قوم کو ایک اور قرضے کی نوید ہو۔ اب یہ اور بات ہے کہ نوید کے پردے میں وعید چُھپی ہو جو وقت آنے پر ظاہر ہو۔ اور جس طرح کے ہم واقع ہوئے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے کِسی بھی وقت کو آنے میں کیا دیر لگتی ہے؟ وقت کا تو کام ہی آنا ہے اور موقع ملتے ہی وہ آ جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وفاقی وزیر خزانہ کے پاس صرف خزانے کی سُوجھ بُوجھ ہے۔ مگر اب اندازہ ہوا کہ اُن میں تو صلاحیتوں کا خزانہ بھرا پڑا ہے۔ اُنہوں نے آئی ایم ایف کو ایک بڑھک لگائی اور بات بن ہی گئی۔ مگر بات کے بننے سے قبل ’’جانے کیا تونے کہی، جانے کیا میں نے سُنی‘‘ کا مرحلہ بھی تھا۔ دس بارہ دن پہلے کی بات ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے، ڈٹ کر اپنی بات منوائیں گے۔ نیز یہ کہ کوئی ڈکٹیشن قبول نہیں کی جائے گی۔ پھر یہ ہوا کہ آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد آیا اور واقعی ڈر گیا۔ کیوں نہ ڈرتا؟ ایک توانا حکومت کا وزیر خزانہ آنکھیں جو دِکھا رہا تھا۔ اگر عالمی ادارہ نہ مانتا تو اُس کی بَھد اُڑتی۔ ڈرانے والوں کی طرح ڈرنے والوں کا بھی کچھ حق ہوا کرتا ہے۔ آخر اُسے بھی عالمی سطح پر اپنی ساکھ برقرار رکھنی ہے! اسلام آباد کی ٹھنڈی فضاؤں میں قوم کے علاج کے لیے ایک اور قرضے کا اہتمام ہوا۔ سُنا ہے بعض ادویہ زہر سے تیار کی جاتی ہیں کیونکہ زہر کا تریاق زہر ہی سے تیار ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت دوا سازی کا ہُنر بھی خوب جانتی ہے۔ اُس نے قرضے کا توڑ قرضے میں تلاش کیا۔ٹھیک ہی تو ہے، لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ قرضہ تو قرضے ہی کو پہچانتا ہے، اُسی کے ساتھ اُڑے گا۔ یہ نُکتہ بڑے بڑوں کو نہ سُوجھا کہ ایک قرضے کو چُکانے کے لیے دوسرا قرضہ لینا چاہیے۔ بلکہ اب تو معاملہ قرضے کے سُود تک جاکر اٹک گیا ہے۔ یعنی پچھلے قرضوں کا سُود ادا کرنے کے لیے قرضے لیے جارہے ہیں۔ یعنی لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چُھوٹ جا! دعوے تھے کشکول توڑنے کے۔ آخرِ کار دعوے کا کشکول توڑ دیا گیا! اسحاق ڈار معاشی امور کے ماہر ہوں نہ ہوں، حساب کتاب اور آڈٹ کے ماہر تو ہیں ہی۔ بدنصیب اور ناخواندہ قوم کو اُن کی لیاقت اور فراست سمجھنے میں شاید کچھ دیر لگے! ہماری سمجھداری کا صابن سلو ہے نا! آئی ایم ایف نے بہتری اِس میں جانی کہ پاکستان کی نئی حکومت کی بڑھک کا بھرم رکھے اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے قرضے کی منظوری دے۔ اگر کہیں مسلم لیگ (ن) خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہوگئی تو آئی ایم ایف اپنا قرضہ ہاتھ میں لیے مُنہ تکتا رہ جائے گا! دُکاندار کو تو مال بیچنے سے غرض ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد مال بیچنے آیا تھا۔ آج کل دکانداری میں بھی تھوڑا بہت ڈراما شامل ہے۔ پہلے روٹھنے کی اداکاری ہوتی ہے اور پھر مَن جانے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ تاثر یہ دیا گیا کہ آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کرنا چاہتا تھا مگر حکومت تیار نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے راضی ہوئی اور یہ کہ قرضہ اپنی شرائط پر لیا۔ آپ سوچیں گے ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ کوئی قرضہ لے اور وہ اپنی شرائط پر! اب یہ اور بات ہے کہ جو شرائط آئی ایم ایف نے طے کر رکھی تھیں اور جو حکومت نے ’’منوائیں‘‘ اُن میں اچھی خاصی مماثلت نکل آئی! اِسے کہتے ہیں قوم کا نصیب، بلکہ بدنصیبی! آئی ایم ایف نے بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کو کہا۔ جواب مِلا ختم ہو جائے گی جناب۔ ویسے بھی اب قوم کو بجلی کی حاجت کیا ہے۔ کون سا معاملہ ہے جو جھٹکے نہیں دے رہا! ریکارڈ تو ایک عشرے سے قائم کئے جارہے ہیں مگر لگتا ہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت تمام ریکارڈ توڑنے پر تُل گئی ہے۔ قوم ووٹ ڈال کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ اُس پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹنے یا توڑے جانے لگے۔ آئی ایم ایف کی ایک مشکل تو حل ہوئی۔ بدنامی میں کچھ تو کمی آئی۔ اُس نے شرائط منوانا چھوڑ دیا ہے۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ فریق ثانی تمام شرائط تسلیم کرنے لیے پلک جھپکتے میں تیار ہو جاتا ہے! کِسی زمانے میں جہانگیر خان اسکواش کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے۔ کھیل پر اُن کی گرفت کا یہ حال تھا کہ کورٹ میں اُترنے سے پہلے ہی فریق ثانی ذہنی طور پر شکست تسلیم کرچکا ہوتا تھا۔ آئی ایم ایف نے بھی اِسی طور فریق ثانی کی مشکل آسان کردی ہے۔ مذاکرات سے قبل ہی شرائط تسلیم کی جاچکی ہوتی ہیں! مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قرضے کی راہ پر گامزن ہوکر ثابت کردیا کہ وہ کِسی بھی اعتبار سے وکھری ٹائپ کی نہیں بلکہ مکمل نارمل حکومت ہے۔ قوم بھلے ہی ابنارمل ہوچکی ہو، پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتیں نارمل رہتی ہیں یعنی ایک جیسی پالیسیاں اپناتی ہیں اور ایک جیسی راہوں پر گامزن رہتی ہیں۔ آئینہ وہی رہتا ہے، چہرے بدل جاتے ہیں۔ شراب پُرانی ہی رہتی ہے۔ نئی بوتل کا اہتمام کرکے دھوکا دیا جاتا ہے اور یہ دھوکا بہت پیار سے کھا بھی لیا جاتا ہے۔ بقول سیف الدین سیفؔ کِس تمنّا سے تُجھ کو چاہا تھا کِس محبّت سے ہار مانی ہے! لکیر پیٹنے کا عمل ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ قتل کرکے ثواب لینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ قوم حیران اور پریشان ہے کہ بربادی کا ماتم کرے یا جشن منائے! مسلم لیگ (ن) نے بھی وہی کیا ہے جو اب تک قائم ہونے والی حکومتیں آسان ترین آپشن کے طور پر کرتی آئی ہیں۔ پہلے خود انحصاری کے دعوے۔ پھر قرضے لینے کا عندیہ۔ اِس کے بعد سخت شرائط والے قرضے نہ لینے کے دعوے۔ اگلے مرحلے میں نرم پڑنے کا اشارا۔ اور آخر میں قرضوں کے ذریعے مسائل حل کرنے کی روش پر گامزن ہونے کی تیاری۔ قوم خوش فہمیوں کی اسیر رہتی ہے۔ ہوتا وہی ہے جو ہوتا آیا ہے۔ ایسی اُمیدوں سے کیا حاصل جن کے نصیب میں غیر بارآور ثابت ہونا لکھا ہے؟ اگر ہمیں قرضوں ہی کے ذریعے زندہ رہنا ہے تو پھر طرح طرح کے دعوے کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ جب جی میں آئے، قرضے لیجیے اور گزر بسر کیجیے۔ قوم ہر گھڑی تیار کامران کھڑی ہے۔ جتنا خون نچوڑنا ہے اِس کی رگوں سے نچوڑیے۔ کوئی روکنے والا نہ ٹوکنے والا۔ قوم تو صرف اِتنی سی آرزو رکھتی ہے کہ اگر اور کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم جھوٹے دِلاسے دیکر آسرے میں تو مت رکھیے۔ اُدھار کی زندگی بسر کرنے والوں کو اب کوئی اور ہُنر آئے بھی تو کیسے؟ جنہیں حکمرانی کے فن میں یدِ طولیٰ رکھنے کا دعوٰی ہے وہ گھوم پھر کر قرض کے دو راہے یا چوراہے پر آ جاتے ہیں! یعنی مُلّا کی دوڑ مسجد تک، حکمرانوں کی دوڑ آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹرز تک! فرق صرف اِتنا ہے کہ اب ناک رگڑنے اُن کے در پر نہیں جانا پڑتا۔ اگر اِس میں توقیر کا کوئی پہلو ہے تو حکمرانوں کو مبارک!