سُنتے آئے ہیں کہ بادشاہوں کے زمانے میں کوئی جنتر منتر ہوا کرتا تھا۔ جو اِس میں گیا، لَوٹ کر نہیں آیا۔ شاہی مَحلّات کی غلام گردشوں کا ذکر بھی قدیم داستانوں میں مِلتا ہے۔ ویسے موجودہ دور کے ایوان ہائے اقتدار کی غلام گردشیں بھی کچھ کم نہیں۔ عہدِ رفتہ کی کہانیوں میں بُھول بُھلیّاں بھی مذکور ہیں۔ اِن میں لوگ گم ہوکر رہ جایا کرتے تھے، واپسی کا راستہ نہ سُوجھتا تھا۔ بادشاہ، ملکہ، شہزادہ، شہزادی اور دیو کی کہانیوں میں طِلِسمات کی ایسی دُنیا کا بھی بیان ملتا ہے جس میں مُڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جایا کرتا تھا! آج کی دُنیا کو اُداس ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو کچھ داستانوں میں پایا جاتا ہے وہ ہم نے بھی منصۂ شہود پر لانے کی حتّی المقدور کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیابی نے ہمارے بھی قدم چُومے ہیں۔ انتخابی دنگل جوبن پر ہے۔ فائنل راؤنڈ شروع ہوا چاہتا ہے۔ تمام جماعتوں کے ہیوی ویٹس لنگوٹ مزید کَس کر میدان میں آچکے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی لنگوٹ بچانے سے زیادہ حریف کی لنگوٹ اُتارنے کی خواہش سے بھی پنجہ آزمائی کرنی پڑ رہی ہے! ہم سب ایک دوسرے کا عکس ہی تو ہیں۔ جیسے ہم ہیں ویسے دوسرے ہیں، جیسے وہ ہیں ویسے ہم ہیں۔ سیاست دان بھی کوئی آسمان سے تو اُترے نہیں کہ دُودھ کے دُھلے ہوں اور ہم اُن کے مُطہّر ہونے کی شہادت دینے سے نہ کترائیں! جس طرح معاشرے میں دوسرے سب لوگ باہم دست و گریباں ہیں بالکل اُسی طرح سیاست دان بھی ایک دوسرے کی پگڑی اُچھال رہے ہیں۔ کہیں کہیں تو پگڑی بھی نہیں رہی اور ٹوپی بھی عَنقا ہے۔ ایسے میں سَر کے بالوں ہی کو ہدفِ استہزاء بنایا جارہا ہے! انتخابی نشانات نے ایک نئی دُنیا کو جنم دیا ہے۔اپنے انتخابی نشان کی شان میں رطب اللسان رہنے اور دوسروں کے انتخابی نشان کو کچرے کا ڈھیر ثابت کرنے کی کوشش نے سیاست دانوں کو گھن چَکّر بنا ڈالا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ بَلّا صرف چوکے اور چَھکّے ہی نہیں لگاتا، اِس سے پھینٹی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی جُملوں میں بَلّے کو خوبصورتی سے استعمال کرکے عمران خان نے حامی اور مخالفین دونوں کی سماعتوں کو خوب پھینٹی لگائی ہے! لوگ سُننے آئے ہوں شیر کی بُرائی اور اُن سے خود اُن کا ’’بَلّا بردار‘‘ ہیرو کہے کہ شیر پر مُہر لگائیے تو ذرا سوچیے کہ سامعین کے دِلوں پر کیا گزرے گی! جب مخالفین کا انتخابی نشان حواس پر سوار ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ شیر پر سواری کے دعویدار اُس کے تصور کو اپنے ذہن پر سوار ہونے سے نہیں روک پائے! انتخابی نشانات کا میل ملاپ کرانے میں شہباز شریف کا کوئی ثانی نہیں۔ عمران خان کا بَلّا اُن کے حواس پر ایسا سوار ہوا ہے کہ دِماغ سے عقل کی ساری ملائی چاٹ گیا ہے! کئی انتخابی جلسوں میں شہباز شریف نے کہا کہ بَلّا اور تیر ایک ہوچکے ہیں۔ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ملاپ کیسے ہوسکتا ہے! عمران تو آصف زرداری کو اپنے بیانات میں کئی بار بولڈ کرچکے ہیں۔ تیر اور بَلّے کے ایک ہوجانے کے الزام سے متعلق کوئی ثبوت شہباز شریف کے پاس تھا ،نہ ہے۔ ویسے سیاسی الزام کِسی ثبوت کا محتاج نہیں ہوا کرتا! بات یہیں تک رہتی تو کوئی بات نہ تھی۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ نے سوچا تیر اور بَلّے کو ایک تو کردیا، اب کہیں پہنچانا بھی چاہیے۔ ایک قدم آگے جاکر اُنہوں نے کہا کہ تیر اور بَلّا مِل کر سائیکل پر سوار ہوچکے ہیں! اِس ’’انکشاف‘‘ سے یہ ثابت ہوا کہ تیر، بَلّا اور سائیکل مِل کر سابق خادم اعلیٰ کے اعصاب پر سوار ہوچکے ہیں! اب اُن سے کون پوچھے کہ کبھی کوئی تیر بھی سائیکل پر سفر کرتا ہے! اور بَلّے کا سائیکل سے کیا جوڑ؟ گھوڑا کہیے تو ہم سوچیں کہ چلو، چوگان یا پولو کی طرز کا کوئی نیا کھیل ایجاد ہوا ہے جس میں گُھڑ سوار بیٹ کی مدد سے گیند کو گول پوسٹ کی طرف ہٹ کرتا ہے! ویسے عوام یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ بَلّا، تیر اور سائیکل تینوں ہی بے جان ہیں تو پھر اُن سے شیر کیوں خوف کھا رہا ہے؟ شیر سرکس ہی کا کیوں نہ ہو، شیر ہوتا ہے! ن لیگ والے کہتے ہیں کہ شیر پر مہر لگائیے۔ چلیے، ہم مان لیتے ہیں کہ لوگ اِس کے لیے تیار ہو جاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ شیر کے پاس جانے کی ہمت کہاں سے پیدا کی جائے۔ مُہر لگانے میں شیر نے پہل کردی تو؟ ن لیگ والے کے قائدین کہہ چکے ہیں کہ گیارہ مئی کو شیر دَھاڑے گا تو سب بھاگ کھڑے ہوں گے؟ اگر سبھی بھاگ کھڑے ہوں گے تو کیا ووٹرز میں اِتنا دم ہے کہ شیر کے سامنے کھڑے رہیں؟ لوگ بَلّے کو بھی آزمانا چاہتے ہیں مگر اشتہارات میں بَلّے کو کِسی اور انداز سے استعمال ہوتے ہوئے دِکھایا جارہا ہے۔ بالخصوص سُلطان راہی والے انداز سے! نوجوان ہاتھوں میں بَلّے تھام کر جس طرح کرپٹ پٹواری کو سیدھا اور ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہیں بالکل اُسی طرح 1978 ء کی بلیک اینڈ وھائٹ فلم ’’لاہوری بادشاہ‘‘ میں سلطان راہی نے ہاکی کی مدد سے پورے لاہور کے بدمعاشوں کو خاک چٹا دی تھی! ہم یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتے کہ تحریکِ انصاف نے سلطان راہی سے اکتساب کیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے سلطان راہی کو اِلقاء ہوا ہو کہ کبھی کوئی ایسی جماعت بھی آئے گی جو بَلّے کی مدد سے تمام بدمعاشوں کو پھینٹی لگائے گی اور یوں اُنہوں نے ایک عظیم سیاسی آئیڈیا پیدا ہونے سے پہلے ہی چُراکر سِلور اسکرین پر استعمال کر ڈالا! اگلے وقتوں کے سیاست دان بھی کیسے سادہ لوح تھے کہ ایک دوسرے کو منشور کی بنیاد پر نشانہ بنایا کرتے تھے۔ ’’کوتاہ بینی‘‘ کا وہ زمانہ کب کا ہَوا ہوچکا ہے۔ اب منشور کا رونا نہیں رویا جاتا اور وعدے کئے جاتے ہیں نہ دعوے۔ اپنی عظمت کا راگ بھی نہیں الاپاجاتا۔ آج کی سیاسی اور انتخابی سرگم کچھ اور ہے۔ اب مخالفین کو نشانہ بنانے ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اور نشانہ بھی انتخابی نشان کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ کون دُور کی کوڑیاں لاتا پھرے۔ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ حریف کے انتخابی نشان میں کیڑے تلاش کیجیے۔ پھر چُن چُن کر یہ کیڑے نکالتے جائیے اور پرستاروں کو دِکھاتے جائیے! جب چھوٹے سے دائرے میں گھومنے سے بات بن سکتی ہو تو زیادہ محنت کرنے اور دور افتادہ مقامات کی خاک چھاننے کی کیا ضرورت ہے؟