جی تو پتا نہیں کیا کیا چاہتا ہے مگر کیا کیجیے کہ کوئی بھی معاملہ اب اختیار میں دکھائی نہیں دیتا۔ وطن ایسی حالت میں ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی بھی معاملے کا سِرا ہے کہاں؟ اور جب سِرا ہی ہاتھ نہ آرہا ہو تو آگے کیا بڑھیے اور کیا کیجیے۔ پاک سرزمین کو ہم نے مِل کر اِس حال سے دوچار کردیا ہے کہ بہت کچھ ہے جو متضاد ہے مگر ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ آگ اور پانی کا ملاپ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہے تو سہی مگر نہ ہونے کے برابر یعنی دکھائی دے کر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ غالبؔ کی زبانی کہیے تو ؎ ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! جسے ہم نام نہاد سسٹم کہہ کر اپنا دِل بہلاتے آئے ہیں وہ تو جیسے اب رہا ہی نہیں۔ اس پر بھی تماشا یہ ہے کہ ہم سسٹم کو درست کرنے کی تمنا میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔اِس تمنا کی تکمیل کی کوشش بھی عجیب ہی گل کِھلاتی ہے۔ حالات کو درست کرنے کی روش پر گامزن ہوئیے تو وہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔ وہ اور ہوں گے جو مِٹّی میں ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جائے۔ یہاں تو برگشتہ طالعی کا یہ عالم ہے کہ اچھے خاصے کھرے سونے کو ہاتھ لگائیے اور مِٹّی کے ڈھیر میں تبدیل کردیجیے! کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے کِسی کی بد دُعا سَروں پر منڈلا رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وطن کے قیام کی خاطر جنہوں نے زندگی کی دولت ٹھکرادی تھی اُن سے کیے ہوئے وعدوں کو بھلا دینے کا عذاب ہم پر اُترا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُن پاک روحوں کی بد دُعائیں ہمیں قعرِ مَذِلّت میں دھکیلے جارہی ہیں؟ بادی النظر میں تو معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم تو کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ بد دُعا کیا ہوتی ہے اور کِس نوع کے انجام سے دوچار کرسکتی ہے۔ وطن کا چہرہ ہے کہ بار بار بے یقینی کی گرد سے اٹ جاتا ہے۔ یقین تو جیسے رُوٹھ سا گیا ہے۔ بے حِسی کو ہم نے زندگی کا لازمی جُز بنالیا ہے۔ احساس سے محرومی ہے کہ محکم ہوئی جاتی ہے۔ اور کوئی بھی اِس احساسِ محرومی کا رونا نہیں روتا۔ ہر اُمنگ، ہر اُمید کمزور پڑتی جاتی ہے۔ مایوسی پنجے گاڑ رہی ہے۔ مگر کِسی کو اِس بھیانک تبدیلی کی بظاہر کچھ پروا نہیں، ذرا بھی فکر لاحق نہیں۔ ہر شخص صرف اپنے وجود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور اِس کے لیے وہ کِسی بھی حد سے بڑھنے کو تیار رہتا ہے۔ انفرادی مفادات قومی مفاد پر غالب آچکے ہیں۔ اپنی جیب بھرنے کی تگ و دَو میں مصروف لوگوں کی کمی نہیں۔ اور اِس کے لیے حلال و حرام میں تمیز کا شعور بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب نے طے کرلیا ہے کہ دنیا کو جیب میں ڈالنا ہے اور آخرت کو کِسی اور مخلوق کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ جب انسان اپنے طور پر معاملات طے کرنا شروع کردے تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا! ہم نے بھی اپنے رب کے بتائے ہوئے اُصولوں کو محترم گرداننے کے ساتھ ساتھ چند اُصول خود بھی وضع کرلیے ہیں، اپنی سہولت کے لیے۔ وطن کے لیے سوچنے اور اہلِ وطن کے غم میں گُھلنے والے اب خال خال ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اب ہم ایسے لوگوں کی شکلیں بھی بھول بھال گئے ہیں۔ سامنے آ بھی جائیں تو مشکل ہی سے پہچان پائیں گے! پہچانیں بھی کیسے؟ وہ بے چارے خود کو بچا بچاکر، چُھپا چُھپاکر بھی تو رکھتے ہیں۔ سیاست کی نیرنگیاں ملک کو اُس مقام تک لے آئی ہیں جہاں سبھی کچھ بے رنگ سا اور پھیکا پھیکا دِکھائی دیتا ہے۔ جس منظر کو دیکھیے بجھی بجھی سی رنگت کا اور ادھورا سا ہے۔ کِسی شے میں دِل کشی محسوس نہیں ہوتی۔ کوئی بات من کو نہیں بھاتی، کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہر معاملہ عدمِ تکمیل کے حصار میں مُقیّد نظر آتا ہے۔ پوری قوم پر نیم دِلی اور پژمُردگی سی طاری ہے جیسے ہم اپنا ہی پتا بھول گئے ہوں۔ آنکھوں میں تجسس کی چمک ہے نہ لگن کی تابندگی۔ دِل ہیں کہ کھوکھلے پن کا زندہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔ مغیث الدین فریدی کے بقول ؎ اے راہبرو! تم اُسے آئینہ دِکھا دو دیوانہ خود اپنا ہی پتا پوچھ رہا ہے اپنے پہ بھروسہ ہے نہ اوروں پہ یقیں ہے اِس دور کا ہر شخص دو راہے پہ کھڑا ہے! دہلی کے اُجڑے ہوئے دیار کو آباد رکھنے والے خواجہ میر دردؔ نے دِل کی گہرائی سے کہا تھا ؎ جی میں ہے خُوب روئیے اب بیٹھ کر کہیں رونا مسائل کا حل نہیں ہوا کرتا۔ اور یہ بہادری کی علامت بھی نہیں۔ مگر دِل کا بوجھ اُتار پھینکنے کا ایک معقول طریقہ اور ذریعہ تو بہرحال ہے۔ اور کسی بھی معقول طریقے کو اپنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ آنکھیں بے نُور ہوں اِس سے تو کہیں بہتر ہے کہ اُن میں اشک ہائے ندامت بھرے ہوں۔ جی کا بوجھ ہلکا ہونے کے بعد ہی ذہن سوچنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جہاں کُھل کر رونا اور دِل پر پڑا ہوا غم کا بھاری پتھر ہٹانا ہو وہاں بھی ہم کھوکھلے قہقہے لگاکر اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ اور جہاں قہقہے لگانے ہوں وہاں ہم دِکھاوے کے آنسو بہانے لگتے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہم پر لازم ہے مگر ہمیں چنداں پروا نہیں۔ سوچنا ہے مگر ہم سوچتے نہیں۔ اور کبھی یہ بھی نہیں سوچتے کہ سوچنا کِس قدر ضروری، بلکہ ناگزیر ہے۔ عمل واجب، بلکہ فرض ہوچکا ہے مگر ہمیں عمل سے رغبت ہی نہیں رہی۔ بے عملی کی چادر ایسی ہم نے ایسی اوڑھ رکھی ہے کہ کِسی صورت اُسے اُتارنے کے لیے تیار نہیں! قدم قدم، نفس نفس بدگمانیاں ہیں جن سے نجات پانے کی ضرورت ہے مگر ہم نجات پانے کا سوچتے بھی نہیں۔ جن چیزوں سے اُنس ہو جائے اُن سے الگ ہونے کا تصور بھی محال ہو جاتا ہے۔ دِل پر پتھر رکھ کر اِس مرحلے سے تو گزرنا ہی ہوگا۔ جو کچھ ترک کرنا ہے وہ ہر حال میں ترک تو کرنا ہی پڑے گا۔ دیکھیے سحر کب ہوتی ہے۔ آپ سوچیں گے سحر تو کب کی ہوچکی ہے۔ بات غلط نہیں۔ ہماری سحر تو تب ہی ہوگی جب ہماری آنکھ کھلے گی! مگر خیر، یہ کہنا بھی دِل کے بہلانے ہی کی ایک صورت ہے کہ جب آنکھ کُھلے تب سویرا ہوتا ہے۔ دِن ڈھلے آنکھ کُھلنے پر کیا ہاتھ آسکتا ہے؟ عمل کی دُنیا کا میلہ لُوٹنے کے شوقین سُورج کی اولین کرنوں کی دستک پر بیدار ہوکر بستر چھوڑ دیتے ہیں، دِن بھر کَسل مندی کا مظاہرہ نہیں کرتے رہتے۔ پاکستانی معاشرہ جس ڈھنگ کو اپنائے ہوئے ہے وہ کِسی بھی اعتبار سے مستحسن ہے نہ قابلِ اعتماد۔ منزل سے دور رہ جانے والی راہوں کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ یہ بات ہم جس قدر جلد سمجھ کر اپنالیں اُسی قدر اچھا ہے تاکہ کہیں بیٹھ کر جی بھر کے رونے کی تمنا پیدا ہی نہ ہو۔