’’مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے‘‘۔ ’’بہت دنوں سے معاملات پُرسکون ہیں۔ کہیں یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی نہ ہو‘‘۔ ’’یار سمجھ میں نہیں آرہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ کہیں کوئی ہلچل نظر نہیں آتی۔ اللہ خیر کرے، کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے‘‘۔ ’’ملک پتا نہیں کِس طرف جارہا ہے۔ لگتا ہے کوئی سازش ہے جس پر خاموشی سے عمل ہو رہا ہے‘‘۔ اِس نوعیت کے بہت سے جملے آپ نے سُنے اور پڑھے ہوں گے۔ ہر معاملے میں کِسی سازش کا سِرا پانے کی کوشش کو ہم نے قومی فریضے کا درجہ دے دیا ہے۔ ’’سیاسی شعور‘‘ اِتنی بلند سطح پر پہنچ چکا ہے کہ اب ہر معاملہ ہمیں پستہ قد دکھائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر معاملے نے کِسی اور معاملے کو کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے! جسے دیکھیے وہ ٹی وی دیکھ دیکھ کر عجیب الطرفین بُقراطیت میں مبتلا ہے اور دُنیا کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے کے عزم اور دعوے کے ساتھ میدان میں ہے تاکہ کِسی بھی معاملے کے بطن سے سازش نکال کر دِکھائے اور داد پائے۔ مِرزا تنقید بیگ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو کچرے کے ڈھیر سے بھی کام کی چیزیں برآمد کرلیتے ہیں۔ اُن کی قوتِ شامہ ایسی غضب کی ہے کہ جو بُو پیدا نہ ہوئی ہو اُسے بھی نہ صرف سُونگھ لیتے ہیں بلکہ اُس کے حدودِ اربعہ بھی بتا دیتے ہیں۔ ہم نے کئی بار اُنہیں مشورہ دیا کہ اگر کوشش کریں تو ایئر پورٹ پر خاصی پُروقار نوکری مل سکتی ہے۔ اِس مشورے کو سُن کر اُنہوں نے ہمیشہ ہمیں ایسی خشمگیں نظروں سے گُھورا ہے کہ ہمیں اپنے پیٹ میں چودہ ٹیکے لگتے ہوئے محسوس ہوئے ہیں۔ ایک زمانے سے اُنہیں ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنے کی عادت سی پڑی ہوئی ہے اور اب یہ عادت پختہ ہوکر اِس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ اگر کِسی معاملے میں کوئی ایسی ویسی بات دکھائی نہ دے رہی ہو تو اُن کا اضطراب قابلِ دید ہوتا ہے۔ مرزا بہت خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں اِس ملک میں اپنے ’’ذوق‘‘ سے مطابقت رکھنے والے خاصی بڑی تعداد میں میسر ہیں۔ نظریۂ سازش یہ ہے کہ ہر معاملے میں کِسی اور معاملے کی بُو سُونگھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ نان ایشو کو ایشو بنانے کا ہُنر ہے۔ ایک ایسا فن ہے جس میں کمال کی کوئی حد نہیں۔ ہر معاملے میں کوئی سازش تلاش کرنے والے اپنے فن میں ایسے طاق ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی تو دُنیا یوں حیران رہ جاتی ہے کہ داد دینا بھی یاد نہیں رہتا۔ آپ نے شعبدہ باز تو دیکھے ہی ہوں گے جو ٹوپی سے کبوتر، جیب سے انڈے اور آستین سے نوٹ نکال کر آپ کو حیرت زدہ کردیتے ہیں۔ نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والے بھی اپنے اندر شعبدوں کی ایک دُنیا بسائے پھرتے ہیں۔ جہاں کچھ بھی دِکھائی اور سُجھائی نہ دیتا ہو وہاں بھی یہ کوئی نہ کوئی سازش دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ اور اگر دریافت کرنا ممکن نہ ہو تو پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ نظریات کے مینا بازار میں نظریۂ سازش کا اسٹال ہے جو بہت دور سے دِکھائی دے جاتا ہے۔ اِس سے مقبول اور ’’عوامی‘‘ نظریہ اب تک متعارف نہیں کرایا جاسکا ہے۔ آسان ایسا ہے کہ کوئی بھی سمجھ سکتا ہے، اپنا سکتا ہے۔ بس ذرا ذہن کو گھوڑا بناکر دوڑانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک بار ذہن گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑنے لگے تو پھر کیسی حد اور کہاں کی حد؟ کچھ بھی سوچتے پھریے، کِس میں دم ہے کہ روکے اور ٹوکے۔ اگر آپ نے ایک بار سوچنا شروع کیا تو پھر کِس سازش کی مجال ہے کہ چُھپی رہے، سامنے نہ آئے؟ اور کِس معاملے کا کون سا پہلو ہے جس میں پہلو تہی کی ہمت پیدا ہو؟ سوچیے اور سازش کا سِرا پائیے۔ اور جب سِرا مِل جائے تو اُسے تھام لیجیے، رفتہ رفتہ آگے بڑھیے اور پھر دیکھیے کہ دوسرے سِرے تک پہنچتے پہنچتے کِتنی دُنیاؤں کی سیر نصیب ہوتی ہے، کیسے کیسے مراحل سے گزرنے کا موقع ملتا ہے۔ یاد رکھیے، نظریۂ سازش کی رُو سے دنیا کے ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی سازش چھپی ہوئی ہوتی ہے اور کِسی سازش کا بظاہر نہ پایا جانا بھی سازش ہی کے زُمرے میں آتا ہے! یعنی اگر کِسی معاملے میں ردعمل ہو تو سازش، نہ ہو تو زیادہ بڑی اور خطرناک سازش۔ کچھ ہونے والا ہو تو دِل پریشان رہتا ہے۔ اور اگر تادیر کوئی ایسی ویسی بات واقع نہ ہو تو پریشانی بڑھ کر وحشت میں تبدیل ہوتی ہے اور دِل و دِماغ کو ماؤف کرکے دم لیتی ہے۔ یعنی ؎ دِل گِھرا رہتا ہے اندیشوں میں حادثے ہیں کہ گزرتے ہی نہیں مرزا کو ہم نے اکثر اِس حالت میں دیکھا ہے کہ کِسی معاملے پر غور کرتے کرتے خود فراموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور سوچتے سوچتے، سازشوں کے سِرے پکڑنے کی دُھن میں کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ پھر اُنہیں کاندھے ہلاکر جگانا یا گُدّی سے پکڑ کر حقیقت کی دُنیا میں واپس لانا پڑتا ہے۔ لوگوں کو حیران (اور پریشان) کرنے کے معاملے میں مرزا پہلے بھی کم نہ تھے مگر خیر، سازش تلاش کرنے کے لیے سوچوں میں غرق ہو جانے کے مشغلے نے اُنہیں واقعی چلتا پھرتا عجوبہ بنا ڈالا ہے۔ جب وہ استغراق کے عالم میں ہوتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ کسی کو اُنہیں بغیر ٹکٹ دیکھنے نہ دیا جائے۔ ہر معاملے میں کِسی سازش کا سِرا تلاش کرنے کی عادت ایسی پختہ ہوچکی ہے کہ بقول ذوقؔ ع چُھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی مرزا اور اُن کے قبیل کے دوسرے بہت سے بلکہ کروڑوں افراد کا مخمصہ اور المیہ یہ ہے کہ بات کِسی کی ہو اور خواہ کہیں سے شروع ہوئی ہو، سازش تک پہنچ کر دم لیتی ہے۔ زمانے بھر کے مسائل کو بُھول بھال کر، نظر انداز کرکے تحت الشعور سازش کی بُو سُونگھنے کے لیے پیہم متحرک رہتا ہے۔ بات خواہ کِسی تناظر میں ہو، ذہن کی آنکھ سازش (یا ممکنہ سازش) کو گھورتی رہتی ہے۔ بقول فرید جاوید مرحوم ع گفتگو کِسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے کچھ لوگوں میں یہ معاملہ اِس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر معاملات صاف ستھرے چل رہے ہوں تو وہ اُلجھن میں مبتلا رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی صحت کے معاملے میں سوچتے سوچتے ہر وقت بیماری کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اور پھر بیمار پڑ کر ادویہ کے سہارے زندگی بسر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ ذہنی روش اُنہیں مستقل بیمار رکھتی ہے۔ اور اگر وہ کچھ دن بیمار نہ پڑیں تو پریشان ہو اُٹھتے ہیں اور گھبراکر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ نظریۂ سازش کی اسیری میں زندگی بسر کرنے والوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگر کِسی معاملے میں کوئی سازش نہ پائی جائے یا اُس کا سِرا اِن کے ہاتھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجیے کہ اِن کے دِل و دِماغ پر قیامت گزرنے لگتی ہے۔ آکسیجن کے بغیر شاید یہ جی جائیں، ہر بات میں سازش تلاش کیے بغیر جینا اِن کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ ماحول کو دُعا دیجیے کہ وہ نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والوں کے ذہنوں کو خوراک بہم پہنچاتا رہتا ہے۔ اہلِ سیاست کی مہربانی ہے کہ ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ ایسا کر جاتے ہیں کہ نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والوں کا اپنے نظریے پر یقین مزید محکم ہو جاتا ہے۔