"MIK" (space) message & send to 7575

جادوگر کیا بیچتے ہیں!

کم لوگ ہیں جو پاکستان کی سیاست کو سمجھ پانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ کم از کم بی بی سی کو تو ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ آصف علی زرداری کی میعادِ صدارت کے پانچ برس مکمل ہونے پر اپنے تبصرے میں برطانوی نشریاتی ادارے نے کہا کہ وہ معروف ہنگری نژاد امریکی جادوگر ہیری ہوڈینی سے مماثلت رکھتے ہیں جس کے لیے کوئی بھی صورتِ حال پریشان کن ثابت نہیں ہوتی تھی۔ تبصرے میں مزید کہا گیا کہ آصف زرداری نے پانچ سال قبل صدر کے منصب کو جس حال میں پایا تھا اُس سے بہت مختلف کیفیت میں چھوڑ کر گئے ہیں۔ اِن پانچ برسوں میں کئی مسائل کا سامنا رہا مگر وہ اپنی دانش مندی اور سیاسی بصیرت کی بدولت ہر مسئلے کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ ہم حیران ہیں کہ جو کچھ پاکستانی سیاست میں دس بارہ سال سے ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے اب کیا کسی جادوگر یا اسٹنٹ مین کو خراجِ تحسین یا خراجِ عقیدت پیش کرنے کی کوئی گنجائش رہ گئی ہے! ہیری ہوڈینی 24 مارچ 1874ء کو بڈاپسٹ (ہنگری) میں پیدا ہوا۔ اُس کا ابتدائی یا خاندانی نام ایرک وائز تھا۔ بہت چھوٹی عمر میں اُس نے والدین کے ساتھ امریکا کا رخ کیا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اُس نے اپنے اسٹنٹس سے عالمگیر شہرت پائی۔ وہ کئی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سے خود کو آزاد کرانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ کئی بار اُسے باندھ کر پانی میں پھینکا گیا یا دفن کردیا گیا مگر وہ زندہ نکل آیا۔ وہ کسی انتہائی تنگ ڈبے میں بند کئے جانے پر بھی تنفس برقرار رکھنے میں کمال رکھتا تھا۔ ہوڈینی نے کئی فلموں میں کام کیا مگر کامیابی اُسے شعبدہ بازی کی دُنیا ہی میں ملی۔ ہوڈینی جس قدر عجیب تھا، اُس کی موت اُس سے بھی زیادہ عجیب ثابت ہوئی۔ ایک شو کے دوران ایک طالب علم نے اُس سے کہا کہ کیا وہ پیٹ پر لات برداشت کرسکتا ہے۔ ہوڈینی نے ہاں کہہ دی۔ طالب علم نے اُس کے پیٹ پر چار لاتیں رسید کیں۔ درد تو بہت ہوا مگر ہوڈینی جھیل گیا۔ اگلے ہی دن اُس کی حالت بگڑ گئی۔ معالجین نے اپینڈکس کے آپریشن کا مشورہ دیا مگر اُس نے شو جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ اِس کا نتیجہ اُس کی موت کی شکل میں برآمد ہوا۔ 1971 کی فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ میں رونا لیلیٰ نے ایک گیت گایا تھا جس کے بول تھے۔ کوئی جادوگر آیا، میرے دل میں سمایا ایسی بین بجائی مجھے اپنا بنایا بس کچھ ایسی ہی کیفیت پرویز مشرف کی آورد پر پیدا ہوئی اور اُن کے بعد آصف زرداری نے اپنی آورد کو آمد میں تبدیل کرکے بھی یہی سماں پیدا کیا۔ اُنہوں نے مفاہمت کی بین ایسی بجائی کہ سبھی دیوانے ہوکر اُن کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ شعبدہ باز کیا کرتے ہیں؟ موجود چیز کو غائب کرتے ہیں اور جو کچھ ہے ہی نہیں اُسے ہماری آنکھوں کے سامنے اِس طرح پیش کرتے ہیں جیسے اُن کا کوئی وجود ہو۔ اب ذرا سوچیے کہ ہمارے سیاسی رہبران کیا کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ شعبدہ اُنہوں نے قدم قدم پر نہیں دکھایا؟ ایک زمانے سے ہم اُن پُلوں پر سے گاڑیاں گزارتے آئے ہیں جو صرف کاغذی کارروائی میں پائے جاتے ہیں! ہم ایسے فٹ پاتھوں پر چلتے ہیں جو ع ’ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘ کی زندہ مثال ہیں۔ ہمارے بچے اُن سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن کی عمارتیں صرف دستاویزات میں پائی جاتی ہیں۔ یہ تو ہوئی ہوکر نہ ہونے کی بات۔ اب آئیے اُس کی طرف جو ہے مگر نہیں ہے۔ سرکاری فنڈز منظور ہوتے ہی افسران اور اہلکاروں کی جیب میں جاتے ہیں۔ ماہانہ پندرہ بیس ہزار روپے کمانے والا سرکاری ملازم بھی 75 لاکھ کے مکان میں رہتا ہے اور کوئی پوچھے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس ’’بے چارے‘‘ کے نام پر تو کچھ بھی نہیں! جب ملازمین کا یہ حال ہے تو سوچیے کہ افسران کا کیا عالم ہوگا۔ آج اگر مغل شہنشاہ دوبارہ زندہ کئے جائیں تو سرکاری افسران کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر شرمندہ ہوں اور شہنشاہیت پر لعنت بھیج کر کسٹمز یا ایسے کسی سرکاری ادارے میں جونیئر کلرک بھرتی ہونے کو ترجیح دیں۔ بات چلی تھی سابق صدر آصف زرداری اور ہیری ہوڈینی کے موازنے سے اور پہنچ گئی عوام کے شعبدوں تک۔ عوام کے شعبدوں کو تو گنتے گنتے آپ تھک جائیں گے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کا سیب چالیس پچاس روپے فی کلو کے نرخ سے فروخت ہو رہا ہے اور بُھنے ہوئے چنے 300 روپے فی کلو کے نرخ پر دستیاب ہیں۔ آم جیسی نعمت کو ٹماٹر مُنہ دینے پر تُلا ہوا ہے۔ صاف سُتھرے ایرانی آلوچے ساٹھ سَتّر روپے فی کلو کے نرخ پر مِل رہے ہیں اور دوسری طرف کڑوا کریلا بُلند نرخوں کے نیم پر چڑھا ہوا ہے۔ گھر آنگن میں ذرا سی محنت سے اُگ آنے والا کریلا ساٹھ سَتّر روپے فی کلو کے نرخ کی بیل پر چڑھ گیا ہے۔ بہر کیف، ہمارے اہلِ سیاست کہاں اور معمولی شعبدہ باز کہاں؟ سامری جادوگر کو بھی اگر اُس کی قبر سے نکال کر کچھ دیر کو زندگی دی جائے تو ہمارے اہلِ سیاست کے کمالات دیکھ کر آپ بھی شرمسار ہو اور ہمیں بھی شرمسار کرے کہ ہم نے خواہ مخواہ اُسے مہان جادوگر سمجھ رکھا ہے۔ سامری جادوگر جیسے شعبدہ باز کیا بیچتے تھے جو کسی بات پر فخر کرتے۔ کوئی دیکھے کہ ہمارے سیاسی شعبدہ بازوں نے باہم شیر و شکر ہوکر اِس بازار کی رونقوں میں کس قدر اضافہ کیا ہے۔ تاج محل اور ایفل ٹاور جیسی عمارتوں کو چند لمحات کے لیے غائب کرنے والے ذرا کرپشن کے مقدمات تو ڈھونڈ کر دِکھائیں! بجٹ میں منظور ہونے والے فنڈز دیکھتے ہی دیکھتے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ سو چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتے۔ لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں، سب کچھ ڈکار کر چل دیتے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ع آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا مفاہمت کی سیاست نے ہمارے ہاں ایسے کمالات کو جنم دیا ہے کہ تاریخ کے ہر دور کے نامور ترین جادوگر بھی کسی طور دیکھ پائیں تو انگشت بہ دنداں رہ جائیں، بلکہ اُنگلی کیا پورا پنجہ ہی حیرت کے عالم میں چبا ڈالیں۔ آگ اور پانی کو ایک پلیٹ فارم پر لانے والے، ایک دوسرے کے لیے بیر رکھنے والوں کو بھی مذاکرات اور مصالحت کی میز پر لانے والے فارمولے سے بڑھ کر کوئی شعبدہ ہے تو دُنیا ذرا اُس کا چہرہ تو کرائے۔ ہوڈینی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھولنے کے ہُنر میں طاق تھا۔ اللہ بُری نظر سے بچائے، ہمارے سیاسی شعبدہ گروں نے تو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ہی غائب کردی ہیں! ہوڈینی کی رُوح جواب دے کہ اُسے کِس کمال پر کیوں ناز تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں