’’بس یار، میں ابھی آیا۔‘‘ ’’وہیں انتظار کرو، میں پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔‘‘ ’’بس یہ سمجھو کہ میں یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ ’’پریشان مت ہو۔ میں آندھی کی طرح گھر سے نکلا ہوں اور طوفان کی طرح تم تک پہنچوں گا۔‘‘ یہ اور ایسے ہی دوسرے درجنوں جملے آپ نے ضرور سُنے ہوں گے۔ اور سُنے کیا ہوں گے، اپنی زبان سے ادا بھی کئے ہوں گے۔ یہ تمام جُملے اِس بات کے غمّاز ہیں کہ ہم وقت کو کم از کم زبانی حد تک تو اہم سمجھتے ہی ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ اگر ہم اِتنا بھی نہ کریں تو کوئی ہمارا کیا بگاڑ لے گا؟ اگر کِسی کو دینے کے لیے گُڑ نہ ہو تو کم از کم میٹھی بات ہی کرلینی چاہیے۔ اہلِ جہاں کا عجیب چلن ہے کہ وقت کی کمی کا رونا روتے روتے پتہ نہیں کیا کیا ایجاد کرنے تُلے رہتے ہیں تاکہ وقت کی بچت ہو۔ ہر اِنسان کے حصے میں آنے والا وقت کِتنا ہوتا ہے یہ تو آپ ہم سب ہی جانتے ہیں مگر یہ سوال ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ دِن رات کی مشقت اور نظم و ضبط کے نتیجے میں بچائے ہوئے وقت کا لوگ کیا کرتے ہیں؟ جب تمام کام اپنے طے شدہ وقت سے کم مُدّت میں انجام پارہے ہوں تو بچے ہوئے وقت کا کیا اچار ڈالنا چاہیے؟ مغرب میں تو عجیب حال ہے۔ لوگ کِسی کو پانچ دس منٹ دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ اور کِسی کو دو چار منٹ اِضافی انتظار کرنا پڑ جائے تو آسمان سَر پر اُٹھا لیتا ہے۔ یہ تو وقت کو سَر آنکھوں پر بٹھاتے بٹھاتے سَر پر چڑھانے والی بات ہوئی! وقت نے ہر دور میں اِنسان کو گھن چَکّر بنایا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا ؎ وقت سے دِن اور رات، وقت سے کل اور آج وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہر شے پہ راج آج اگر وہ ہوتے تو وقت پر پاکستانیوں کی حکمرانی دیکھ کر اپنے آپ سے شرمندہ ہوتے! ہم نے کمال ہوشیاری سے وقت کو غُچّہ دے دیا ہے۔ جو وقت دُنیا کو تِگنی کا ناچ نچاتا ہے اُس کی ہم نے چوکڑی بُھلادی ہے۔ اب وقت ہاتھ باندھے ہمارے سامنے کھڑا رہتا ہے اور زبانِ حال سے کہتا ہے … بھائی صاحب! جس طرح چاہو خرچ یا ضائع کرو، میں تمہارا ہوں اور تمہارا ہی رہوں گا! دُنیا کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ وقت کو زیادہ سے زیادہ بار آور بنانے کی کوششیں ہیں کہ دم نہیں توڑتیں۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب دیکھ کر ہماری ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ کیوں نہ چُھوٹے؟ وقت کم اور مقابلہ سخت والی بات ہمارے حلق سے آج تک نہیں اُتر سکی۔ کیسی کمی؟ اور مقابلہ؟ کیسا مقابلہ، کہاں کا مقابلہ؟ پتہ نہیں دُنیا نے بھی کیسے کیسے جھمیلے پال رکھے ہیں۔ جسے دیکھیے وہ لمحوں کے بُخارات کی شکل میں اُڑن والے وقت کو تھامنے، بلکہ دانتوں سے پکڑنے کے لیے بے تاب ہے۔ ہر اِنسان کو روزانہ چوبیس گھنٹے ملتے ہیں۔ اِن چوبیس گھنٹوں میں جو کرنا ہے، کیجیے۔ لوگوں کو پتہ نہیں کِتنے کام کرنے ہوتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے بھی کم پڑتے ہیں۔ اب کیا اُن کے لیے کائنات کے اُصول اور ہیئت کا نظام تبدی کردیا جائے؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کِسی قوم کے وقت میں ڈنڈی مار کر دوسری قوم کو نوازا جائے! پاکستانی قوم کو دیکھ کر اہلِ جہاں کو اندازہ ہو جانا چاہے کہ اِس دُنیا میں وقت کی کمی ہے نہ مقابلہ سخت ہے۔ کوئی بھی تکلیف اُسی وقت تکلیف ثابت ہوتی ہے جب اُسے محسوس کیا جائے۔ وقت کے معاملے میں بھی ہم نے یہی ’’طریقِ واردات‘‘ اپناکر تمام تکالیف کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ہے! اب ہر طرف سُکون ہی سُکون ہے۔ راوی کا کام اب صرف چَین لِکھنا رہ گیا ہے۔ دُنیا والوں نے اپنے طور پر فرض کرلیا ہے کہ ایک مقابلہ بھی ہوتا ہے اور اُس میں شریک بھی ہونا چاہیے۔ کیوں ہونا چاہیے؟ کیا پُرسکون زندگی بسر کرنے میں کوئی قباحت ہے؟ اِس دُنیا کو عزت راس آتی ہے نہ سُکون۔ اِس مسابقت پسندی ہی نے سب کی حالت پتلی کردی ہے۔ بقولِ غالبؔ ع صُبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا! ہم پاکستانیوں نے ہر طرح کی قباحت سے آزاد زندگی بسر کرنے کے انوکھے تصورات متعارف کرائے ہیں۔ پُرسکون زندگی کی راہ میں سب سے بڑی دیوار یہ ہے کہ دَم بہ دَم وقت کی کمی کا رونا رویا جائے اور اِس غم میں بہت سے کام چوپٹ کرلیے جائیں! وقت کے معاملے میں ہم نے غالبؔ کے مشورے پر بہت پہلے عمل شروع کردیا تھا ؎ نہ لٹتا دِن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دُعا دیتا ہوں رہزن کو! کوئی دیکھے کہ وقت کو گھاس نہ ڈال کر ہم نے ایک انوکھی دُنیا پیدا کی ہے۔ اِس دُنیا میں وقت کی قِلّت کا تصور ہے نہ شائبہ! اب ہر پاکستانی کے پاس خیر سے اِتنا وقت ہے کہ اپنی سہولت کے لیے اُسے وقت کو قتل کرنا پڑتا ہے! اگر ہم وقت کو ٹھکانے نہ لگائیں تو یہ خود رَو پودوں کی طرح بڑھتا ہی چلا جائے اور ہماری پوری زندگی پر ایسا مُسلّط ہو کہ سانس لینا دُوبھر ہوجائے! نئی نسل کو دیکھیے۔ اُس کے پاس کِتنا وقت ہے، اِس کا اندازہ دُنیا کو کبھی نہیں ہوسکتا۔ رات رات بھر موبائل فون پیکیج پر باتیں کرتے رہنے سے بھی نئی نسل کا وقت ختم تو کیا ہوگا، کم ہونے کا نام بھی نہیں لیتا! خواتینِ خانہ چار چار گھنٹے ڈرامے دیکھتی ہیں مگر وقت ہے کہ گزرنے کا نام نہیں لیتا۔ ٹی وی پر کوکنگ شو دیکھیے تو لگتا ہے وقت ٹھہر سا گیا ہے! اور مارننگ شوز میں دُلہنوں کی آرائش تو وقت (اور ناظرین کی نظر) کو واقعی ٹھہرنے پر مجبور کردیتی ہے! وقت کی کمی کے احساس کو ٹھکانے لگانے کے لیے ہم نے طرح طرح کے وتیرے اپنا رکھے ہیں۔ اہلِ جہاں چاہیں تو اِس معاملے میں ہم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اور اگر وقت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی روش ہی پر گامزن رہنا ہے تو اُن کی مرضی۔ کوئی اگر پانچ منٹ کا وعدہ کرکے آدھے گھنٹے میں آئے تو کیا ہوا؟ اگر وہ واقعی پانچ منٹ میں آ جاتا تو پچیس منٹ بچ جاتے۔ مگر جب تک ہمارے پاس پچیس منٹ کا مصرف نہ ہو وقت کو بچاکر ہم کریں گے کیا؟ دُنیا والوں کو صرف طنز کرنا آتا ہے۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وقت بچاکر ہم کہاں رکھیں گے؟ قدرت کی طرف سے وقت کا مقرر کردہ کوٹا جب کل بھی مِل کر ہی رہنا ہے تو آج کا وقت کیوں بچایا جائے! وقت کے حوالے سے یہ خالص پاکستانی ’’نظریہ‘‘ ہے جس کی ہر اعتبار سے عقلی توجیہ کی جاسکتی ہے۔ وقت کو ٹھکانے لگانے، سرکاری وسائل کو شیرِ مادر کی صورت پی جانے، بُنیادی مسائل کو زندگی کے سب سے بڑے بحران میں تبدیل کرنے اور کام کے ماحول میں آرام کا مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے پاکستانیوں نے ایسے ایسے تصورات متعارف کرائے ہیں کہ دُنیا اگر بغور دیکھے تو اپنے تصورات اور نظریات سے تائب ہوکر ہمارے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے پر مجبور ہو! مگر صاحب! اب نئے تصورات کی قدر کہاں؟ دُنیا والے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ڈگر ہی پر گامزن رہیں تو کوئی کیا کرے!