جن کے فکر و عمل میں نیم دِلی نُمایاں ہو وہ محنت کرنے پر کامیابی سے ہمکنار نہیں بلکہ دوچار ہوتے ہیں! ہم بھی کچھ ایسی ہی نیم دِلی سے ’’ہمکنار‘‘ ہیں! تبدیلی کے نعرے بہت لگ چکے۔ سبھی تبدیلی کو پسند کرنے کا دعوٰی کرتے ہوئے اِس کے لیے متحرک ہونے کا عزم ظاہر کرتے ہیں مگر جب تبدیلی کا عمل شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے تو دِل بیٹھ جاتا ہے۔ جب کہیں تبدیلی آتی ہے تو بہت کچھ آتا ہے مگر ساتھ ہی بہت کچھ چلا بھی جاتا ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ دنیا میں فری لنچ جیسی کوئی چیز نہیں۔ یعنی ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے جو چُکانی بھی پڑتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی فری لنچ کرادے۔ یعنی بیج ڈالنا پڑے نہ کھاد۔ پانی دینے کا مرحلہ وارد ہو نہ دیکھ بھال کا اور اُمیدوں کے کھیت میں مُرادوں کی فصل پوری اُگے۔ عمران خان نے ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا ہے۔ یہ نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ کرپشن، اقربا پروری، نا اہلی اور بے ایمانی سے پاک۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ پہلے تو حکمرانوں کو پاک کیا جائے! ڈرائیور ہی ٹیڑھا ہو تو گاڑی سیدھی کیسے چلے گی؟ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے مل کر اہل سیاست کو بپتسمہ دینے کی تیاری شروع کی ہے تو مخالفت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد میں پیش پیش رہنے والے وکلا برادری کے نمائندے اب کرپٹ سیاست دانوں کے گرد گھیرا تنگ کئے جانے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سبھی نئے آئین سے ڈر رہے ہیں اور طرز کہن پر اَڑے ہوئے ہیں۔ اور منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ایک زمانے سے اہلِ سیاست اور عوام احتساب کا راگ الاپتے آئے ہیں۔ اور اب احتساب کے عمل نے درشن دیئے ہیں تو جلووں کی ایسی فراوانی ہے کہ بدعنوانی پر مبنی سیاست کو پروان چڑھانے والوں کے ہوش اُڑے جاتے ہیں۔ جن سیاست دانوں نے عشروں تک قوم کی محنت کی کمائی پر ڈاکے ڈالے ہیں اُن کی گردن حساب کتاب کے شکنجے میں کَسنے کی تیاری ہو رہی ہے تو اُنہیں احتسابی عمل کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ جعلی ڈگری اور نا دہندہ ہونے کی بنیاد پر انتخاب کے لیے نا اہل قرار پانے والوں کے حاشیہ بردار میدان میں نکل آئے ہیں۔ کردار کی چھان بین پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی نا دہندہ ہے یا کروڑوں کے قرضے معاف کراکے بیٹھا ہے تو اُس کی کلائی مروڑی نہ جائے۔ اِس بار ریٹرننگ افسران واقعی کاغذاتِ نامزدگی ریٹرن کرنے والے افسران ثابت ہوئے ہیں۔ قوم کو ایسے ہی ریٹرننگ افسران کی ضرورت ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ یہ عمل اُنہیں تو پسند نہیں آئے گا جو اب بھی قوم کے وسائل پر زندگی کے سارے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ اسکروٹنی سخت نہیں ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ تجربے جانوروں پر کئے جاتے ہیں، اِنسانوں پر نہیں۔ سابق وزیراعظم نے سخت اسکروٹنی کو تجربہ شاید اِس لیے کہا کہ اہل سیاست کو اِس طرح کا کوئی تجربہ نہیں! گیلانی صاحب نے کبھی اہل سیاست کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ اقتدار کی لیبارٹری میں عوام کو جانور سمجھ کر اُن پر تجربات نہ کیا کریں! اگر سخت اسکروٹنی تجربہ ہے بھی تو یہ قومی خزانے کو چیر پھاڑ کر کھا جانے والے حیوانوں ہی پر کیا جارہا ہے۔ عوام کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بات بات پر میدان میں نکل آنے والے کیوں پریشان ہیں؟ اگر سیاسی بازی گروں کا احتساب ہو رہا ہے اور اُنہیں مزید شعبدے دِکھانے سے باز رکھنے کا اہتمام کیا جارہا ہے تو چند تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کے خود ساختہ رہنماؤں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھ رہے ہیں؟ وہ کیوں شور مچا رہے ہیں کہ سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے؟ پانچ سالہ جمہوری میعاد کے دوران عوام کو جس بُری طرح نشانہ بنایا گیا اُسے نظر انداز کرکے یہی راگ الاپا گیا کہ منتخب حکومت کی میعاد پوری ہونے دی جائے۔ فضا تھوڑی سی اُداس ہے۔ انتخابات میں اب ایک ماہ رہ گیا ہے مگر وہ گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہم رونق میلے کے عادی ہیں اِس لیے ماحول تھوڑا عجیب لگ رہا ہے۔ ذہن اُلجھے ہوئے ہیں، بے یقینی سی پائی جاتی ہے۔ تھوڑی بہت ہلچل مچی ہے تو کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے عمل سے۔ اسکروٹنی خوب ہنگامہ خیز رہی ہے جس نے بہتوں کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ کئی بُت اوندھے پڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ الیکشن لڑنے والوں کے بارے میں چھان بین انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گی اور قوم کو دھوکا دیکر کامیاب ہونے والوں کو بعد میں بھی نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم نے وہ ہنگامہ برپا کیا ہے کہ کئی جماعتیں اب تک اندرونی عدم استحکام سے دوچار ہیں۔ ٹکٹ نہ ملنے پر کئی ناکام کارکنان کھمبے پر چڑھ گئے۔ کِسی نے پارٹی قیادت کو لتاڑنا شروع کردیا۔ کوئی اپنے گروپ کے ساتھ الگ تھلگ رہنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں پیدا ہونے والی خرابیاں بھی سفّاک اسکروٹنی کی پیدا کردہ ہیں۔ جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ کیسے طے کرتیں، جانچ پڑتال میں کئی بڑے نام ناکامی سے دوچار ہوئے۔ جماعتیں کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے مرحلے کو ختم ہوتا ہوا دیکھنا چاہتی تھیں تاکہ چَھلنی میں باقی رہ پانے والوں کو گلے لگایا جائے۔ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض تھے اُن میں سے بہتوں کو خوشی بھی ہے کہ چلو، عزت رہ گئی۔ اسکروٹنی کے مرحلے میں ناکامی پر خواہ مخواہ بَھد اُڑتی اور تب احتجاج کے لیے کِسی کھمبے پر چڑھنے کی گنجائش بھی نہ ہوتی! انتخابی عمل میں میلے کا سماں اور سرکس کی رنگینی تلاش کرنے والوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب وہ پہلا سا مزا کہاں سے لائیں! کِسی کو یہ غم لاحق ہے کہ اسکروٹنی کے نام پر انتخابی پرندوں کے پَر کترنے کی کوشش منطقی حدود سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ وضاحت کسی نے نہیں کی کہ منطقی حدود ہوتی کیا ہیں۔ کِسی کا شِکوہ یہ ہے کہ حالات کی خرابی کے باعث انتخابی مہم میں وہ پہلی سی گہما گہمی دکھائی نہیں دیتی۔ اِس کا سبب بھی یہ بیان کیا جارہا ہے کہ سخت اسکروٹنی کے باعث ہر طرف بے یقینی پھیلی ہوئی ہے۔ پھر وہی سوال سامنے آگیا کہ ہم نیا پاکستان چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہاں تو پھر بہت کچھ ترک کرنا اور بہت کچھ گلے لگانا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تبدیلی آئے اور کچھ بھی نہ بدلے۔ حالات کے پردے میں کچھ نیا ہے، کچھ ہٹ کر ہے جو نمودار ہونے کو بے تاب ہے۔ جنہیں ملک کی باگ ڈور سونپی جاتی رہی ہے وہ ایک مدت سے ڈراتے آئے ہیں کہ ملک تباہی کے دہانے یا نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ملک کو تباہی کے دہانے سے دور اور نازک موڑ سے ہٹاکر درست راہ پر گامزن کیوں نہ کیا جائے؟ لوہے کو اچھی طرح گرم کرنے کے لیے پہلے تھوڑا سا گرم کرکے پانی میں بُجھایا جاتا ہے اور اِس کے بعد پھر آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اہل سیاست پانی میں بُجھائے جانے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ دُھواں تو اُٹھے گا، بخارات تو اُڑیں گے اور لوہا ڈھنگ سے گرم ہوگا توہی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاسکے گا۔ قوم اور اہل سیاست کو اِس عمل سے بخوشی گزرنا چاہیے۔