’’امارا واسطے کوئی نوکری ڈھونڈو۔‘‘ ’’نوکری تو تم کر ہی رہے ہو۔ چائے اور پراٹھے بنانا کیا نوکری نہیں؟ آمدنی بھی معقول ہے۔‘‘ ’’یہ بھی کوئی نوکری ہے؟ بندے کی کوئی عزت ہی نہیں۔‘‘ ’’اب نوکری میں کاہے کی عزت۔ تم نے سُنا نہیں کہ نوکری کی تو نخرا کیسا! دوسروں کو دیکھ کر کڑھنے کی ضرورت نہیں۔ سب کا ایک سا حال ہے۔‘‘ ’’مگر صاحب! اب اِس نوکری میں امارا دِل نئی لگتا۔ بہت چھوٹی عمر سے اَم نے یہی کام کیا ہے۔ کام بھی کرو، گالی بھی سُنو۔ کبھی کبھی پیسہ بھی پُورا نہیں مِلتا۔‘‘ ’’وہ کیوں؟‘‘ ’’بہت سے لوگ کھانے کے بعد پیسے دیئے بغیر بھاگ جاتے ہیں۔ پیسہ مانگو تو دھمکی دیتا ہے، کوئی بولتا ہے آڈر اَم نے نئی دیا تھا۔ جس نے دیا تھا وہ چلا گیا۔ اب اُس کو پکڑو۔ ایسے لوگوں کا پیسہ اَمارا جیب سے جاتا ہے۔‘‘ یہ نصیب خان کی کہانی ہے جو ہوٹل پر چائے بناتا، پراٹھے لگاتا اور گاہکوں کو بھگتاتا ہے۔ اُس کی زندگی چائے بناتے اور پراٹھے لگاتے گزری ہے۔ بندہ جوان ہے مگر زندگی کی بات ہم اِس لیے کر رہے ہیں کہ نو دس سال کی عمر سے اُس نے یہی کیا ہے۔ جس عمر میں لوگ کام دھندا شروع کرتے ہیں اُتنے سال کا ہوتے ہوتے وہ عملی زندگی کے کم و بیش اٹھارہ سال پورے کرچکا ہے! نصیب خان کی کہانی آپ کو خاصی جانی پہچانی لگی ہوگی۔ کیوں نہ لگے؟ اِس ملک میں ہر نصیب خان کی یہی کہانی ہے۔ ایک ہی دُکھڑا ہے جو رنگ روپ بدل کر سامنے آتا رہتا ہے۔ محنت کے پورے صِلے سے محرومی بیزاری اور پریشانی کو جنم دیتی ہے۔ اِس پریشانی کا راگ الاپنے کے ہم ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ اب ذرا بھی پریشانی محسوس نہیں ہوتی! چائے کا ہوٹل ہو یا پھلوں کا ٹھیلا۔ درزی کی دکان ہو یا آئی ٹی کا دفتر۔ ٹی وی چینل ہو یا فٹ پاتھ کا پتھارا، ہر جگہ نصیب خان کی ایک ہی کہانی ہے۔ اِس قوم کے نصیب میں یہی لکھا ہے کہ حالات کی چَکّی میں پستے ہوئے نصیب خان ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل بھی نہ رہیں! ع کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ کچھ لوگ سادہ لوحی کی حد سے گزر جاتے ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جنگل میں کیا ہوتا ہے؟ جنگل میں سب کے معاملات طے ہیں اور حدود بھی۔ کوئی کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی جسارت نہیں کرتا۔ شیر درندہ ہے اِس لیے کبھی چرندہ نہیں بنتا۔ گوشت کھانے کو نہ ملے تو بھوک سے مَر جائے گا مگر گھاس نہیں چَرے گا۔ سب اپنے اپنے حساب کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِنسانی بستیوں کو جنگل سے تشبیہ دینا جنگل کی اُصولی زندگی کی صریح توہین ہے۔ جنگل میں سب کچھ فطرت کے قوانین کے تحت ہوتا ہے۔ کسی جنگل میں کوئی بھی حیوان نصیب خان کی طرح معاشی اور معاشرتی نا انصافی کا شکار نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو گلے بھی لگایا جائے اور اچھوت بھی سمجھا جائے۔ جنگل میں اپنانا یا دُھتکارنا مکمل طور پر ہوتا ہے۔ جس حیوان کو ’’دیس نکالا‘‘ دے دیا جائے اُسے کوئی گلے تو کیا، منہ بھی نہیں لگاتا! جنگل کے ماحول اور قانون کو اپنالیا جاتا تو ہمارے ہاں شاید کچھ بہتری آ ہی جاتی! خالصتاً حیوانوں کی سطح پر جینے میں بھی کچھ تسکین کے پہلو ہیں۔ حیوانات میں برابری کا تصور عام ہے۔ پیٹ بھر جانے کے بعد کوئی نہیں کھاتا، کوئی نعمت کو ضائع نہیں کرتا، کوئی کسی کو بھوکا نہیں مارتا۔ کسی کو ذخیرہ اندوزی کی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ پیٹ بھرے کی مستی حیوانیت کا مظہر نہیں بلکہ خالص انسانی خصلت ہے۔ جنگل میں کوئی کسی کو اُس کے حق سے محروم نہیں رکھتا۔ کوئی کسی کو بلا ضرورت تنگ نہیں کرتا۔ جنگل کا کوئی بھی باسی درندگی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے تو محض جبلّت کے زیر اثر۔ یہ عمل محض دِل پشوری کے لیے نہیں ہوتا۔ جنگل میں کوئی شوقیہ درندہ نہیں ہوتا۔ یہ ’’ٹرینڈ‘‘ اِنسانوں کا خاصہ ہے! حیوانات یومیہ بنیاد پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ دس پندرہ برس بعد کی پریشانی سے ہلکان نہیں ہوتے رہتے۔ یہ کیا سِتم ہے کہ جو محنت کرے وہ ذِلّت بھی سہے؟ جو خدمت کا حق ادا کرتے ہوئے دوسروں کے لیے سہولتوں کا اہتمام کرے وہ خود سہولتوں کے لیے ترستا رہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے؟ ہم کس دُنیا میں جی رہے ہیں؟ کیا ہمارا معاشرہ اِس دُنیا کا اور معلوم کائنات کا حصہ نہیں؟ یہ کیا غضب ہے کہ جن کے دم قدم سے معاشرہ متحرک رہے وہی ساکت اور جامد ہوکر رہ جائیں؟ جو معاشرے کو تازہ دم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرے وہی تازگی سے محروم رہے! کس قدر سِتم اور شرم کی بات ہے کہ جس کام میں جتنی زیادہ محنت ہے اُس کا صِلہ اُتنا ہی کم ہے! سڑک پر گڑھے کھودنے والا شدید گرمی میں ایک گلاس ٹھنڈا پانی مانگے تو لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کوئی اگر کسی مزدور کو کام پر لگاتا ہے تو اُسے چائے پانی دیتے ہوئے دِل پر بوجھ محسوس کرتا ہے۔ ٹھنڈا پانی بھی دیتا ہے تو اِس انداز سے جیسے کوئی احسان کر رہا ہو۔ جو لوگ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دیتے ہیں اُن کی جیب میں محنت کا پورا صِلہ نہیں ڈالا جاتا۔ اور اپنے دِل کو تھوڑی سی دیر کے لیے سُکون پہنچانے کی غرض سے بے ڈھنگے مشاغل پر لاکھوں لُٹا دیئے جاتے ہیں! ہم جس نوع کے معاشرے میں جی رہے ہیں اُس میں قدم قدم پر نصیب خان موجود ہیں جو محنت کرتے ہیں مگر پورے اور جائز صِلے سے محروم رہتے ہیں۔ بڑی باتیں کرنے سے کوئی خود بڑا ہو پاتا ہے نہ اپنے ماحول کو بڑا کر پاتا ہے۔ معاشرہ اُسی وقت بلندی کی طرف رواں ہوتا ہے جب محنت کرنے والوں کو صرف صِلہ نہیں دیا جاتا، توقیر سے بھی ہمکنار کیا جاتا ہے۔ جس نے یہ کائنات خلق کی ہے اُس نے سبھی کچھ اُصولوں کے تابع کیا ہے۔ بے اُصولی اُس کی اپنی فطرت میں ہے نہ وہ اپنی مخلوق میں یہ ’’خصوصیت‘‘ دیکھنا چاہتا ہے۔ کائنات کا خالق اِس بات کو کبھی برداشت کر ہی نہیں سکتا کہ کِسی کو اُس کی محنت کے کماحقہ صِلے سے محروم رکھا جائے۔ یہ اُس کے ایک مُسلّمہ اُصول کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بہتر زندگی ہماری منتظر ہے مگر صرف اِس حالت میں کہ ہم اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض کو بھی یاد رکھیں اور اُنہیں ادا کرنے پر پوری توجہ دیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے بلند ہونے کی کئی صورتیں ہیں اور کسی کو اُس کی محنت کا پورا صِلہ دینے پر آمادہ رہنا بھی بلند ہونے کی ایک صورت ہے۔ اللہ وہ وقت ہم سے قریب کردے جب کوئی نصیب خان محنت کے صِلے سے محروم نہ رہے اور اپنے کام سے بیزاری محسوس نہ کرے۔ جب ہم اِس منزل تک پہنچیں گے تب ہی اگلی منازل کے لیے خود کو بہتر طور پر تیار کر پائیں گے۔