کارل مارکس زندگی بھر غور و فکر کی راہ پر گامزن رہا۔ لوگ اُس کی باتوں میں پتہ نہیں کیسے کیسے فلسفے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ہم سے پوچھیے تو ہم بتائیں کہ اُس نے کوئی خاص تیر نہیں مارا۔ چند باتیں کُلیے کے طور پر بیان کیں اور اُن میں سے بھی بیشتر غلط نکلیں۔ مثلاً اُس نے نظریاتی ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہے۔ ہم نے اِس نُکتے پر غور کیا تو جی چاہا کارل مارکس کی رُوح کو بے نُقط سُنائیں۔ اُس نے آنے والے زمانوں کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لیا تھا اور جو کچھ ہونا ہے اُس کا خاکہ کھینچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ مگر یہ بات اُس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی کہ کبھی پاکستان کے نام سے ایک مُلک قائم ہوگا جس کے لوگ ماحول نہیں، شور کی پیداوار ہوں گے! موسمیات کے ماہرین فضا میں نمی کا تناسب جانچتے پھرتے ہیں۔ کبھی فضا میں شور کے تناسب کی پیمائش کی ہے؟ آپ سوچیں گے شاید اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ اِنسان صحرا میں ہو تو پانی تلاش کرتا ہے اور پانی بہت دور بھی ہو تو لپک کر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سمندر میں بھلا کون پانی کی طرف دیکھتا ہے؟ مشہور جرمن فلسفی شوپنہار نے شور یعنی صوتی آلودگی کو سنگین ترین جرائم میں شمار کرتے ہوئے اسے انہماک کی موت قرار دیا تھا۔ 22 فروری 1788ء کو اِس دنیا میں آنے والا آرتھر شوپنہار 21 ستمبر 1860ء کو دُنیا سے رُخصت ہوا۔ اُس کے زمانے تک کی ایجادات میں ایسی اشیا کم کم تھیں جن سے غیر معمولی شور پیدا ہو۔ فَرّاٹے بھرتی کاریں تھیں نہ بغیر سائلنسر کی موٹر سائیکلیں۔ سڑک چھاپ ہوٹل تھے نہ اُن میں گونجتے نغمے۔ مشینی یا صنعتی دور مکمل وارد نہیں ہوا تھا۔ آج سے کئی ہزار گنا پُرسکون ماحول کو شوپنہار صوتی اعتبار سے انتہائی آلودہ تصور کرتا تھا تو تصور کیجیے کہ آج اگر دوبارہ اِس دنیا میں بھیجا جائے تو اُس کا کیا حال ہو! شور نے گفتگو کے لازمی جُز کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ جس طرح پانی کے بغیر آٹا گوندھنا ممکن نہیں بالکل اُسی طرح شور کے بغیر گفتگو ممکن بھی نہیں! جس طرح کچھ لوگ تدفین کے بعد مَیّت والے گھر میں کھانے کے دوران بھی بوٹیوں کا خیال ذہن سے نہیں نکال پاتے بالکل اُسی طرح بہت سے لوگ گفتگو کی بریانی میں شور کی بوٹیاں تلاش کرتے ہیں۔ اور اگر نہ مِلیں تو شامل کرتے ہیں! لِکھنے کے لیے ’’برین اسٹارمنگ‘‘ ناگزیر ہے۔ یعنی آپ دیگر کاموں سے فراغت پاکر کِسی گوشۂ عافیت میں بیٹھیں اور ذہن کو حرکت دیں۔ سادہ اور عوامی الفاظ میں کہیے تو لِکھنے کے لیے دِماغ میں خیالات کی لَسّی بنانی پڑتی ہے! ذہن میں طوفان اُٹھایا جاچکا یعنی برین اسٹارمنگ سیشن مکمل ہوچکا ہے۔ سوچے ہوئے کو تحریر کی شکل دینے کا مرحلہ آگیا۔ اب آپ لِکھنے بیٹھے ہیں۔ ہاتھ میں قلم ہے جو کاغذ پر گامزن ہونے کو بے تاب ہے۔ آپ اپنے ذہن کی رَو میں بہنے کے لیے تیار ہیں۔ اچانک شور سا اُٹھتا ہے۔ خیالات کا سِلسِلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ گھبرا اُٹھتے ہیں اور پھر اُٹھ کر کِھڑکی سے جھانکتے ہیں تو سڑک پر چار چھ ٹھیلے دکھائی دیتے ہیں۔ چند ٹھیلے پھلوں کے ہیں اور چند ایک پر کاٹھ کباڑ لَدا ہوا ہے۔ شور کی نوعیت آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید ٹھیلوں کا تصادم ہوگیا ہے۔ آپ تین منزلیں اُتر کر سڑک پر پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چند پھل فروش اور کباڑی ہوٹل پر چائے کی چُسکیاں لیتے ہوئے پاکستان کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں! آپ کے خیالات کا سِلسِلہ ٹوٹا ضرور مگر پھر بھی آپ نے سُکون کا سانس لیا کہ گپ شپ ہی ہو رہی ہے، دنگا فساد تو بہر حال نہیں ہو رہا! صورتحال پر پھل فروشوں اور کباڑیوں کی ’’گراں قدر‘‘ آراء کو ذہن سے جھٹک کر آپ دوبارہ لِکھنے بیٹھتے ہیں۔ خیالات پھر ایک نُقطے پر آنے لگتے ہیں، انہماک میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہونے لگتی ہے۔ آپ لِکھنا شروع کرتے ہیں مگر ابھی آپ چند جُملے ہی لِکھ پاتے ہیں کہ فضا فائرنگ سے گونج اُٹھتی ہے اور آپ کا انہماک ایک بار پھر تِتر بِتر ہو جاتا ہے۔ آپ قرطاس و قلم سے رشتہ پھر توڑ کر کِھڑکی کے پاس پہنچتے ہیں تاکہ دیکھیں اِس بار کون سی مصیبت نازل ہوئی ہے۔ باہر سڑک پر سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ آپ سڑک پر کِسی کو اپنی متوجہ کرکے اشارے سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ وہ اشارے سے جواب دیتا ہے کہ کچھ نہیں ہوا، رکشے کے کاربوریٹر میں کچرا پھنس گیا تھا! زہے نصیب، رکشے کے انجن سے دَغنے والے پٹاخوں نے ٹارگٹ کلنگ کا ماحول پیدا کردیا! حقیقت سے آگاہ ہونے پر آپ پورے ماحول کو قدرے بلند آواز میں چند سُخن ہائے ناگفتنی کے ذریعے ’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرتے ہیں اور دوبارہ لِکھنے پر مائل ہوتے ہیں۔ اب آپ کو شوپنہار کی طرح کُڑھنے کے بجائے صوتی آلودگی کا عادی ہو جانا چاہیے۔ انہماک توڑتی آوازوں کا رونق میلہ تو لگا رہے گا۔ دریا کا تو کام ہی بہتے رہنا ہے۔ سانورے کی بنسی کو بجنے سے کام۔ سُورج تو آگ برسائے گا۔ سائبان کا اہتمام آپ کو کرنا ہے۔ جسے شور سے بچنا ہے وہ شور سے کچھ نہ کہے، اپنے کان بند کرلے! بُہتوں کو بولتے رہنے کی بیماری لاحق ہے۔ بولتے رہنا محض ذہنی مرض نہیں بلکہ صوتی آلودگی کا ایک بُنیادی سبب بھی ہے۔ آپ زیادہ اعتراض کریں گے تو جواب ملے گا کہ جو مُنہ کھانے، جماہیاں لینے، للکارنے، مصیبت کی گھڑی میں بُجھنے اور ہمدردی بٹورنے کی خاطر لٹکانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے وہ بولنے کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جاسکتا! یہ سُن کر آپ، ظاہر ہے، لاجواب سے ہوکر رہ جائیں گے! یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ چُپ سادھ لینے کی صورت میں آپ صوتی آلودگی میں اِضافے کے الزام سے بچ جائیں گے! پُختہ عادتیں مُشکل سے جان چھوڑتی ہیں۔ نقصان بھی پہنچا رہی ہوں تو ہم جھیلتے رہتے ہیں۔ اُن سے جُدائی کا تصور بھی محال ہوتا جاتا ہے۔ شور کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اب خاموشی کے تصور سے بھی ڈر لگتا ہے۔ ؎ اِتنے مانوس صَیّاد سے ہوگئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!