ہمیں تسلیم و رضا سے عار ہے۔ اقرار کی عادت نہیں، اِنکار ہی بُنیادی شعار ہے۔ انتخابی مہم ختم ہوئی تو احتجاجی مہم چل پڑی ہے۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی ’’درخشاں‘‘ روایت نے ایسی ’’روشنی‘‘ بکھیری ہے کہ بقول فرازؔ ہم سے راستہ بھی دیکھا نہیں جاتا! جوش و خروش کے چولھے پر انتخابی مہم کی دیگ چڑھی ہوئی تھی۔ وہ دیگ ہم نے پولنگ ڈے پر اُتاری اور جمہوریت کی نذر و نیاز سے فارغ ہوئے۔ مگر خیر سے جوش و خروش کا چولھا بند نہ ہوا، اب اُس پر احتجاج کی دیگ چڑھی ہوئی ہے اور سبھی مقدور بھر حِصّہ ڈال رہے ہیں! منتخب ایوانوں میں جسے جو کچھ بھی ملا ہو اُسے وہ اپنا حتمی اور ابدی مقدور اور باپ کی جاگیر سمجھ لیتا ہے۔ ووٹ کی پرچی احتساب کی پرچی بھی تو ہوتی ہے۔ جو لوگ کاندھوں پر بٹھاتے ہیں وہی زمین پر پٹخ بھی دیتے ہیں۔ سَر آنکھوں پر بٹھایا جانا تو قبول کرلیا جاتا ہے مگر زمین پر پٹخا جانا ہضم نہیں ہو پاتا۔ بیشتر جماعتوں اور سیاست دانوں کا یہی وتیرہ ہے۔ اے این پی نے اچھا کیا کہ دھاندلی کا راگ الاپنے کے بجائے انتخابی نتائج کو عوام کی رائے سمجھ کر قبول کرلیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہی بات عوام کو پسند آجائے اور وہ آئندہ انتخابات میں اے این پی کے لیے اپنی رائے کِسی حد تک بدلنے کی تحریک پائیں۔ اِنکار جن کی فطرت میں گندھا ہوا ہو وہ ہر معاملے میں بات ’’نا‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے بھی ’’اِنکاری‘‘ قبیلے کے لوگ تیزی سے متحرک ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نتائج کو متنازع قرار دیتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے کئی حلقوں میں دھاندلی کی۔ بات بہت عجیب ہے۔ جو جماعت اب تک اقتدار کے ایوان یا انتظامیہ کے گلیاروں تک پہنچی ہی نہیں وہ دھاندلی کِس طور کرا پائے گی؟ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے عندیہ دیا ہے کہ وہ حکومت نہیں بنائے گی۔ یعنی اگر ٹاس تحریکِ انصاف نے جیت لیا ہے تو اُس سے بیٹنگ بزور نہیں لی جائے گی! پنجاب کے سابق اور متوقع وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ مگر مولانا فضل الرحمٰن بضد ہیں کہ چھوٹی جماعتوں کو مل کر حکومت بنانی چاہیے۔ اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو بھی حکومت سازی کے لیے متحرک ہونے کی دعوت دی تھی! اِسے کہتے ہیں مُدّعی سُست، گواہ چُست! فضل الرحمٰن نے میڈیا پر جانب داری کا الزام عائد کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ بعض اینکرز کو اب تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرلینی چاہیے! مولانا سے ہم کہیں گے بے فکر رہیے۔ اینکرز نے جہاں دُنیا بھر سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے، مولانا صاحب سے بھی یہ بات سیکھ ہی لی ہوگی! مولانا کا شِکوہ بجا ہے۔ شدید گرمی میں انتخابی مہم کی گرما گرمی نقطۂ عروج کو پہنچی اور پولنگ ڈے پر ختم ہوئی۔ مگر ’’رونق‘‘ میلہ ختم نہ ہوا۔ انتخابی سلسلہ ختم ہوا تو احتجاجی سلسلے کو راہ مِل گئی۔ احتجاجی سلسلے کے مُریدین پورے خشوع و خضوع کے ساتھ کمر کَس کے میدان میں نکل آئے ہیں۔ انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دھرنے دیئے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں یہ تماشا جاری ہے مگر کراچی خاص طور پر نشانہ بنا ہے۔ دھرنوں کے باعث کئی شاہراہیں جام رہتی ہیں اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ شکر خورے کو کہیں نہ کہیں سے شکر مل ہی جاتی ہے۔ میڈیا والے پریشان تھے کہ انتخابات تو ختم ہوئے۔ اب کیا ہوگا؟ احتجاجی ماحول شروع کرکے یاروں نے میڈیا والوں کی پریشانی بھی ختم کردی! معاملہ محبت کا ہو یا نفرت کا، ہم اظہار میں دیر نہیں لگاتے۔ کرکٹ ہو یا اداکاری، پراپرٹی بزنس یا سیاست، دوستی ہو یا دُشمنی… یا کوئی اور معاملہ، سارا کھیل ٹائمنگ کا ہے۔ سسی پلیجو سمیت پیپلز پارٹی کے پانچ کامیاب اُمیدواروں نے غیر معمولی خود اعتمادی کو کلہاڑی میں تبدیل کیا اور اپنے ہی پیروں پر دے مارا! کامیاب قرار دیئے جانے پر بھی اِن کے دِلوں کو سُکون نہ ملا۔ خُدا ہی جانے دِماغ کی کون سی رَگ ڈھیلی ہوئی کہ شکست خوردہ حریف کے متحرک ہونے سے پہلے اِن جیتے ہوئے اُمیدواروں نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے ڈالی۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی! دوبارہ گنتی ہوئی تو چند سو ووٹوں کے فرق سے حریف جیت گئے! اِنکار صرف یہ نہیں ہے کہ آپ حریف کی کامیابی قبول نہ کریں۔ اِنکار کی ایک بدلی ہوئی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے اور حریف کے معیار کا معمولی فرق مُسترد کرتے ہوئے اپنی کامیابی کو قبول کرنے سے بھی انکار کردیں! شکست تسلیم نہ کرنے یعنی دوسروں کے مینڈیٹ کو مکمل طور پر تسلیم نہ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً پیپلز پارٹی سندھ میں جارحانہ مزاج کا وزیر اعلیٰ لانا چاہتی ہے تاکہ وہ وفاقی حکومت کو ٹونگے مارتا رہے، اُلجھنیں پیدا کرتا رہے! آغا سراج دُرّانی، میر ہزار خان بجارانی اور نثار کھوڑو کے ناموں پر غور ہو رہا ہے۔ ذوالفقار مرزا بیمار نہ ہوتے تو اُنہیں بھی کوئی جارحانہ منصب دینے پر ضرور غور کیا جاتا! اویس مظفر المعروف بہ ٹپّی کو سینئر وزیر بنانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ انتخابی نتائج کے غیر حتمی، غیر سرکاری نتائج کے اعلان کے بعد وفاق اور صوبوں میں پوزیشن واضح ہونے پر میاں نواز شریف نے غیر معمولی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقرار اور انکار کا حسین امتزاج اپنایا ہے۔ ایک طرف تو اُنہوں نے تحریکِ انصاف کا مینڈیٹ قبول کرتے ہوئے عمران خان کی عیادت کی اور بعد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین صحت یاب ہوجائیں تو فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔ اشارا یہ ہے کہ وفاق میں تصادم کیفیت پیدا کرنے سے گریز کیا جائے گا اور جیسی فرینڈلی اپوزیشن پانچ سال خود چلائی ویسی ہی عمران خان سے چاہیں گے! اچھا ہے تصادم نہ ہو اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ مُلک بھی اچھی طرح چلتا رہے۔ اِس دھرتی کو اب اقراری قبیلے کے لوگ درکار ہیں۔ انکاری قبیلے سے وابستگی نے پُورے ماحول کو مُکدّر اور پراگندہ کردیا ہے۔ جنہیں انتخابات نے نئی زندگی اور بہتر مواقع عطا کئے ہیں اُنہیں رب کا شکر ادا کرتے ہوئے انکار کے خول سے باہر آکر اپنے خیالات کو اقرار کی خلعتِ فاخرہ سے آراستہ کرنا چاہیے۔ اِسی کو سیاسی جامہ زیبی کہا جاسکتا ہے۔ قوم اِقرار کی حالت اور اُس کے نتیجے میں قرار چاہتی ہے!