رکھا ہوا صاف سُتھرا کھانا کھا رہے ہیں‘‘۔ دوسرا بولا: ’’بس کرو یار، ایسی باتیں مت کرو۔ کھاتے وقت صفائی کے ذکر سے مُجھے مَتلی ہونے لگتی ہے‘‘۔ الیکشن کمیشن اور سُپریم کورٹ نے بھی انتخابات سے قبل اچھی خاصی مَتلی کا اہتمام کرنے کی ٹھان لی ہے۔ یاروں نے جو آوا پینسٹھ برسوں میں خاصے انہماک اور جاں فشانی سے بگاڑا ہے اُسے درست کرنے پر کمر کَس لی ہے۔ جہاں چاروں طرف غلاظت ہی غلاظت ہو وہاں صفائی سُتھرائی کِسے اچھی لگتی ہے؟ یقیناً اُنہیں صفائی کا اہتمام بُرا لگے گا جو رات دِن غلاظت میں اِضافے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ قوم خوش ہے کہ چھ عشروں میں جمع ہونے والا کچرا کِسی بہانے ہٹایا اور جلایا تو جا رہا ہے۔ مگر معترضین کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کیوں نہ بڑھے؟ اہلیت کا جھگڑا ہے۔ بات بات پر سوالات اُٹھ رہے ہیں، اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ جس جس پر مشکل آئے گی وہ تو چیخے گا، چلّائے گا۔ پانچ سال کے بعد عوام کو پھر سبز باغ دِکھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ کُھلا ہے مگر الیکشن کمیشن اور عدلیہ مل کر رکاوٹ بنے جا رہے ہیں۔ اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کا ’’استحقاق‘‘ مجروح ہو رہا ہے۔ جنہیں اقتدار اور اختیار کا کھلونا چاہیے اُن کے دِل ٹوٹ جائیں گے۔ سیاسی موج مستی کی اچھی خاصی غزل کے مقطع میں یہ سکروٹنی جیسی سُخن گسترانہ بات کہاں سے آدھمکی! اب کے تو سیاسی طالع آزماؤں کی جان پر بن آئی ہے۔ اچھا خاصا انتخابی میلہ لگا ہوا ہے۔ کرتب اور شعبدوں کی بہار جوبن پر ہے۔ ایسے میں یہ انتخاب کے لیے اہلیت کی شرائط نوالے میں کنکر کی طرح سارا مزا کِرکِرا کیے دے رہی ہیں۔ جعلی ڈگریوں کا معاملہ ایسا اُٹھا ہے کہ اب بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ معاملہ بہتوں کی کھٹیا کھڑی کرتا اور بھٹّہ بٹھاتا دِکھائی دے رہا ہے۔ ابھی سے شور اُٹھ رہا ہے کہ صادق اور امین کی شرائط بہت سخت ہیں۔ اِس طرح تو بہت سے رہ جائیں گے۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ اعتراض کِس قدر بودا اور بھونڈا ہے۔ معترضین کے مَن کی مُراد یہ ہے کہ انتخابی امیدوار بننے کی اہلیت سے متعلق شرائط نرم کر دی جائیں یعنی اگر کِسی نے قوم کا مال کھایا ہے تو چھان بین نہ کی جائے۔ اثاثوں پر دیے جانے والے ٹیکس کی تفصیل طلب نہ کی جائے۔ اگر کِسی نے بینک کے قرضے معاف کرائے ہیں تو حساب نہ مانگا جائے، راکھ میں دبی چنگاریوں کو کرید کرید کر نہ نکالا جائے۔ نااہلی کے خطرے سے دوچار امیدواروں سے ہمدردی رکھنے والوں نے یہ بھی لِکھ مارا ہے کہ سکروٹنی ایسی سخت نہیں ہونی چاہیے کہ چھلنی میں کچھ نہ بچے۔ اِن تحریروں اور بیانات پر ناطقہ سر بہ گریباں ہے۔ مقصود یہ ہے کہ کِسی کے اقتدار کا سُندر سپنا توڑا نہ جائے، کِسی کے ریت گھروندے کو لات نہ پڑے۔ ایک ٹی وی اینکر نے فرمایا ہے: ’’کسی کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ یہ تو اللہ کا معاملہ ہے‘‘ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عدالت میں کوئی مقدمہ چلایا ہی نہیں جانا چاہیے کیونکہ حقیقت کا علم تو اللہ کو ہے۔ کوئی بیچ چوراہے پر کسی کو چُھری گھونپ دے تو کسی عدالت کو اس کیس کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ قاتل کی نیت کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ مُدّعا کیا ہے؟ صرف یہ کہ جو کچھ اب تک ہوا وہ بُھلا دیا جائے، چھان بین کے بکھیڑے میں نہ پڑا جائے۔ کِسی نے قومی خزانے سے کچھ ہڑپ کر لیا ہے تو اُس کے منہ میں انگلی ڈال کر کھایا پیا نکالا نہ جائے بلکہ ہاضمے کا چُورن تحفے میں دیا جائے۔ یہی لوگ ہیں جو آگے دیکھنے کی بات کرتے ہیں یعنی ماضی کا حساب نہ مانگا جائے۔ اِن کی دلیل یہ ہے کہ ؎ بے خیالی میں کہیں انگلیاں جل جائیں گی راکھ گزرے ہوئے لمحوں کی کُریدا نہ کرو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چوہدری اعتزاز احسن فرماتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر تو قائدِ اعظم بھی پورے نہیں اترتے۔ محترم مجیب الرحمٰن شامی نے بروقت اور برحق لکھا ہے کہ اِس معاملے میں بابائے قوم کی شخصیت کو نہ گھسیٹا جائے۔ اُن کی صداقت اور امانت داری کی گواہی تو دُشمن بھی دیا کرتے تھے۔ کوشش کرنے پر بھی کوئی اُن کے کردار میں جھول دریافت نہ کر سکا۔ کیا اعتزاز احسن یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین اور قانون پر اِتنا عمل کیا جائے کہ یہ کِسی جھوٹے، خائن، چور اور ڈاکو کی راہ میں مزاحم نہ ہوں؟ یعنی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو پہاڑ کو کاٹ پیٹ کر چبوترے میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ کوئی بھی انتخابی مینڈک پُھدک کر بیٹھ سکے۔ اب بیلٹ پیپر میں ایک ایسا خانہ رکھنے کی بات بھی چلی ہے جس کے تحت ووٹر تمام امیدواروں کو مسترد کر سکے گا۔ اِس پر بھی واویلا مچایا جا رہا ہے کہ یوں تو ٹرن آؤٹ کم ہو جائے گا۔ اگر بیلٹ پیپر پر جلوہ گر ہونے والے امیدواروں میں کوئی بھی ڈھنگ کا نہ ہو تو کوئی کِسی کو خواہ مخواہ ووٹ کیوں دے؟ مال ڈھنگ کا نہ ہو تو کوئی کیوں خریدے؟ ایسے میں عدم اعتماد کا اظہار ووٹر کا بنیادی حق ہے۔ کسی حلقے میں 50 فیصد یا اِس سے زائد ووٹرز اگر عدم اعتماد کا خانہ استعمال کریں تو پولنگ دوبارہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ اقدام بالکل درست ہے۔ اِس صورت میں سیاسی جماعتوں کو کچھ تو شرم آئے گی کہ ڈھنگ کا امیدوار میدان میں کیوں نہ اُتارا یعنی اب بھی وقت ہے کہ سوچ سمجھ کر ٹکٹ دیا جائے۔ سُپریم کورٹ چاہتی ہے کہ منتخب ایوان کی رکنیت جیسا منصب جھوٹ بول کر حاصل کرنے والوں کو cut to size کر دیا جائے۔ دوسری طرف بے کردار سیاست دان اور اُن کے طرف دار ہیں کہ آئین کی دفعات اور اُن پر عمل ہی کو cut to size کرنے کے درپے ہیں۔ کم بخت اِتنے ’’صاحب کردار‘‘ بھی نہیں کہ بقول ظفرؔ اقبال اپنے جھوٹ ہی پر قائم رہ کر دِکھا دیں۔ علامہ اقبالؔ نے ایسی ہی کیفیت کے لیے کہا تھا۔ ع خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کِس درجہ فقیہان حرم بے توفیق چیف جٹس افتخار محمد چوہدری نے درست کہا ہے کہ ان پڑھ کو تو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جعلی ڈگری رکھنے والے کو نہیں۔ ان پڑھ ہونا کوئی جرم یا خطا نہیں مگر قوم سے جھوٹ بولنے والے کو تو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ خدا خدا کرکے برف پگھلنے لگی ہے تو کچھ لوگ سیاسی درجۂ حرارت کو نیچے لانے پر تُلے ہوئے دِکھائی دے رہے ہیں۔ اِس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بہت حد تک سیاسی عمل اور قوم کے مفاد میں ہے۔ سکروٹنی جتنی سخت ہو گی اُسی قدر بہتر امیدوار میدان میں رہ جائیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چھلنی میں زیادہ لوگ نہیں رہ پائیں گے تو حیرت کیسی اور افسوس کیوں؟ اچھا ہے کہ سارا کچرا نیچے جا گرے۔ سکروٹنی کی ہوا چلی ہے تو خطرہ اُنہی پودوں کو ہے جن کی جڑ کمزور ہے۔ وہی چراغ واویلا مچا رہے ہیں جن کی لَو تھرتھرا رہی ہے۔ سیاسی عمل میں بہتری کی خواہش رکھنے والے تو خیر سے مطمئن ہیں۔ محسنؔ بھوپالی درست کہہ گئے ہیں ؎ اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا