جگرؔ مراد آباد ی کے استاد اصغرؔ گونڈوی نے خوب کہا ہے ؎ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے اگر آسانیاں ہوں، زندگی دُشوار ہو جائے! اس شعر کی تشریح، مختصر ترین الفاظ میں، یہ ہے کہ زندگی مشکلات کا سامنا کرکے اُنہیں شکست دینے کا نام ہے۔ ہر طرف آسانیاں ہوں تو زندگی دشوار ہوجاتی ہے کیونکہ آسانیاں کسی بھی چیلنج سے لڑنے کی طاقت پیدا نہیں ہونے دیتیں۔ اصغرؔ گونڈوی کی بات کو ویسے تو خیر پوری پاکستانی قوم ہی نے کسی نہ کسی حد تک اپنایا ہے مگر ہماری قومی کرکٹ ٹیم نے اِسے دانتوں سے پکڑ رکھا ہے! 30 اکتوبر کو شارجہ میں جنوبی افریقہ کے خلاف پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے ابتدائی میچ میں قومی کرکٹرز نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ اُنہیں مشکلات سے لڑنے ہی کا ہُنر نہیں آتا بلکہ وہ تو مشکلات پیدا کرنے کے فن سے بھی بخوبی واقف ہیں! پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جنوبی افریقہ نے 184 رنز اسکور کئے تو قوم نے سوچا 185 رنز کا ہدف بھی بھلا کوئی ہدف ہے۔ مگر لوگ یہ بات بھول بیٹھے تھے کہ آسانی سے جیت جانا ہماری ٹیم کے ’’شایانِ شان‘‘ نہیں! آں جہانی مہندر سنگھ بیدی سَحرؔ نے خوب کہا ہے ؎ ہوا جو تیرِ نظر نیم کَش تو کیا حاصل؟ مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے! اور جناب! تیر نے نیم کشی ترک کی تو سینے کے آر پار ایسا چلا کہ پورا میچ ہی آر پار یعنی اُس پار ہوگیا! جس میچ میں پاکستان کی گرفت ڈھیلی پڑنے کی کوئی گنجائش نہ تھی اُسے بھی ’’فوٹو فِنِش‘‘ کی منزل تک پہنچاکر مَدِ مقابل کا دِل توڑنے سے گریز کیا گیا ! لوگ حیران تھے کہ جس ’’حلوہ میچ‘‘ کو جنوبی افریقہ نے پلیٹ میں رکھ کر پاکستانی ٹیم کی نذر کیا تھا وہ راستے میں کہاں اٹک گیا؟ 185 کا ہدف دیکھ کر لوگ مطمئن ہوگئے تھے کہ یہ میچ تو اب کہیں نہیں جاتا! اور پھر اِسی لیے وہ ٹی وی سیٹس کے سامنے سے ہٹ گئے تھے۔ یہ قومی ٹیم کا کمال تھا کہ آسانی تج کر مشکل کو گلے لگایا اور میچ کی دال میں ایسا تڑکا لگایا کہ قوم پھر ٹی وی سیٹس کے سامنے بیٹھ گئی! اطمینان کی چادر اوڑھ کر سونے والے ہڑبڑاکر اُٹھے اور کلام اللہ جس قدر بھی یاد تھا اُس کا ورد کرنے لگے! آسان ہدف کو خاصی ’’مہارت‘‘ اور ’’جاں فشانی‘‘ سے ایسا مشکل بنادیا گیا کہ شائقین کے دِل و دماغ ڈپریشن کا ہدف ہوکر رہ گئے! یہ قوم بھی کیا سادہ ہے۔ جس کے باعث بار بار بیمار پڑتی ہے پھر عَطّار کے اُسی لونڈے سے دوا لیتی ہے! قومی کرکٹ ٹیم کو جب بھی کوئی آسان ہدف ملتا ہے، ہم اُمیدوں کے پوٹلے اپنے سَروں پر دَھر کر مِِنی اسکرین کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اُمید یہ ہوتی ہے کہ میچ پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں اب گِرا کہ تب گِرا۔ یاد رکھیے، اب اگر آپ کو قومی کرکٹ ٹیم کی فتح مقصود ہے تو اُس کے ہارنے کی دُعا مانگیے! تب ایک ضِد سی واقع ہوگی اور ٹیم ہارے میچ کو بھی جیت کر آپ کے قدموں میں ڈال دے گی! یہ کیس ’’چمچ، گلاس اور بالٹی‘‘ کا ہے۔ صحافیوں کی ایک ٹیم ذہنی امراض کے اسپتال کے دورے پر پہنچی۔ ایک صحافی نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھا آپ لوگ اِس امر کا تعین کس طرح کرتے ہیں کہ کسی کے دماغ کا کوئی پیچ ڈھیلا ہے اور اُسے علاج کے لیے داخل کرلینا چاہیے۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے کہا۔ ’’بہت آسان پروسیجر ہے۔ ہم ایک باتھ ٹب بھرتے ہیں اور پھر متعلقہ فرد کو چمچ، گلاس اور بالٹی دیکر کہتے ہیں کہ اُسے خالی کرے۔‘‘ صحافی بولا۔ ’’نارمل انسان یقینی طور پر بالٹی سے ٹب خالی کرے گا کیونکہ وہ بڑی ہوتی ہے۔‘‘ ’’جی نہیں۔‘‘ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے کہا۔ ’’نارمل انسان تو ’ڈرین پلگ‘ کھینچ کر ٹب خالی کرے گا۔ اب آپ بستر نمبر 39 پر لیٹ جائیں!‘‘ اب اِس قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ بھرے ہوئے ٹب کو ڈرین پلگ کھینچ کر خالی کرنے کے بجائے باقی تین آپشنز استعمال کئے جارہے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ گلاس اور بالٹی کے مُقدّر میں فراغت ہی فراغت لکھی ہوئی ہے، صرف چمچ کو زحمت دی جارہی ہے! شارجہ میں قومی کرکٹ ٹیم نے بھی میچ کے بھرے ہوئے ٹب کو ڈرین پلگ کھینچ کر خالی کرنے کے بجائے پہلے تو گلاس استعمال کیا اور پھر چمچ پر اُتر آئی۔ اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جن ستاروں کو تقریباً چُھو لیا تھا وہ ایک بار پھر آسمان کی چادر میں ٹنک گئے! بھرے ہوئے باتھ ٹب کو چمچ سے خالی کرنا وہ ذہنیت ہے جس نے پاکستانی قوم کے ذہن میں گھر کرلیا ہے، بلکہ اُسے گھیر لیا ہے۔ یہ اندازہ لگانا اب دردِ سر سے کم نہیں کہ کون نارمل ہے اور کون ابنارمل۔ حق تو یہ ہے کہ اب یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے والا تقریباً ابنارمل ہو رہتا ہے! جب قدریں بدل جاتی ہیں یا مسخ ہو جاتی ہیں تب کچھ بھی اپنی جگہ پر دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستانی معاشرہ ایسی ہی اُتھل پُتھل سے گزر رہا ہے۔ کوئی بھی چیز اپنے متعین مقام پر نظر نہیں آتی۔ کل تک جو کچھ قبولِ عام کی سَند کا حامل تھا وہ اب پامالی کے مرحلے میں ہے۔ اور جو کچھ راندۂ درگاہ تھا وہ قبولِ عام کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ ع تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا! گزرے ہوئے زمانوں کے پاگل بھی اعلیٰ ظرف کے حامل تھے، اپنے پاگل پن کا اعتراف کرکے سلاخوں کے پیچھے چلے جایا کرتے تھے۔ آج کے پاگلوں کو اگر آئینہ دکھایا جائے تو ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں کی طرح بحث کرنے لگتے ہیں، بلکہ کٹھ حُجّتی پر اُتر آتے ہیں! یعنی جو کچھ (ذہن نہیں) مُنہ میں آئے وہ خفیف سی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر ’’دلائل‘‘ کے طور پر داغتے چلے جاتے ہیں! آپ تھک جائیں گے، وہ نہیں تھکیں گے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ تنگ آکر اُنہیں اور خود کو ایک ہی کشتی میں سوار سمجھنے لگیں گے! اور جب یہ مقام آئے گا تو آپ بھی چمچ، گلاس یا بالٹی میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد آپشن اپنانے کا سوچیں گے اور بھول جائیں گے کہ بھرے ہوئے باتھ ٹب کو خالی کرنے کے لیے کوئی ڈرین پلگ بھی ہوا کرتا ہے!