حکام کا تو کام ہی مَکھی پر مَکھی بٹھانا ہے۔ نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ لکیر کے فقیر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے ریڈ زون کے نزدیک روڈ شو کے ہیرو سکندر کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک ہنگامہ برپا ہوا، اور پھر برپا ہی رہا۔ کئی گھنٹے گزر گئے مگر حکام احکام کے منتظر رہے۔ پھر جب حکم ملا تو دو تین گولیاں داغ کر پردہ گراکر ڈرامے کا ڈراپ سین کیا گیا۔ ہسپتال میں سکندر کاپولی گرافک ٹیسٹ کامیاب رہا۔ یعنی پانچ چھ گھنٹے تک قوم کو حیران و پریشان رکھنے والے سکندر کا جھوٹ پکڑا گیا۔ جھوٹ پکڑنے والی مشین نے کام کر دکھایا۔ ہم حیران ہیں کہ جھوٹ پکڑنے والی مشین کے استعمال کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور کیا اِس پورے معاملے میں کوئی جھوٹ تھا جسے پکڑنے کے لیے مشین استعمال کی جاتی؟ کیا قوم نے نہیں دیکھا کہ سکندر کے ڈرامے میں اُس کی بیوی بھی خاصے نمایاں کردار میں موجود تھی؟ اور جب بیوی ساتھ تھی تو پھر جھوٹ پکڑنے والی مشین کو بروئے کار لانے کی کیا ضرورت تھی؟ حکام نے بتایا ہے کہ جو کچھ سکندر کی بیوی نے کہا وہ جھوٹ پکڑنے والی مشین پر درست ثابت ہوا جبکہ سکندر کے بیانات کو مشین نے جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔ مرزا تنقید بیگ جھوٹ پکڑنے والی مشین ایجاد کرنے کے خلاف رہے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ جب قدرت نے شادی کا ادارہ اور بیوی کی شکل میں اُس ادارے کیلئے سربراہ کا اہتمام کر ہی دیا ہے تو پھر جھوٹ پکڑنے کی مشین تیار کرنے کے تکلف کی ضرورت کیا ہے! مرزا کا کہنا ہے کہ جب تک دُنیا میں ایک بھی بیوی زندہ ہے، جھوٹ پکڑنے والی مشین ایجاد یا تیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اور جو ایسا کرتا ہے وہ گناہِ بے لَذّت کا مرتکب ہوتا ہے! ایک زمانے سے مرزا جھوٹ بولتے آئے ہیں اور جھوٹ پکڑے جانے پر تذلیل سے دوچار ہونا بھی اُن کا خاصہ رہا ہے۔ مرزا ہی نہیں، بھابی بھی مستقل مزاجی کا شاہکار ہیں۔ مرزا نے جھوٹ بولنا ترک نہیں کیا اور بھابی شوہر کے جھوٹ پکڑ کر اُس کی ’’عزت افزائی‘‘ سے باز نہیں آئیں! ایک زمانہ تھا جب ہم بھی اِس بات پر نازاں تھے کہ کوئی ہمارا جھوٹ پکڑ نہیں سکتا۔ پھر یہ ہوا کہ ہم بھی مرزا کی صف میں جا کھڑے ہوئے یعنی گھر بساکر اپنے ہر جھوٹ کی دنیا کو بے آباد کردیا! اپنا جھوٹ پکڑے نہ جانے کا وہ سَودا، وہ افتخار اب کہاں؟ اب تو حالت یہ ہے کہ ع بات پر واں زبان کٹتی ہے اور اگر پروین شاکر کا انداز اختیار کرکے کہیے تو جھوٹ کا ذکر، اب تو عالم یہ ہے کہ ع میں ’’سچ‘‘ کہوں گا مگر پھر بھی ہار جاؤں گا! پکڑ کے جھوٹ وہ پھر لاجواب کردے گی! جب بھی ہم نے بیویوں میں پائی جانے والی جھوٹ پکڑنے کی صلاحیت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، مرزا نے خاصے سَفّاک انداز سے ہماری عقل کو ’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کیا ہے! مرزا کا استدلال ہے کہ جس طرح بُلبُل اچھا گاکر کوئی تیر نہیں مارتی اور چیتا سب سے تیز دوڑ کر کوئی کمال نہیں کرتا بالکل اُسی طرح بیویاں جھوٹ پکڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہیں دیتیں۔ جس طرح جھوٹ بولنا شوہروں کے مزاج کا حصہ ہے، اُن کی فطرت میں گُندھا ہوا ہے بالکل اُسی طرح غیبت کرنے کے ساتھ ساتھ شوہروں کا جھوٹ پکڑنا بھی بیویوں کی فطرت میں لکھا ہے، اُن کے ذہن کے ڈیفالٹ میں ہے! اِس معاملے میں کمال اگر ہے تو اِتنا کہ کبھی کبھی شوہر کی سَچّی بات میں سے بھی وہ تھوڑا بہت جھوٹ برآمد کرلیتی ہیں!‘‘ ہم نے مرزا سے پوچھا آخر کیا سبب ہے کہ شوہر کا جھوٹ بیوی کی گرفت میں آ ہی جاتا ہے۔ اب سکندر ہی کی مثال لیجیے جس کا جھوٹ مشین نے بھی پکڑا اور بیوی نے بھی۔ بیوی نے یوں کہ جھوٹ پکڑنے والی مشین پر اُس کی باتیں سَچ نکلیں اور شوہر مزید جھوٹا ثابت ہوگیا۔ مرزا نے ہماری تشفی کے لیے ایک گراں قدر آئیڈیا عنایت کیا۔ کہنے لگے۔ ’’جھوٹ بولنا شوہروں کی عادت ہی نہیں، مشغلہ بھی ہے۔ وہ جھوٹ بول کر گھر کے ماحول کو تر و تازہ رکھتے ہیں۔‘‘ ہم حیران ہوئے اور اعتراض داغا کہ جھوٹ بول کر گھر کے ماحول کو تر و تازہ کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ ہم نے تو اکثر یہ دیکھا ہے کہ جھوٹ کے گُل کِھلانے سے گھریلو زندگی کے پُھول مُرجھا جاتے ہیں! مرزا کو ہمارے استدلال پر ذرا بھی حیرت نہ ہوئی، جیسے وہ اِس کے لیے تیار ہوں۔ کمالِ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہ بہت آگے کی منزلیں ہیں۔ تمہیں ہم بتا تو دیں مگر سمجھ نہیں پاؤگے۔ گھریلو زندگی کو ہنسی اور خوشی سے آباد رکھنے میں جھوٹ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ شوہر اگر جھوٹ نہ بولیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے ۔ذرا سوچو۔ اگر میڈیا پر سَچ ہی سَچ ہو تو کیا ہو؟ ہر طرف ہاہاکار مَچ جائے۔ یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے دم سے میڈیا کا میلہ بارونق ہے! سَچ بولنے کا چلن عام ہو تو کئی پروگرام راتوں رات بند ہوجائیں۔ خیر، تم کیا جانو جھوٹ کِتنے مزے کا سَودا ہے!‘‘ ہم نے وضاحت چاہی کہ جھوٹ سے گھریلو زندگی کی آب و تاب کیسے برقرار رہتی ہے۔ مرزا نے اپنا مُدلّل بیان جاری رکھا۔ ’’بات یہ ہے میاں کہ جھوٹ بول کر شوہر کے دِل کی کلی کِھل جاتی ہے کہ ایک بار پھر بیوی کو بے وقوف بنانے کی اپنی سی کوشش تو کی۔ اور دوسری طرف بیوی بھی اپنی کامیابی پر خوش ہو رہتی ہے کہ شوہر کا ایک اور جھوٹ پکڑلیا! اِس پورے کھیل میں ایک شاندار نُکتہ لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔‘‘ ہم نے استفسار کیا کہ وہ نُکتہ کیا ہے۔ مرزا نے گھریلو زندگی کو پُربہار رکھنے کا نُسخہ بیان کیا۔ ’’بات یہ ہے کہ بہت سے عقل مند شوہر جان بوجھ کر جھوٹ پر جھوٹ بولتے جاتے ہیں۔ بیویاں جھوٹ پر جھوٹ پکڑ کر خوش ہو رہتی ہیں۔ اور اِسی خوشی میں مست رہنا چاہتی ہیں۔‘‘ ہم نے کہا اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بیویاں جھوٹ پکڑنے میں ہُنر مند ہوتی ہیں۔ مرزا نے تُرپ کا پتّا پھینکا۔ ’’یہی بات تو سمجھنے کی ہے میاں! بیویاں یہ سمجھتی ہیں کہ شوہروں کا جھوٹ پکڑ کر اُنہوں نے کوئی بہت بڑا تیر مارا ہے۔ دوسری طرف شوہر چاہتے ہیں کہ بیویاں ایسے تیر مارتی رہیں۔ یعنی وہ جان بوجھ کر ایسا جھوٹ بولتے ہیں جو ذرا سی کوشش سے پکڑلیا جائے! بس، یہ ہے کہ بیویوں کی خوشی کا راز! اِسی اُصول پر عمل کرتے ہوئے بہت سے شوہر بازار سے سَودا لاتے وقت ایک آدھ گلی سَڑی چیز بھی جان بوجھ کر اُٹھا لاتے ہیں تاکہ بیوی کو تنقید کرنے کا موقع ملے کہ ’آپ کو ڈھنگ سے سبزی ترکاری بھی خریدنا بھی نہیں آتے۔ اللہ جانے زندگی کہاں گزاری ہے؟‘ اِتنا کہنے سے اگر کسی کے دِل کو خوشی ملتی ہو تو موقع فراہم کرنے میں ہرج کیا ہے!‘‘ مرزا کا بتایا ہوا نُسخہ ہم نے گھر میں آزمایا ہے اور اِسے تیر بہ ہدف پایا ہے۔ اب ہم سوچ سمجھ کر کمزور جھوٹ بولتے ہیں۔ بیگم ہمارا جھوٹ پکڑ کر اُسی طرح خوش ہوتی ہیں جس طرح میڈیا والے وزیر داخلہ کی طرف سے دانستہ طور پر بولا گیا کمزور جھوٹ پکڑ کر خوشی سے پُھولے نہیں سماتے اور پروگرام پر پروگرام کرتے جاتے ہیں!